اسے ہماری بدقسمتی کہئے یا غلط روش جس کے نتیجے میں ہم استبداد کے پنجے میں اس طرح جکڑے جاچکے ہیں کہ اس دامِ بلاسے رہائی نا ممکن نظر آتی ہے ۔ اس کی ایک وجہ ہماری ذہنی غلامی ہے جس سے کہ ہمار ی فکر وعمل کا کوئی گوشہ بھی آزاد نہیں۔ دنیا میں وہی قومیں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوتی ہیں جو غلامی کی اس کیفیت کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوں عمل کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ اگر ہم پر کوئی مصیبت آجائے توہم تن بہ تقدیر رہنے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اسلئے اگر کیسا ہی حادثہ کیوں نہ پیش آجائے۔ ہم اس کے اسباب پر نہ تو غورکرتے ہیں اور نہ مستقبل میں انکے تدارک کی فکر کرتے ہیں ۔واقعہ کوئی بھی ہوجائے حادثہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارا بے عملی پر مبنی جواب ایک ہی ہوتا ہے کہ بس ”اللہ کی مرضی“ ہی یہی تھی ۔اس بے عملی کا ایک سبب غور و فکرسے عاری ہوجانا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ یہ سب سرمایہ پرستی، جاگیرداری جیسے فرسودہ نظاموں کو آج بھی عین فطرت سمجھنے کے نتائج ہیں حالانکہ وسائل و ذرائع پیداوار کسی انسان کی ذاتی ملکیت نہیں ۔قارون کی طرح چاندی اور سونے کے ٹکڑوں کو جمع کرتے چلے جانا ایک ایسا جُرم ہے، جس کی سزا تباہی کے سوا کچھ اور نہیں۔ لیکن ہم آج بھی اِسی تصور کو ماننے والوں کواپنے سروں پر بٹھانے کیلئے مضطرب ہیں۔اور جب ہم انکے مظالم کا شکار ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں ان آفات کا کہیں سے مداوا نہیں ہو رہا تو انتہائی کرب کیساتھ یہ کہنے لگتے ہیں کہ خُدا کہیں موجود ہے تو ان ظالموں کے ہاتھ کیوں نہیں پکڑتا۔ اُس نے انھیں کھلی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے کہ وہ ہم جیسے کمزوروں پر ظلم پہ ظلم کرتے چلے جائیں۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ جب تک ہمارا نظام عدل اصول پر مبنی نہیں ہوگا قوم کی نشاة ثانیہ ممکن نہیں ہے۔ پورا ملک بدامنی کا شکار ہے لیکن ہمارے حکمران قیام امن کیلئے کچھ نہیں کر رہے۔ اسکے پاس نہ موجودہ بحرانوں سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل ہے اور نہ آئندہ خطرات سے آگاہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام میں بھی اب زندہ رہنے کی آرزو بس ایک جلتی بجھتی چنگاری بن کر رہ گئی ہے۔ ارباب اختیار کی حالت ہے ایسی ہے کہ انھیں کسی قسم کی دعوتِ فکر فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
نگاہ ِ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکارِ مُردہ سزاِوار شاہباز نہیں
ایسے میں خاموش اکثریت کسی تبدیلی کی خواہش ہے تو”زمین ِ مُردہ “کی مثل ہیں ، بارش تو ہر زمین پر برستی ہے لیکن فصَل اُسی زمین سے پیدا ہوتی ہے جس میں روئیدگی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو ، خدا کسی قوم کے خارجی حالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا جب تک اُس قوم کے افراد میں نفسیاتی تبدیلی نہ آچکی ہو۔ ارباب اختیار عوام کو امن دینے کے بجائے خود نمائی اور لالچ کی ہوس میں مبتلا ہیں اور قومی دولت ان کے لئے مال مفت ہے، جسے وہ مال سمیٹنے کی ہوس میں بے حال ہو رہے ہیں۔ جوع البقر ایک ایسا مرض ہے کہ اس کا مریض جتنا جی چاہے کھا لے ، اس کی بھوک نہیں مٹتی۔ایسے ارباب اختیارہماری ضرورت نہیں ہیں۔اسی لئے ہمارے ارباب اقتدار و اختیار سات پہروں میں محصور رہنے کو ہی اپنی طاقت اورعافیت کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔ اس لئے انہیں بد امنی پر کوئی پریشانی ہے اور نہ غریب عوام کی بے حالی پر پشیمانی۔اسی لئے وہ قومی دولت کے علاوہ اربوں ڈالر کے اندرونی و بیرونی قرضوں سے حاصل مراعات کے باوجود اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہیں ،لیکن قصورصرف اُن کا نہیں ۔ ہم نے بھی کبھی اپنے قومی نقصان کا حساب کیا اور نہ ہی کسی کا احتساب ۔اگرہم ایک زندہ قوم باشعور ہوتے تو احتساب کے عمل کی چھلنی سے کوئی بھی بچ کرنہیں نکل پاتا ۔ یہ مسئلہ مجرمانہ غفلت ، اور مجرمانہ سر پرستی کا پیدا کردہ ہے ۔ ہمارے ملک کو در پیش مسائل کا صرف ایک حل ہے اور وہ یہ اب ہمیں اندھی تقلید سے آزادی پاکر فکروعمل کی شمع روشن کرنا ہوگی۔