• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم حج پر آئے ہوئے ہیں۔ یہاں پر علماء، مشائخ، اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔حرمِ مکی کے معروف مدرّس سے ملاقات ہوئی۔ حرم مکی میں گزشتہ ساڑھے چودہ سو سال سے علمائے اسلام کے قرآن وحدیث اور فقہ وفنون کے حلقہ ہائے درس ایک شاندار روایت بن چکے ہیں۔ تاریخِ اسلامی نے بڑے اہتمام سے ان مشاہیر واعلام کا تذکرہ محفوظ رکھا ہے جن کو بیت اللہ کے جوار میں حطیم، مقام ابراہیم اور حجر اسود جیسے متبرک ومقدس شعائر کے سامنے قال اللہ اور قال الرسول کی سعادت ملی ہے۔ آج کا فضل ہے کہ یہ درس کے حلقے آج بھی قائم دائم ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قائم اس حلقے نے ایک پوری دینی جامعہ کا کردار ادا کیا ہے۔ شاید ہی کسی اسلامی یونیورسٹی سے مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو فیض پہنچا ہو جتنا اس حلقے سے پہنچا۔ لاکھوں مسلمانوںنے توحید کے مفہوم کو سمجھا، اتباعِ سنت کی اہمیت جانی، عقائد درست ہوئے، اعمال واخلاق کی اصلاح ہوئی، بزرگانِ دین اور سلف صالحین کی مبارک محنتوں اور پاکیزہ سیرتوں سے آگاہی ہوئی۔ غرض ہر پہلو اور ہر جہت سے مسلمانوں پر جس قدر محنت اسی حلقہ درس میں ہوئی اس کے اثرات آج پورے عالم اسلام پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اس مبارک حلقہ کے مسند نشین حضرت مولانا محمد مکی حجازی ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے مدرسِ حرم ہیں۔


ان سے عالمی اور ملکی صورت حال پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ دورانِ گفتگو ان سے پوچھا گیا کہ آپ 44 سال سے حرمِ مکی میں درس دے رہے ہیں، اسلامی اور عرب دنیا میں کیا تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں؟ مولانا محمد مکی حجازی نے کہا کہ آج کل جتنی بھی طاغوتی قوتیں ہیں، جتنے بھی فتن ہیں، یہود و نصاریٰ کی سازشیں ہیں، ان کے باوجود اللہ کا شکر ہے کہ اسلام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پہلے تو اتنے حجاج بھی نہیں آتے تھے جتنے آج کل عمرہ زائرین آتے ہیں جن کی تعداد 40 لاکھ تک ہوتی ہے۔ یہ دلیل ہے کہ اسلام کی محبت اور شعائر اسلام کی محبت دشمن طاقتوں کے زور لگانے کے باوجود بڑھ رہی ہے، کم نہیں ہورہی۔ان سے مزید پوچھا گیا کہ عالم اسلام کے مسلکی اختلافات میں کمی کے لئے حرمین شریفین سے کیا پیغام دیا جاتا ہے اور علمائے حرم کا کردار کتنا موثر ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہاں حرم مکی سے رابطہ عالم اسلامی اور ریاسۃ الحرمین شریفین کے ذریعے پوری دنیا میں ائمہ جاکر خطاب بھی فرماتے ہیں۔ یہاں حرم کے ہر ہر کونے میں علمادرس بھی دیتے ہیں۔ ان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی چاروں ائمہ کی فقہ پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ یہ سب علماببانگ دہل یہ بات کہتے ہیں کہ ہم ان ائمہ اربعہ کے دائرے سے باہر نہیں ہیں، بلکہ فقہی مسائل میں وہ امام احمد بن حنبلؒ کی تقلید کرتے ہیں۔ طباعتِ قرآن اور مصحف کے چھاپنے کے سلسلے میں بھی سعودی عرب کا بڑا کردار ہے۔ قرآن پاک کا تیرہ زبانوں میں ترجمہ کرکے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نسخے حجاج کرام میں تقسیم بھی ہوتے ہیں، اس کا پوری دنیا میں بہت ہی اچھا اَثر پڑرہا ہے۔حرمین شریفین کے تحفظ کو لاحق خطرات کے مقابلے کے لئے اسلامی دنیا کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حرمین شریفین کا تقدس اور حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ حرمین شریفین تمام عالمِ ایمان کے لئےہے۔ اس لئےکہ اللہ تعالیٰ نے ابتدا بھی یہیں سے فرمائی ہےترجمہ: ہم نے لوگوں کے لئےیہ گھر بنایا ہے۔ کسی خاص قبیلے یا قوم کے لئے نہیں بنایا ہے تو تمام عالمِ اسلام کے مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ اس کے تحفظ کے لئےہر قسم کی جانی و مالی قربانی دینے سے دریغ نہ کرے۔ جہاں تک حرمین شریفین کے تحفظ کا تعلق ہے، الحمدللہ! خادمِ حرمین شریفین نے تقریباً 32 ممالک کو متحد کرکے ان کی اجتماعی فوج تشکیل دی ہے تاکہ حرمین شریفین کا صحیح معنوں میں تحفظ کیا جاسکے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ مرکزِ اسلام میں بیٹھ کر عالمِ اسلام کے موجودہ مسائل کی جڑ اور اس کا حل کس چیز کو سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کا حل یہی سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم کی طرف توجہ دلائی جائے۔ تعلیم میں بھی زیادہ سے زیادہ قرآن و سنت کی تعلیم اور اس کی ترویج اور اس کے تراجم اور اشاعت کی پوری پوری کوشش کی جائے، کیونکہ امت کی اصلاح اسی طرح ہوگی جس طرح پہلی امت کی اصلاح ہوئی۔ترجمہ: جب تک ہم قرآن و سنت کی طرف نہیں لوٹیں گے اور اس کا دامن نہیں پکڑیں گے، اس وقت تک ہماری اصلاح نہیں ہوسکتی۔ہم نے ان سے پوچھا کہ حجاج کرام کی بہت بڑی تعداد حج پر آرہی ہے ان میں نوجوان نسل بھی شامل ہے۔ حجاج کرام کون سی اغلاط سب سے زیادہ کرتے ہیں جن کی آپ نشاندہی کرنا چاہیں گے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے حجاج کرام کی کوئی تربیت نہیں کی جاتی، ورنہ اگر ہر ملک کے علما حج پر آنے سے پہلے ہفتے میں صرف ایک دن اپنی مسجدوں میں حج پر جانے والوں کو بلالیں اور ان کو حج و عمرے کے مسائل سمجھادیں تو وہ غلطیاں نہیں کریں گے۔ یہاں تو ایسے لوگ بھی آتے ہیں کہ ان کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ طواف کیا ہے؟ صفا مروہ کیا ہے؟ میقات کیا ہے؟ رمل کیا ہے؟ یہ ضروری ہے کہ سرکاری کمیٹیوں کے علاوہ علماذاتی کمیٹیاں بنائیں۔مسلمانوں میں دن بہ دن بڑھتا ہوا زوال، پستی اور انتشار کی تشویش کا اظہار کیا تو مولانا محمد مکی حجازی نے کہا کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم قرآن و سنت سے ہٹ رہے ہیں… وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر… اور ہم خوار ہیں آج صاحبِ قرآں ہوکر… جب سے ہم نے دین چھوڑ دیا ہے ذلیل ہوگئے ہیں۔ اللہ ہم مسلمانوں کو پھر سے دین سے رشتہ جوڑنے کی توفیق دے۔


پاکستان کی نومنتخب حکومت کے لئے کیا کہیں گے؟ لوگ بڑی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ تبدیلی آرہی ہے۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری ان کو بھی یہی نصیحت ہے کہ وہ پہلے اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے تابع ڈھالیں اور اس کے بعد قرآن و سنت کے تمام احکامات کو ترجیح دیں۔ دین کے تمام مسائل کو ترجیح دیں اور دنیا کو دوسرے نمبر پر رکھیں۔ اگر انہوں نے دنیا کو دین کے تابع کردیا تو دنیا بھی بن جائے گی اور دین بھی بن جائے گا، لیکن اگر دین کو دنیا کے تابع کردیا، سیاست کے معنی یہ نہیں ہے کہ آدمی دین ہی کو چھوڑ دے… جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی… اصل سیاست تو دین ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے جو طریق اور معاشرت و سبق سکھائے، اب بھی یہی کوشش کریں عدل کے نظام کو نافذ کرنے کے لئے ہر ممکن سعی و جدوجہد کریں۔


اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ پاکستان کے لئے ان کے نیک جذبات ہیں۔ مسلمانوں میں اجتماعیت عطا فرمائے، مسلمانوں کی پستی کا بنیادی سبب انتشار ہی ہے، اگر عالم اسلام کے مسلمان متفق ہوجائیں تو ناقابلِ تسخیر ہیں۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین