• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حُسنِ عمل پر حُسنِ گفتار کا دارومدار
اگر حسن گفتار کی بات کی جائے تو عمران خان کی وکٹری اسپیچ ہماری رائے بزبان غالب یوں ہے؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
حسن لفظ، جب حسن عمل میں ڈھلتا ہے تو حسن کلام کی لذت ایک طویل عرصہ کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے، ورنہ بے عملی، بولنے کا حسن بھی چھین لیتی ہے، انہوں نے جو کہا خوب کہا مگر کچھ باتیں وہ قلم کی بھی سن لیں، شاید لوح عمل پر نشان منزل ظاہر ہو، پہلی بات: کابینہ مختصر مگر جامع، دوسری بات، جو لائق اور دیانتدار بیورو کریٹس کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں ان کو برسر عمل لانا، تیسری بات:پارلیمنٹ کو اپنے آفس کا درجہ دینا، اگر ان تین باتوں کو اہمیت دی گئی تو باقی ساری باتیں بھی ہو جائیں گی۔ یہاں بات سے ہماری مراد قول نہیں فعل ہے
عمل سے بنتی ہے حکومت جنت بھی جہنم بھی
عمل نہیں تو نوری ہے نہ ناری ہے
جب یہ دعویٰ کر دیا کہ ریاست مدینہ کے طرز پر ایک حکومت، ریاست کھڑی کرنی ہے تو پھر منشور پیش کرنے کی شاید کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ ریاست مدینہ میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے جو آج ہمیں درپیش ہیں جدوجہد تمام ہوئی، پھل مل گیا اب آزمائش شروع، جب ریاست مدینہ کہہ دیا تو پھر ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ ریاست مدینہ جہاں نما ہے، مشکلات پہلے سے تیار کھڑی ہیں، راستہ ہموار نہیں، مگر؎
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
صوفیہ کرام کامیاب انسان ہوتے ہیں، ان کے ہاں تین اصول پر عمل دیکھنے کو ملتا ہے نہ طمع، نہ جمع، نہ منع، آسائش و آرام بہت دیکھ لیا، اب عمران خان کے سامنے سونے کے لئے کانٹوں کا بستر ہے اور یہ وہی کانٹے ہیں جو غریبوں محروموں کے تن بدن میں مستقل پیوست ہیں۔
٭٭٭٭
ممکنہ خاتون اول کا پیغام
عمران کی اہلیہ نے عوام کو مبارکباد دینے کے بعد یہ پیغام دیا ہے:آپ کا لیڈر خیال بھی رکھے گا اور حفاظت بھی کرے گا۔ کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، مگر یہاں تو پے در پے تین چار خواتین کا ہاتھ رہا ہے اگر اب بھی خان صاحب ایک کامیاب، عادل و دیانتدار حکمران نہ بن سکے تو پھر ہماری یا ان کی قسمت ہی خراب ہو گی، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا کہنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کو اب ایک تگڑی اپوزیشن کا سامنا کرنا ہو گا، اب اگر انہوں نے بڑے تحمل سے یہ موقف اپنائے رکھا کہ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے، پھر ستے ای خیراں، ابھی تو انہوں نے حلف نہیں اٹھایا اس لئے ’’چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ‘‘ کے مصداق ہم خان صاحب سے حد ادب کا حجاب ہٹا کر بات کر سکتے ہیں، اب پچھلی زندگی کی طرف مڑ کر نہ دیکھیں، صرف اپنی عافیت سنوارنے پر زور دیں، اگر ان کی عافیت سنور گئی تو ہماری زندگی بھی سنور جائے گی، اگر لیڈر صاحب کردار ہو تو اس کے اردگرد تمام کردار اس کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں، جس دن رہنما کی چال ڈھال بگڑنا شروع ہو جائے اسی روز سے اس کا کائونٹ ڈائون شروع ہو جاتا ہے، یہ نہ ہو کہ پیاسے کو چشمے پر لے جا کر واپس لے آئیں اور پوری قوم دہائی دے ’’اب کسے رہنما کرے کوئی‘‘۔ چونکہ وہ نان پشتو اسپیکنگ پٹھان ہیں، تو مکمل پٹھان بننے کے لئے پشتو بھی سیکھ لیں، اور استاد کسی یوسفزئی کو بنائیں کیونکہ پشتو یوسفزئی قبیلے ہی کی مستند ہے، اس طرح گلالئی کا یہ طعنہ بھی زائل ہو جائے گا کہ یہ کیسا پٹھان ہے جسے پشتو نہیں آتی، تاریخ بتاتی ہے کہ میانوالی کبھی افغانستان کا حصہ تھا، تو ضرور کچھ پشتیں اوپر ان کے اجداد پشتو بولتے ہوں گے، سنا ہے کہ وہ شرمیلے ہونے کے ساتھ بڑے مروت والے بھی ہیں، اس لئے مروت میں آ کر وہ خوشامد گروں کا شکار نہ ہو جائیں بہادر شاہ ظفر کے زوال کا باعث خوشامد گر اور شوبز والے تھے ’’انہیں منہ لگانے کی کوشش نہ کرنا‘‘
٭٭٭٭
ایسی باتیں نہ کریں
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے: انتخابات کے نتائج سے بھارت امریکا سمیت عالمی ایجنڈے کو شکست ہوئی، شیخ سعدی نے شاید خان صاحب کے لئے بھی کہا تھا ’’نہ یک لقمہ صبح نہ دہ لقمہ شام، نہ یک یار پختہ نہ دَہ یارِ خام‘‘ (صبح کا ایک لقمہ شام کے دس لقموں اور ایک پکا یار دس کچے یاروں پر بھاری) شیخ رشید اور شیخ سعدی میں زمین آسمان کا فرق ہے، ویسے بھی ان کا شیخ برادری سے کوئی تعلق نہیں تھا، شیخ رشید خالص پاکستانی شیخ ہیں، مخلص بھی ہیں اور ’’نادان‘‘ بھی نہیں، ان کے خلوص پر کوئی شک نہیں مگر ان کی دانائی پر تحفظات ہیں، اس لئے عمران خان اپنے اس عبقری دوست کی عبقریت کا بھی خاص خیال رکھیں، خان صاحب کی فتح سے بھارت، امریکا اور عالمی ایجنڈے کا کیا لینا دینا، اس طرح کے بیانات ’’آ بیل مجھے مار‘‘ بیانات ہوتے ہیں، نفع تو کیا البتہ نقصان یقیناً ہوتا ہے خان صاحب ہرگز کبھی شیخ صاحب کو ضائع نہ کریں انہیں ساتھ لے کر چلیں کہ ایسے لوگ ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ کیٹیگری میں فال کرتے ہیں، ہمیں پوری دنیا کو اپنا ایجنڈا دینا ہے، اس کے ایجنڈے کے خلاف جہاد نہیں کرنا، ہمیں کیا پتہ کہ ساری دنیا کا ایجنڈا ہمارے بارے ایک جیسا ہے۔ ہماری پالیسی سب دا بھلا سب دی خیر ہونی چاہئے، خواجہ آصف کی اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ’’ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا‘‘ عمران خان سے توقعات کے حوالے سے ہم پوری قوم سے گزارش کریں گے کہ ان میں کچھ کمی نہیں ہو سکتی؟ اگر اپوزیشن نے برائے اصلاح احوال اپوزیشن کی تو پاکستان آگے بڑھے گا اور اگر خان کے دعوئوں کو طعنہ بنا دیا گیا تو خلفشار پیدا ہو گا، البتہ یہ اپوزیشن کا فرض ہو گاکہ وہ خان صاحب سے ان کے کئے گئے وعدے پورا کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں۔
٭٭٭٭
پہنچی وہیں پہ جیپ!
....Oچیف الیکشن کمشنر:نتائج میں تاخیر کی وجہ تکنیکی خرابی، اسکینڈل نہیں بنانا چاہئے۔
اسکینڈل کے لئے بھی ایک خاص عمر درکار ہوتی ہے، اب تو بس نتائج کا ہنوز انتظار ہے۔
....Oعمران خان:وزیراعظم، گورنر ہائوسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کروں گا۔
دیکھ لیں، سوچ لیں، کیا ایسا کر دکھائیں گے؟ اگر یہ نہ کیا تو کچھ نہ کیا۔
....O بالواسطہ پیار:میرے بیٹوں کے والد پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہیں:جمائما۔
....Oچوہدری نثار کی جیپ پنجاب اسمبلی پہنچ گئی۔
پہنچی وہیں پہ جیپ جہاں اس کا اڈہ تھا۔
....Oفضل الرحمٰن کا پی این اے کی طرز پر تحریک چلانے کا اعلان،
جبکہ ن لیگ نے کہا:وفاق، پنجاب میں ن لیگ اپوزیشن میں بیٹھے گی۔ فرق صاف ظاہر ہے۔
....O انور مقصود نے لکھا ہے:دنیا دیکھ رہی ہے؎
قائد و اقبال کے خواب کو دیوانہ وار دیکھ
یہ دیکھنے کی چیز ہے اسے بار بار دیکھ
انورمقصود یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں ذرا دھیان سے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین