• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگست کی گھن گرج آپ سن رہے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے مختلف دنوں میں الگ الگ رنگ کی یادیں جاگتی ہیں۔ کچھ پرانی اور کچھ اس سفر کے مختلف مقامات کی جس کا آغاز ہم نے1947میں کیا تھا۔ اور اب دیکھئے کہ اس مہینے میں ہم اپنی تاریخ کا ایک اور موڑ مڑ رہے ہیں۔ حالات کے تبدیل ہونے کی نوید ہے۔ انتخابات کیسے ہوئے اور ان کے نتائج سامنے آئے اس کی دھمک ابھی تک محسوس کی جا رہی ہے۔ کچھ بھی ہو، سیاست کامنظر بدل رہا ہے اور موسم بھی۔ آزادی کے جشن کے ساتھ ساتھ ہمیں جمہوریت کا جشن منانے کا موقع مل رہا ہےاور اگر ہم حقیقت پسند ہیں تو ہمیں یہ سوچنے سے کترانا نہیں چاہئے کہ تقسیم یا پاکستان کے قیام کے دوران ہم پر کیا گزری اور جس جمہوریت کا انعام ہم نے حاصل کیا ہے اور جسے آزادی سے تعبیر کرتے ہیں وہ کیا ہے اور کیسی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سارے فیصلے بظاہر ایک کرشمہ ساز رہنما کو کرنا ہیں۔ عمران خان نے ایک نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ سو ایک بے چینی سی ہے کہ یہ کام کب شروع ہو گا۔ دکھائی تو یہ دے رہا ہے کہ بس دو چار دن کی بات ہے۔ نیا پاکستان کیسا ہو گا اس کے کچھ اشارے تو ملتے ہیں۔ لیکن ہماری سیاسی اور معاشرتی زندگی تضادات سے یوں آلودہ ہے کہ ہم انجانے میں دو یا کئی مختلف راستوں پر بڑھنے کی بات کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بنیادی فیصلے نہ ہم کر پائے ہیں اور نہ انہیں کرنے کی ہم میں صلاحیت ہے۔ ہم بہ یک وقت اسکینڈے نیویا کی جمہوریت اور مدینے کی ریاست کی طرف دیکھتے ہیں۔ جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں وہ وقت کی تقویم میں کس جگہ کھڑا ہے اس کا فیصلہ بھی مشکل ہے اسی مہینے کی تو بات ہے کہ دہشت گردوں نے دیا میر میں بچیوں کے کئی اسکولوں پر حملہ کیا اور یہ وہی ملک ہے جس نے جدید دور میں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون سربراہ حکومت کی مثال قائم کی ۔اور جس کی ایک نوجوان خاتون پوری دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کی جانے والی جدوجہد کی علامت ہے۔
آج یعنی جس دن یہ کالم شائع ہو رہا ہے۔ 11اگست ہے۔یہ بات میں نے کہیں پڑھی یا سنی تھی کہ شاید عمران خان 11اگست کو وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیں، وہ وقت تو اب گزر گیا اور اب یوم آزادی کے بعد ہی یہ تقریب منعقد ہو گی۔ پھر جب، میں نے 11اگست والی بات سنی تو یہ خیال آیا کہ کہیں تحریک انصاف قائد اعظم کی اس تقریب سے تو متاثر نہیں ہے۔ جو انہوں نے 11اگست 1947کو کی تھی۔ اس تقریر کی چند اہم باتیں ایسی ہیں کہ جنہیں روشن خیال پاکستانی اپنا منشور سمجھتے ہیں۔ میں قائداعظم کی باتیں یہاں دوہرائوں گا۔ یہ ایک الگ بہت گمبھیر موضوع ہے۔ گویا پاکستان کے قیام کے وقت ہی کئی ایسے مشکل سوال کھڑے ہو گئے تھے کہ جو پاکستان کی تحریک اور اس کی منزل کے بارے میں نئے سرے سے سوچنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ تقسیم کے زمانے کے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات اور تاریخ کی ایک عظیم نقل مکانی کے عذاب نے قائداعظم کے خیالات کو متاثر تو ضرور کیا ہو گا۔ اور ہمیں یہ ماننا چاہئے کہ11اگست کی تقریر انہوں نے ایک انتہائی اہم موقع پر بہت سو چ سمجھ کر کی تھی۔ تو اب ہم اس کا کیا کریں ؟ ہمارے سب سیاسی رہنما اور عمران خان بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ کہتے رہے ہیں کہ قائداعظم کا پاکستان چاہئے اور ہم قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے۔ اور منگل کے دن، جشن آزادی کے ہنگام میں، اس عزم کا اعادہ کیا جائے گا۔ اور یہ تنازع باقی رہے گا کہ قائد اعظم کا پاکستان آخر کیسا ہوگا۔ اسے کون بنائے گا۔ اور آج کے دن کی جانے والی تاریخی تقریر کتنی قبول کی جائے۔ کتنی رد کی جائے گی۔ آخر قائداعظم نے اپنے طویل سیاسی سفر میں بہت کچھ اور بھی تو کہا تھا۔ اس پس منظر میں شاید یہ کوئی یہ کہے کہ چلو، نئے سفر پر چلتے ہیں اور یوں کہ پرانے سارے نقشے لپیٹ کر رکھ دیں اور موجودہ وقت کی سچائیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نئے فیصلے کریں۔ ڈرتے ڈرتے یہ بھی کہہ دیں کہ قائد اعظم کا پاکستان تو1971میں ٹوٹ گیا تھا۔یہاں مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ یوم آزادی کے حوالے سے ہم پاکستان کی تحریک اور اس کی تاریخ پر تو نظر ڈالتے ہیں لیکن سقوط ڈھاکہ کے شگاف کو جلدی سے پھلانگ جاتے ہیں۔ اپنی درسی کتابوں میں دیکھیں کہ اس کا کتنا ذکر ہے۔ ڈھونڈتے رہ جائیں گے۔ میں نے کہااگست کا مہینہ اپنی کئی تاریخوں کی وجہ سے اہم ہے اور اس میں ایک نئی تاریخ کا اضافہ اس سال ہو رہا ہے کہ عمران خان ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ میری نظر میں کئی دوسرے نئے اور پرانے واقعات ہیں جو اس اگست کے مجموعی تاثر کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی بات یہ کہ آج جزوی سورج گرہن ہو گا۔ ستارہ شناس ہمیں خوف زدہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان دنوں کے تین گرہنوں نے پوری دنیا میں اودھم مچایا ہوا ہے۔ حالات تو واقعی بہت خراب ہیں ایک جزوی سورج گرہن کا دن13جولائی تھا جب نواز شریف اور مریم نواز لندن سے آکر اڈیالہ جیل جا پہنچے تھے۔ 27جولائی مکمل چاند گرہن کا دن تھا۔ اس صدی کا سب سے طویل، ہمارے انتخابات کے نتائج اس دن تک جاری تھے۔ خیر،یہ توہمات اپنی جگہ ۔میرے خیال میں اگست کے دکھوں میں ایک بڑے دکھ کا اضافہ دو سال قبل ہوا جب اس مہینے کی آٹھ تاریخ کو کوئٹہ کے سول اسپتال کے خود کش دھماکے میں شہر کے وکیلوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی۔ یہ اپنی قسم کا دہشت گردی کا ایک ایسا خوفناک واقعہ تھا کہ جس نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا کہ یہ کیسا اور کس کا پاکستان ہے۔ اور ہاں، اگست کی ایک اور تاریخ بھی ہےجو ہمیں جنرل ضیاء الحق کی یاد دلاتی ہے ۔وہ 17اگست 1988کا دن تھا جب ان کا جہاز ہوا میں پھٹ گیا۔ ہماری تاریخ کی ایک اور پہیلی۔جنرل ضیاء الحق کا ایک دوسرا تعلق بھی اگست کے مہینے سے ہے۔ وہ 12اگست کو پیدا ہوئے تھے۔ یہ مہینہ فوجی حکمرانوں کی پیدائش کے لئے شاید مناسب ہے کیونکہ جنرل پرویز مشرف کی پیدائش کی تاریخ11اگست ہے یعنی آج ان کی سالگرہ ہے۔ آپ کہیں گہ کہ ہر مہینے کی ہر تاریخ پر کچھ نہ کچھ ہوچکا ہے۔دسمبر کا مہینہ بھی ہماری تاریخ میں نمایاں ہے۔ لیکن دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کا قیام تو کوئی معمولی واقعہ نہیں اور نئے پاکستان کے بارے میں اگر سنجیدہ گفتگو ہو تو قائداعظم کی 11اگست کی تقریرکو کوئی کیسے نظر انداز کر سکتا ہے۔ اور پھر اگست ہماری تاریخ ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایک ایسے واقعہ کی یاد دلاتا ہے کہ جس کا گہرا تعلق ایک نئی دنیا کے تصور سے بھی ہے۔ میرا اشارہ ہیرو شیما کی جانب ہے کہ جس پر 6اگست 1945کے دن امریکا نے ایٹم بم گرایا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ناقابل تصور تباہی سے بھی دنیا بدل گئی ۔ تین دن بعد، 9اگست 1945کو ناگا ساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا گیا۔ اور آج پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے۔ کیا یہ طاقت ہماری مفلسی کی تلافی کر سکتی ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین