ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اگر ایک ایسی حکومت قائم ہوجاتی ہے جس کی اپوزیشن اس کےساتھ مل کر ایک حقیقی جمہوریت کے قیام کا پیغام دے۔ ایسی حکومت جو نعروں کی بجائے عملی طور پر اپنے اس پروگرام پر عملدرآمد کا آغاز کردے جو اس نے انتخابی جلسوں میں کئے تھے۔ انتقامی سیاست کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو ساتھ لیکر چلے۔ قومی اسمبلی کا ایوان پارلیمانی روایات کا وہ منظر پیش کرے جہاں تمام ارکان ملک کی تعمیر و ترقی، جمہوریت کے استحکام اور انتخابات کے بعد آنے والے نظام میں لوگوں کی مشکلات، بیروزگاری، مہنگائی دور کرنے میں مل کر سوچ بچار کریں ، قانون سازی کریں۔ تو اسی وقت یہ بات صحیح ثابت ہوگی کہ ماضی معاملات میں جو بگاڑ پیدا ہوا تھا اور اب تک موجود ہے اس کی اصلاح کے لئے جمہورت کا تسلسل اورانتخابات کا انعقاد ایک صحیح اورواحدرستہ تھا اور ہے۔ لیکن اگر دھاندلی کے الزامات، انتخابی عمل کا بائیکاٹ، ہنگامے، نتائج تسلیم کرنے سے انکار یا پھر پارلیمانی ایوانوں میں دھینگا مشتی، دھرنے اور جوابی دھرنے، احتساب کے نام پر انتقام اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں محاذ آرائی شروع ہوگئی تو یہ اس بات کا مظہر ہوگی کہ سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ انتخابات بے مقصد قرار پائیں گے اور اپنے سیاسی رویوں اور مفادات سے جمہوریت کو کمزور کرنے والوں کو یہ کہنے کا حق بھی حاصل نہیں ہوگا کہ ’’بدترین جمہوریت بھی آمریت سے حد درجہ بہتر ہوتی ہے‘‘ اب ملک میں جمہوریت کو اس قسم کے رومانس اور رومانٹک جملوں کی ضرورت نہیں بلکہ اب وطن عزیزاوراس ملک اور اس کے کروڑوں سسکتے اور بلکتے لوگوں کے لئے حقیقتاً کچھ کرنا پڑیگا۔ ان لوگوں کے لئے جن کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں ہی ان کی خواہشیں بن کر رہ گئی ہیں۔ حالیہ انتخابی مہم میں لوگوں کا مطالبہ کیا تھا؟ صاف پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی۔ گندگی کے ڈھیر اور تعفن سے نجات، پکی سڑکیں، صاف گلیاں اور اچھے سکول، مہنگائی کا خاتمہ ، یقینی روزگار، سرکارکی طرف سے تحفظ کی ضمانت ،ایک باعزت اور خودداری کی زندگی۔ یہ مطالبے نہیں بلکہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں ہیں جنہیں پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن انہیں لوگوں کے خواب اور خواہشیں بنادیا گیا ہے۔ اگر انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت اور اپوزیشن آپس میں الزامات کی سیاست اور ایوانوں میں دست و گریبان ہونے کی بجائے ان کروڑوں لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کے ’’خوابوں کی تعبیر‘‘ بھی دے دے تو جمہوریت کا بول بالا ہوگا وگر نہ ایسا نہ ہو کہ علامہ اقبال کے اس شعر
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کی جگہ جمہوریت کے بارے میں بھی ایسے ہی مفہوم کی شاعری شروع ہوجائے۔اب اس دوران تمام صورتحال کی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جو پاکستان کا مستقبل نظام حکومت کے حوالے سے کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بہر حال آنے والے وقت سے بہتر امیدیں ہی رکھنی چاہئیں۔ نئی حکومت کا آغاز ایک مشکل سفر سے ہوگا اسے اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی برق رفتاری سے کرنا ہوگا۔ ملک میںامن و امان کا قیام اگر پہلی ترجیح ہے تو دوسری ترجیح ملک کی معاشی صورتحال ہے
یہ بگڑتی ہوئی کمزور معیشت کا ہی نتیجہ تھا کہ روس جیسی عالمی طاقت جس کے پاس جدید ترین اسلحے کے امبار تو موجود تھےلیکن لوگ ڈبل روٹی بھی طویل قطار یں کھڑے ہو کر حاصل کرتے تھے۔ اپنی معیشت کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث ہی روس ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ریاستوں میں تبدیل ہوگیا ۔۔۔اس ضمن میں ایک حالیہ مثال دوست ملک ترکی کی بھی دی جاسکتی ہےجہاں معیشت کے حوالے سے خوشگوار اشارے نہیں مل رہے ۔ صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ ماہ جون میں جب الیکشن میں دوبارہ کامیابی حاصل کرکے سربراہ مملکت ، سربراہ حکومت اور پارٹی کی قیادت سنبھال کر اپنے اقتدار کی طوالت کو تو یقینی اور مستحکم بنالیا ہے اور اپنے منصب کی حلف برداری کے موقع پر ترک عوام سے انہیں ایک خوشحال اور شاندار مستقبل کی فراہمی کا وعدہ کرتے ہوئے یہ نوید بھی سنائی تھی کہ ’’ ترکی عنقریب دنیا کی دسویںبڑی طاقت بن جائیگا‘‘ لیکن ابھی چند ہفتے ہی گزرے ہیں کہ ترکی میں اس حوالے سے پاکستان جیسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
پاکستان میں نئی حکومت کو درپیش چیلنجز میں معیشت کی صورت حال سے نبردآزما ہونا ایک بڑی آزمائش ہو گی۔ گزشتہ سال میاں نواز شریف کی وزیراعظم کے منصب سے سبکدوشی کے بعد قومی اور سیاسی امور میں جو اضطراب پیدا ہوا اس باعث جو اہم شعبے بحران کا شکار ہونا شروع ہوئے ان میں معیشت سرفہرست تھی۔ سیاسی بے یقینی اور عدم اعتماد کی فضا میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہی اور حکومت نے ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ کے انداز میں کام چلانے کے لئے بے شمار قرضے لئے جن کا بھاری بوجھ ملکی معیشت پر بھی پڑاتھا جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر ملکی قرضے 100ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ان قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ درآمدات میں خطیر اضافہ اور برآمدات میں مسلسل کمی سے حالات مزید کشیدہ ہوگئے اور اب بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ نئی حکومت کے پاس ایک بار پھر آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہو گا اور اگر پاکستان آئی۔ ایم ۔ ایف کے پاس جاتا ہے اور بیل آئوٹ پیکیج کے لئے درخواست کرتا ہے تو وہ پاکستان کو اپنی شرائط کے ذریعے مجبور کرے گا کہ وہ بعض اہم شعبوں میں کئے جانے والے اخراجات کم کرے اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ آئی۔ ایم ۔ ایف پاک چین راہداری منصوبے کی بھی مخالفت کرے ۔ رواں ماہ کے وسط میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کم وبیش سات روپے تک ریکارڈ کی گئی اور انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر پاکستان کی مالیاتی تاریخ میں پہلی بار 130روپے سے تجاوز کر چکا ہے اس طرح پاکستانی روپے کی بے قدری نے افغان اور بنگلہ دیشی کرنسی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کابل میں اس وقت امریکی ڈالر 70 افغانی کا اور ڈھاکہ میں84 اعشاریہ تین ٹکہ کے برابر ہے اور یہ صورت حال صرف نئی حکومت کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔دوسرا اہم چیلنج پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی ہے اور انتخابی مہم کے دوران شاید ہی بالخصوص مرکزی راہنماؤں بشمول بڑی جماعتوں کے قائدین کے کسی نے اپنے منشور کے حوالے سے ملک کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کوئی سنجیدہ بات یا ٹھوس پروگرام دیا ہو۔ اگر کسی نے بات کی بھی ہے تو وہ محض وہی روایتی بات کہ ’’ہم تمام ملکوں سے بہتر تعلقات بنائیں گے‘‘۔ حالانکہ یہ بات خاصی حد تک درست ہے کہ پاکستان ایک خاص حوالے سے تنہائی کا شکار ہے۔ اس ضمن میں ماضی قریب کی محض ایک یہی مثال بھی کافی ہے کہ چند ہفتوں قبل جب پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں ڈالنے کا معاملہ درپیش تھا تو جن ممالک نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا اُن میں وہ ممالک بھی شامل تھے پاکستان جنہیں اپنے قریبی دوستوں میں شمار کرتا ہے ۔ پڑوسی ممالک میں افغانستان، بھارت، ایران جن سے ہماری سرحدیں جڑی ہیں ہمارے اُن سے تعلقات کوئی خوشگوار نہیں ۔ ایک واحد ملک چین ہے جو ہمارے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور پاکستان کے لیے ڈومور کے مسلسل امریکی مطالبوں نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک سرد مہری پیدا کررکھی ہے اور تعلقات میں فراز تو کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں ، اس لیے آنے والی حکومت کو خارجہ پالیسی کے اس ضمن میں بعض غیر معمولی اقدامات کا بڑی سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور وزارت خارجہ کے وقار اور اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں کی جانے والی تقرریوں کو باہمی چپقلش اور داخلی سطح پر ہونے والی کشمکش سے دور رکھنا ہوگا جیسا کہ ماضی قریب بھی دیکھنے میں آیا۔ آنے والی حکومت کو پڑوسی ملکوں سے تعلقات میں زیادہ بہتری لانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا بالخصوص افغانستان کے ایشو پر لگی بندھی وہ پالیسی جو گزشتہ ایک مدت سے جاری ہے اس پر نظر ثانی کرنا ہوگی کیونکہ اب تک کی پالیسیوں سے مسائل کے حل کی طرف کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی اور معاملات جوں کے توں دکھائی دیتے ہیں اس لئے دیرینہ حل طلب تنازعات کے لیے اب فیصلہ کن مذاکرات صورتحال کے متقاضی ہیں کیونکہ افغانستان کی صورتحال کے اثرات سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ بھارت میں انتخابات کے دوران پاکستان کے خلاف ردعمل کا اظہار ایک دیرینہ روایت ہے۔ بھارت ہمیشہ اپنے ہاں ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ایک پالیسی کے طور پر کرتا ہے اور وہاں سیاسی جماعتوں کے راہنما بالخصوص اُن بڑی جماعتوں کے قائدین جو’’پردھان منتری‘‘ کی کرسی پربراجمان ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ اپنی انتخابی مہم میں پاکستان کےساتھ دشمنی کو اپنا سلوگن ضرور بناتے ہیں ۔ کامیابی سے قبل نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف منظم طور پر مہم چلانے کی حکمت عملی وضع کی جسے نہ صرف انتہا پسند ہندوئوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا بلکہ اسی حکمت عملی کے تحت نریندر مودی نے اپنی سیاسی حریف جماعت کو بھی شکست دی۔ گو کہ پاکستان کے تمام اہم سیاستدانوں نے اس حوالے سے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور تنازعات کے خاتمے کے لئے یہاں کسی خواہش یا ارادے کا اظہار نہیں کیا گیاجو بہت ضروری تھا مجموعی طور پر کسی بھی جماعت کی قیادت نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی ٹھوس بات نہیں کی نہ اپنے منشور میں اور نہ ہی تقاریر میں۔ خارجہ پالیسی اور معیشت کے علاوہ دہشت گردی کا خاتمہ، بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کی قلت کا مسئلہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بھی آنے والی حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہونگے ۔