• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن اور اُس کے بعد...وقت کم، مقابلہ سخت

2018ء کا الیکشن اپنے پیچھے کئی تلخ اور شیریں یادیں چھوڑ گیا، لیکن اس کے اثرات مُلک کی سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی پر شاید کئی دہائیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ عوام میں سیاسی شعور کی بیداری کا جو چرچا کئی برسوں سے ہو رہا تھا، وہ الیکشن ڈے کو ایک حقیقت میں ڈھل گیا اور عمران خان کا یہ نعرہ سچا ثابت ہوا کہ’’ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چکی ہے۔‘‘ عوام نے اس الیکشن میں کئی سیاسی بُرج الٹ دیے اور دہائیوں سے سیاست میں موجود کئی خاندانوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ سوشل میڈیا نے بھی انتخابات میں پہلی بار بھرپور کردار ادا کیا۔ گو کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے پروگرامز کی تشہیر کے لیے بہت سے طریقے آزمائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے بڑی سیاسی تبدیلی کے پسِ پردہ دیگر عوامل کے ساتھ، ایک بڑا فیکٹر سوشل میڈیا کا بھی تھا۔

لاہور کے اکثر باسیوں کی پُرانی عادت ہے کہ وہ چُھٹّی کے روز دیر سے اٹھتے ہیں اور اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ بچّوں کے ساتھ کہیں باہر جا کر ناشتہ کیا جائے، یا کم ازکم گھر ہی میں نان چنے، مٹن قورما، حلوہ پوری، سِری پائے وغیرہ منگوا لیے جائیں، لیکن الیکشن کے دن، جب کہ موسم ابر آلود تھا اور کہیں کہیں بوندا باندی بھی ہو رہی تھی، لاہوریوں کی صبح کا آغاز نمازِ فجر کے بعد ہی ہو گیا تھا اور پولنگ اسٹیشنز پہنچنے کے منصوبے بننے لگے تھے۔ امیدواروں نے ٹرانسپورٹ کا اہتمام کیا تھا اور ووٹرز کو صبح سویرے ہی فون آنے شروع ہو گئے کہ’’ اگر پولنگ اسٹیشنز تک پہنچنے میں کوئی دقّت ہو، تو بلاجھجک حکم کیجیے‘‘، لیکن بیش تر ووٹرز نے اپنی گاڑیوں ہی میں جانے کو ترجیح دی۔ اسی لیے پولنگ اسٹیشنز کے نزدیک گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں۔ خواتین اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی پُرجوش تھیں اور وہ پولنگ شروع ہوتے ہی پولنگ اسٹیشنز پہنچ گئیں۔ صرف ووٹر خواتین ہی نہیں، اُن کے بچّے بھی ساتھ تھے، جس سے پولنگ اسٹیشنز خاص طور پر ڈیفینس میں پکنک کا سا سماں دِکھائی دیا۔ نواز شریف کی عُمر رسیدہ والدہ نے اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ میں قائم پولنگ اسٹیشن میں اپنا ووٹ ڈالا۔ شہباز شریف 8بجنےسے دس منٹ پہلے ہی ووٹ ڈالنے کے ماڈل ٹائون کے پولنگ اسٹیشن، گورنمنٹ جونیئر ماڈل اسکول پہنچ گئے۔ سلیمان شہباز نے بھی اُن کے ساتھ قطار میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالا۔ ڈیفینس میں قائم پولنگ اسٹیشنز میں خواتین، جہاں عمران خان اور سعد رفیق کے درمیان مقابلہ تھا، پی ٹی آئی کے پرچم والا لباس پہن کر پہنچیں اور سیلفیاں بناتی رہیں۔ اس پولنگ اسٹیشن پر سارا دن نعروں کا مقابلہ بھی چلتا رہا۔ جس میں زیادہ گرمی اُس وقت پیدا ہوئی، جب سعد رفیق خود ووٹ ڈالنے کے لیے پہنچے۔ یہاں خواتین ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد بھی کافی دیر تک ایک دوسرے سے گپ شپ لگاتی رہیں، اکثریت نے تو لنچ بھی پولنگ اسٹیشنز پر کیا۔ نیز، صرف لاہور ہی نہیں، پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی ووٹرز کے کھانے پینے کا وافر انتظام موجود تھا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس بار ووٹرز نے قیمے والے نان کا فلسفہ رَد کر دیا۔

الیکشن اور اُس کے بعد...وقت کم، مقابلہ سخت

صوبائی دارالحکومت میں ووٹرز کے جوش وخروش کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بعض معذور اور بزرگ بھی سخت حبس اور شدید گرمی کے باوجود ووٹ ڈالنے پہنچے۔ بعض نے ویل چیئر استعمال کی، تو کئی بزرگوں کو اُن کے عزیز واقارب گود میں اٹھا کر لائے۔ پولنگ بوتھ تک جانے میں پولیس اور فوجی جوانوں نے بھی اُن کی مدد کی۔ حتیٰ کہ کئی جگہوں پر اُنہیں کندھوں پر سوار کرکے بھی اندر لے جاتے دیکھا گیا، جس پر ڈی آئی جی اپریشن نے شہریوں کی مدد کرنے پر پولیس اہل کاروں کے لیے انعام اور تعریفی اسناد کا اعلان کیا۔ کینٹ کی رہائشی بزرگ خاتون وہیل چیئر پر پولنگ اسٹیشن پہنچیں اور جب لوگوں نے اُن سے پوچھا کہ’’ آپ نے اس عُمر اور بیماری میں کیوں تکلیف کی‘‘، تو اُنہوں نے جواب دیا’’ بیٹا! تبدیلی گھر بیٹھنے سے نہیں آتی۔‘‘ بزرگ خاتون نے جو کہا، اس کے مظاہر اس تاریخی دن جگہ جگہ نظر آئے۔ 

الیکشن ڈے پر لاہور کی بیش تر سڑکیں سنسان اور خالی پڑی تھیں، تاہم پولنگ اسٹیشنز کے باہر ٹریفک کی صُورتِ حال خراب رہی اور کئی سڑکوں کی ناکہ بندی کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حالاں کہ اس روز شہر میں ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے لیے 12ڈی ایس پیز، 168ٹریفک آفیسرز، 234پٹرولنگ آفیسرز اور 125لیڈی ٹریفک وارڈنز کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ اگرچہ پولنگ کے روز عام تعطیل تھی، لیکن ڈاکوئوں اور چوروں نے اُس دن بھی چُھٹّی نہ کی اور لاکھوں کے ڈاکے پڑ گئے۔ کئی گاڑیاں اور موٹر سائیکلز چوری ہوگئیں۔ خواجہ سرا بھی توجّہ کا مرکز بنے رہے، جنہوں نے شناختی کارڈز ملنے کے بعد پہلی بار اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔ پُرانے لاہور میں وہ رقص کرتے ہوئے پولنگ اسٹیشنز پہنچے۔ لاہور میں اس روز پہلی مرتبہ چھٹّی کے باوجود پارکس میں رَش کم دیکھنے میں آیا ،کیوں کہ مرد اور خواتین انتخابی گہما گہمی میں مصروف تھے۔

اگرچہ خاندانوں میں مختلف سیاسی وابستگیوں کا رجحان 2013ء میں بھی تھا، لیکن 2018کے الیکشن میں کُھل کر سامنے آیا۔ اس حوالے سے کئی دِل چسپ مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ مثلاً لاہور کے شاہدرہ پولنگ اسٹیشن پر 5بھائیوں پر مشتمل ایک فیملی ایسی بھی آئی، جس میں ایک بھائی پی ٹی آئی کا حامی تھا، تو دوسرا نون لیگ کا۔ تیسرے نے پیپلز پارٹی کے بیج لگائے ہوئےتھے، تو ایک باریش بھائی دینی جماعتوں کا حامی تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ ہمارا جوائنٹ فیملی سسٹم ہے، تاہم کھانا الگ، الگ پَکتا ہے۔ رات کو حویلی کے دلان میں سب کی ملاقات ہوتی ہے۔ لوہے کے کاروبار سے وابستہ والدِ محترم بھی موجود ہوتے ہیں، جو خود کسی زمانے میں سیاسی کارکن تھے۔ سب کے درمیان بحث مباحثہ ہوتا ہے، لیکن بات کبھی تلخ کلامی تک نہیں پہنچی۔‘‘ یوں کم از کم اس خاندان نے تو ثابت کر دیا کہ مختلف سیاسی نظریات کے حامل لوگ بھی ایک چھت تَلے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ 2018ء کے الیکشن نے ہماری سماجی اور سیاسی زندگی پر کئی اَن مِٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ پنجاب ذات، برادریوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور برادری کا بڑا جو فیصلہ کرتا ہے، باقی اس پر عمل کرتے ہیں، لیکن 2018ء کے الیکشن نے سیاسی وابستگیوں کے نئے رجحانات متعیّن کر دیے، جن میں سب سے نمایاں عُنصر، تعلیم یافتہ نوجوانوں کا تھا، جنہوں نے اس مرتبہ ذات، برادریوں سے ہٹ کر حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ جدید اسمارٹ موبائل فونز رکھنے والے ان نوجوانوں نے نہ صرف اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیے، بلکہ سوشل میڈیا کی جنگ میں بھی بھرپور حصّہ لیا۔ ایسا بھی ہوا کہ پڑھی لکھی بیوی اگر ایک پروگریسیو جماعت کی سپورٹر ہے، تو میاں کسی ایسی جماعت کے حق میں ہیں، جن سے اس خاندان کی وابستگی بزرگوں سے چلی آرہی تھی۔ ذات برادری میں سیاسی وابستگیوں کے بدلتے رجحانات 2018ء کی الیکشن کا ایک منفرد پہلو تھا، جو یقیناً آیندہ آنے والے انتخابات میں مزید زور پکڑے گا۔ پھر یہ بھی کہ الیکشن 2018 ء کا شاید ہی کوئی پہلو ایسا ہو، جسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ڈسکس نہ کیا گیا ہو۔ تاریخی سماجی، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے ابھی اس پر مزید بحث مباحثہ جاری رہے گا، کیوں کہ اس الیکشن نے کئی بڑے بڑے سیاسی بُرجوں کو الٹ دیا۔ کئی نتائج لوگوں کی توقّعات کے برعکس نکلے، کئی حلقوں میں موروثی سیاست کا باب بند ہوگیا۔

آئیے دیکھتے ہیں، مختلف طبقات اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں۔معروف ادیب اور ڈراما نگار، مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں’’ میری ساری عُمر سیّاحت میں گزری ہے۔ اب نئی قیادت آنے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ بیرونِ مُلک پاکستانی پاسپورٹ کو وہ عزّت ملے گی، جو ہمارے سابق حکم رانوں کی غلط پالیسیز کے باعث ہم سے چِھن گئی تھی۔ بیرونِ مُلک پاکستانیوں کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ توقّع ہے کہ پاکستانیوں کا چھینا ہوا وقار اُنہیں واپس مل جائے گا اور ہر ائیرپورٹ پر اُنہیں قطار سے علیٰحدہ کرکے درشت لہجے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔‘‘ نوجوان کیمیکل انجینئر، عبدالباسط برمنگھم، برطانیہ سے خاص طور پر ووٹ ڈالنے آئے۔ عبدالباسط اس بات پر شدید برہم تھے کہ’’ بیرونِ مُلک مقیم ایک کروڑ پاکستانیوں کو حقِ رائے دہی سے محروم رکھا گیا ہے، حالاں کہ آج کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے دَور میں سفارت خانوں میں جاکر ووٹ ڈالنا کوئی مشکل بات نہیں، لیکن ایک سیاسی جماعت کو خدشہ لاحق تھا کہ اگر اُنہوں نے اجازت دے دی، تو یہ لوگ پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔‘‘ ڈیفینس کے پوش علاقے میں محنت مزدوری کرنے والے ایک نوجوان، غلام حسین کے خیال میں’’ مُلک کا حکم ران جو بھی آئے، اُسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ اب تک جتنے بھی حکم ران آئے، پتا نہیں کیا، کیا وعدے کرتے رہے، لیکن اس کی زندگی جیسی پہلے تھی، آج اس سے بھی بدتر ہے۔‘‘دھرم پورہ، لاہور کے ایک گنجان آباد علاقے میں 3مرلے کے تنگ وتاریک کمرے میں دو کم سن بیٹیوں کے ساتھ مقیم، طاہرہ بی بی کے بھی تقریباً یہی خیالات ہیں کہ الیکشن اس کی زندگی کو نہیں بدلے گا۔ 

الیکشن اور اُس کے بعد...وقت کم، مقابلہ سخت

ایف اے تک تعلیم یافتہ یہ خاتون، 7سال قبل اپنے ہم سفر سے محروم ہو گئی تھیں۔ اب اس دنیا میں خدا کے سوا اس کا کوئی سہارا نہیں۔ وہ صرف ایک دو مخیّر افراد کی امداد کے سہارے جی رہی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ الیکشن آئیں، جائیں، ہماری زندگی پر کیا اثر پڑے گا۔ لوگ جس طرح الیکشن پر خرچ کر رہے تھے، اس سے تو مُلک بھر میں تمام غریبوں کے لیے کئی سال تک کھانے کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ جس روز باہر گلیوں، سڑکوں پر روپیا پیسا بہایا جا رہا تھا، اس روز بھی ہمارے گھر کھانے کو کچھ نہیں پکا اور بچیّاں بھوکی سوئیں۔‘‘ فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کے جنرل سیکرٹری اور مزدور رہنما، خورشید احمد کو توقّع ہے کہ یہ الیکشن شاید پاکستان بھر کے مزدوروں کے لیے بہتر ثابت ہوں، کیوں کہ عمران خان نے اپنی تقاریر میں بار بار غریب طبقے کو اوپر لانے کا کہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ’’ سابق حکم رانوں کی شاہ خرچیوں کے باعث غریب طبقہ مہنگائی اور کم تن خواہوں کے ہاتھوں زندگی اور موت کی کَش مکش میں مبتلا ہے۔ اُن کے بچّے اچھے اسکولز میں نہیں جا سکتے۔ رہنے کو جگہ ہے، اور نہ علاج معالجے کے لیے پیسے۔ اُنھیں پینے کے لیے صاف پانی تک میّسر نہیں۔ 

ساری عُمر روزی روٹی کے چکر ہی میں گزر جاتی ہے اور جب وہ اسی کَش مکش میں ہمّت ہار جاتے ہیں، تو بیوی بچّے اُنھیں سُپردِخاک کرکے خود ایک نئی آزمائش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر پاکستان کے محنت کَش اور مزدور طبقے کو عزّت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع مل جائے، تو الیکشن ہمارے لیے باعثِ رحمت ہوں گے۔‘‘خاتونِ خانہ، مسز جاوید کو نئے حکم رانوں سے بہت توقّعات وابستہ ہیں۔ اُن کی نظر میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر کسی کا کنٹرول نہیں اور تن خواہ 15تاریخ سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے، پھر بچّوں کی فیسز اور بجلی کے بِلوں کے لیے ادھار لینا پڑتا ہے۔ حکم رانوں کو تو آٹے دال کا بھائو بھی معلوم نہیں، وہ مہنگائی کا خاتمہ کیسے کریں گے۔‘‘ تاہم مسز جاوید کو امید ہے کہ شاید نئی حکومت ایسے اقدامات کرے کہ ایک عام پاکستانی کا بھی عزّت سے گزارا ہو سکے۔پنجاب یونی ورسٹی کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر عبدالرحیم خان کو نئی حکومت سے کچھ زیادہ توقّعات نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ جو بھی نیا حکم ران آتا ہے، چند ہی دنوں میں حاشیہ بردار اور مشیر اُس کے گرد ایک ایسا حصار قائم کر دیتے ہیں کہ اُسے ’’سب اچھا ہے ‘‘ہی نظر آنے لگتا ہے۔ مُلک سے غربت اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ اشرافیہ کے جو 200ارب ڈالرز باہر پڑے ہیں، اُنھیں پاکستان لاکر عوام کی بہبود پر خرچ کیا جائے اور مُلک لُوٹنے والوں کو عبرت ناک سزائیں ملنی چاہئیں۔ 

نیز، عوام کو اگر صاف پانی ملے، علاج معالجہ کی سہولت حاصل ہو، مہنگائی کا خاتمہ ہو، انصاف ملے اور بچّوں کو تعلیمی سہولتیں حاصل ہوں، تو یہ چھوٹی چھوٹی خواہشات رکھنے والے معصوم پاکستانی سمجھیں گے کہ وہ جنّت میں رہ رہے ہیں۔ اور ہاں ،اگر لیڈر مخلص ہو، تو یہ ناممکنات میں سے بھی نہیں۔‘‘ فزکس کے استاد، عبدالحکیم نے کہا’’ مجھے نئی حکومت سے بہتری کی کوئی خاص امید نہیں ہے، کیوں کہ مسائل کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔ پھر ہارنے والے بھی عمران خان کو چَین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ نئی حکومت حسبِ روایت یہی کہے گی کہ’’ خزانہ خالی اور ڈالر بے قابو ہے۔‘‘ علاوہ ازیں، بے شمار میگا پراجیکٹس بہ شمول اورنج ٹرین ادھورے پڑے ہیں۔ پھر ان پر دی جانے والی کروڑوں کی سبسڈی الگ ایک مسئلہ ہے۔ صحت کا حال یہ ہے کہ ہر دوسرا بالغ شخص، بلڈ پریشر کی گولی کھا رہا ہے۔ تعلیم کا شعبہ تباہی سے دوچار ہے اور ایک عام شخص کسی اچھے نجی تعلیمی ادارے میں بچّوں کو پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھر سی پیک کے علیٰحدہ مسائل ہیں۔ یعنی مسائل کی اس K-2چوٹی کو عمران نے سر کرلیا، تو یہ پاکستانی تاریخ کا ایک بڑامعرکہ ہو گا۔‘‘

تازہ ترین