• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار گزشتہ دنوں سندھ کے دورے پر تشریف لائے اور انہوں نے کراچی سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں استقبالیہ تقریبات سے خطاب کیا۔ شری نتیش کمار نے دیگر باتوں کے علاوہ ایک بات ہر جگہ کی اور وہ بات یہ تھی کہ جب تک حکومت غیر جانبدار ہوکر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی اور انہیں سزائیں نہیں دلوائے گی‘ تب تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے ایک تقریب میں بتایا کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے ریاست بہار میں74 ہزار جرائم پیشہ لوگوں کو سزائیں دلوائیں اور اب وہاں لوگ جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے کانپتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بہار نے کم و بیش یہی بات گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بھی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی موجودگی میں کہی۔ اُن کا کہنا تھا کہ قانون کے نفاذ کے لئے سیاسی عزم کا ہونا ضروری ہے جس کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کے خلاف مقدمات کی پیروی ہوسکے گی اور بالآخر انہیں سزائیں مل سکیں گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ بہار نے اس بات پر زور کیوں دیا کہ جرائم پیشہ لوگوں اور دہشت گردوں کو سزائیں ہونی چاہئیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شاید وزیراعلیٰ بہار کو پاکستان خصوصاً کراچی میں امن وامان کی صورت حال کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہوگا اور ایک ریاست کے انتظامی سربراہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے یہ بھانپ لیا ہوگا کہ یہاں سزا اور جزا کا نظام بہت کمزور ہے‘ سیاسی عزم کا فقدان ہے اور ریاستی ادارے غیر جانبداری سے معاملات کو نہیں دیکھتے ہیں۔ ایک اسٹیٹس مین کی حیثیت سے شری نتیش کمار آداب سفارت کاری کا خیال رکھتے ہوئے انہیں اپنی بات کہنے کے لئے کن الفاظ کا انتخاب کرنا ہے اور کس طریقے سے اپنا مدعا بیان کرنا ہے۔ وہ چونکہ ایک دوسرے ملک سے تشریف لائے تھے لہذا انہوں نے اپنی بات اپنے تجربے کی صورت میں بیان کی۔ اگرچہ انہوں نے سفارتی آداب کے پیش نظر ہماری حکومتوں پر تنقید نہیں کی اور نہ ہی ہمارے داخلی معاملات کے حوالے سے کوئی رائے زنی کی لیکن انہوں نے بین السطور یہ بات کہہ دی‘ اسے اب ہمیں خود واضح الفاظ اور مفاہیم کے ساتھ کہنا چاہئے اور اپنی خامیوں کا کھل کر اعتراف کرنا چاہئے۔ دوسرے ہمیں صرف احساس دلا سکتے ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ہمارے ریاستی ادارے غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اس کیس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہمارے طاقتور ادارے سیاسی ارتقاء اور جمہوری عمل کو روکنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال نہیں کرتے۔ ساری خرابی کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے اور ہماری تاریخ کے کینوس پر اس طرح کی تصویر بنی ہوئی نظر آتی ہے کہ ایک طرف عوام کا مقبول ترین لیڈر قتل کیس کے ایک متنازع فیصلے میں تختہ دار پر لٹکا ہوا کہہ رہا ہے کہ میرے اللہ! میں بے گناہ ہوں جبکہ دوسری طرف سیکڑوں بے گناہ افراد کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کا خود اعتراف کرنے والے آزادانہ گھوم رہے ہیں اور جشن منا رہے ہیں۔ اداروں کی جانبداری کے سوال پر اب تاریخ ہمارے منہ سے باتیں اُگلوا رہی ہے۔ ہمارے قابل احترام چیف جسٹس صاحب بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ماضی میں عدلیہ نے کچھ فیصلے صحیح نہیں کئے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب کوئی بندوق کی طاقت پر قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف چیف آف آرمی اسٹاف بھی یہ باور کرا رہے ہیں کہ کوئی فرد یا ادارہ تنہا قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتا۔ یہ تمام باتیں اس امرکا ثبوت ہیں کہ ہمارا ملک طاقتور گروہوں‘ اداروں اور افراد کی جانبدارانہ سوچ کی بھینٹ چڑھا رہا۔ اسی سوچ نے کچھ لوگوں کو جرم کئے بغیر سزائیں دیں اور انہیں ایبڈو‘ پراڈو اور احتساب کے کالے قوانین کی سولی پر لٹکایا جبکہ کچھ لوگوں کو وطن سے غداری‘ دہشت گردی‘ اربوں روپے کی لوٹ مار اور لوگوں پر ظلم جیسے سنگین جرائم کے باوجود ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ آج بھی پاکستان میں اسی طرح کی یکطرفہ اور جانبدارانہ سوچ رکھنے والے مکمل طور پر کمزور نہیں ہوئے اور وہ امن وامان خراب کرنے والوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم یہ بات مان لینی چاہئے کہ حکومتیں اور ادارے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے کے لئے اپنے مقاصد اور مفادات پر جب تک نظرثانی نہیں کریں گے‘ تب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اگلے روز سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سنگین جرائم میں ملوث افراد کو پکڑ کر اُن کے چالان عدالتوں میں پیش کرتے ہیں اور یہ ملزمان ایک ہفتے کے اندر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اس امرکی شکایت چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ تک پہنچا دی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک سمیت کئی وفاقی اور صوبائی وزراء بھی بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ عدالتیں ملزمان کو رہا کردیتی ہیں حکومت کے بعض ذمہ داران یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ججوں کو ڈرا دھمکا کر دہشت گرد اپنے ساتھی چھڑوا کر لے جاتے ہیں۔ رینجرز اور پولیس کو بھی عدلیہ سے یہی شکایت ہے کہ وہ ملزمان کو جلد ضمانتیں دے دیتی ہیں یا بری کردیتی ہیں لیکن یہ بات نہیں بتائی جاتی کہ پولیس اور تھانے کی سطح پر روزانہ کتنے خطرناک ملزمان رہا ہوجاتے ہیں۔ خود حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کراچی کے ایشو پر سینٹ میں بات کرتے ہوئے ان رپورٹس کا حوالہ دیا ہے کہ سیاسی دباؤ کی بنیاد پر صرف ایک فون کال کے بعد خطرناک ملزمان کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ رینجرز بھی یہی شکایت کرتی ہے کہ وہ جن ملزمان کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کرتی ہیں‘ پولیس انہیں چھوڑ دیتی ہے۔ پولیس والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیاں کرکے انہیں اپنا دشمن بنالیتے ہیں۔ حکومت سیاسی مصلحت اختیار کرتے ہوئے ان دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو نکال کر لے جاتی ہے۔ سرکاری وکلاء اور لاء افسران بھی مقدمات کی پیروی نہیں کرتے۔ حکومتوں کی سیاسی مصلحت کی وجہ سے کراچی میں ہزاروں پولیس والے مارے گئے اور کسی کو اس بات کی پروا نہیں۔ سیاستدان بھی اپنے اندرونی حلقوں میں یہی کہتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرکے خود کو اور اپنے اہل خانہ کو غیر محفوظ کیوں بنائیں۔ ان تمام معروضی حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں سزا و جزا کا نظام بہت کمزور ہے، سیاسی عزم کا فقدان ہے اور طاقتور حلقے غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہی بات شاید شری نتیش کمار نے محسوس کی ہوگی اور بین السطور وہ یہ بات بار بار کہتے رہے۔
کراچی میں گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب کے قاتل نامعلوم ہیں۔ کراچی دنیا کا ایسا شہر ہوگا‘ جہاں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو سزائیں نہ ملنے کا عالمی ریکارڈ قائم ہوچکا ہوگا اور جہاں کے شہری دنیا میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوں گے۔ شری نتیش کمار شاید اسی وجہ سے ہمیں خبردار کررہے ہوں گے کہ ہم نے اگر جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کو اس طرح چھوٹ دی تو ہم اس سے بھی زیادہ تباہی کا شکار ہوں گے۔ غیر جانبداری‘ سیاسی عزم اور جزا و سزا کا مضبوط نظام‘ ان تین چیزوں پر وہ زیادہ زور دیتے رہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے طاقتور اداروں کو اُس سوچ سے نکلنا ہوگا جو سوچ قیام پاکستان کے فوراً بعد نئی حکمران اشرافیہ میں پیدا ہوئی تھی اور جس کا مقصد اُس اشرافیہ کے اقلیتی تسلط کو قائم رکھنے کے لئے تہذیب‘ ثقافت‘ اعلیٰ اقدار‘ آئین‘ قانون اور اداروں کو تباہ و برباد اور تاراج کرنا تھا۔ اب وہی اشرافیہ اپنے بدترین داخلی تضادات اور بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور اسے اپنی تباہی سامنے نظر آرہی ہے۔ اسے خود ان تضادات اور بحرانوں کا مکمل شکار ہونے سے پہلے اپنی فرسودہ اور یکطرفہ سوچ سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ لوگوں سے لڑنے کے لئے سیاسی عزم اور جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ دہشت گرد ان کے ساتھ رعایت نہیں کریں گے۔ سیاسی قیادت کو ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ گہرے پانیوں میں اترنا پڑے گا۔ یہ 90 کا عشرہ نہیں ہے۔ سیاسی قوتیں اپنی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے باعث بہت پیش قدمی کرچکی ہیں۔ اس مرحلے پر اُنہیں پیچھے ہٹنے کی بجائے مزید پیش قدمی کرنی چاہئے۔ اُن کا سیاسی عزم ہی کایا پلٹ سکتا ہے۔ جزا و سزا کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سیاسی مداخلت کم کرکے انہیں فری ہینڈ دینا ہوگا۔ استغاثہ کے افسران‘ پولیس اہلکاروں‘ ججوں اور دیگر گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنے آپ کو بدلیں تاکہ آئندہ شری نتیش کمار جیسا کوئی لیڈر اور اچھا منتظم پاکستان آئے تو وہ بین السطور یہ سوال نہ اٹھائے کہ پاکستان کے لوگ اس ماحول میں کیسے جیتے ہیں‘ جہاں دہشت گرد آزاد پھررہے ہیں۔
تازہ ترین