• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو عمران خان سے امیدیں

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین متوقع وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن اور دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کے اعلان پر بہت خوش اور پر امید نظر آتے ہیں ۔

جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں اس وقت بیس لاکھ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن میں چھ لاکھ غیر رجسٹرڈ ہیں۔اس حوالے سے پشاور میں مقیم افغان تاجر گل شاہ علی کا کہنا ہے کہ ہمیں عمران خان کے اس بیان پر انتہائی خوشی ہوئی اور ہم پر امید ہیں کہ وہ اسے عملی جامہ بھی پہنائیں گے۔ ہم منتظر ہیں کہ کب ان کی حکومت دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے قدم اٹھائے گی۔

گل شاہ علی کے بقول پاکستان میں مقیم رجسٹرڈ اور ان رجسٹرڈ مہاجرین یکساں مسائل کا سامنا کر رہے ہی’’سرحد کےآر پار پختون آباد ہیں، جن کے آپس میں صدیوں سے رشتے قائم ہیں۔ اور یہ رشتے گزشتہ چالیس سالوں میں مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ ایسے میں پابندیوں نے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ ویزہ پالیسی اور آمد ورفت میں پابندیاں رشتوں اور باہمی تجارت میں مشکل کا باعث بنی ہیں ۔‘‘

عمران خان نے اپنے پہلی پالیسی بیان میں کہا تھا ’’افغانستان وہ ملک ہے، جس کے عوام نے چالیس سال تک بدامنی، دہشت گردی اور خانہ جنگی کا سامنا کر کے بے پناہ نقصان اٹھایا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ ہم افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون کریں گے کیونکہ افغانستان پرامن ہوگا تو پاکستان میں بھی امن ہو گا‘‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدورفت میں کمی نے تجارت کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس حوالے سے پاک افغان جوائٹنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر ضیا الحق سرحدی کا کہنا تھا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ عمران خان کی سربراہی میں بننے والی حکومت اُن پالیسیوں پر نظر ثانی کرے گی، جن کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین تجارت ڈھائی ارب ڈالر سالانہ سے کم ہوکر پانچ کروڑ ڈالر تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔‘‘۔

ان کے مطابق سابق حکومتوں کی پالیسیوں کا یہ نتیجہ ہے کہ روزانہ علاج کے لیے پشاور، اسلام آباد اور لاہور آنے والے سینکڑوں افغان شہریوں کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے، ’’ویزا اور رجسٹریشن کارڈ کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ عمران خان نے اگر خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی تو ہمیں یقین ہے کہ دونوں ممالک میں قیام امن کے ساتھ باہمی تجارت میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔‘‘

پاکستان اور باالخصوص خیبر پختونخوا میں قیام پذیر افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے کئی بار ڈیڈ لائن مقرر کی جا چکی ہے تاہم حکومت بار بار اس میں توسیع کرتی رہی ہے۔ افغان مہاجرین بھی بدامنی کی وجہ سے افغانستان جانا نہیں چاہتے۔

پاکستان میں مقیم مہاجرین کو امید ہے کہ نئی حکومت افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل پھر سے شروع کرے گی۔

پشاور کےبزنس مین عبدالحئی کا کہنا تھاکہ’’جن افغان مہاجرین کے پاس ویزا ہے وہ بھی مشکل میں اور جو ان رجسٹرڈ ہیں انہیں بھی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ویزے والے چند ماہ بعد تجدید کے لیے پریشان ہوتے ہیں جبکہ ان رجسٹرڈ پولیس کے ڈر سے باہر نہیں نکلتے۔

عمران خان کے بیان پر افغان مہاجرین پر امیدہیں کہ نئی حکومت افغان مہاجرین کی مشکلات میں کمی کی خاطر مزید اقدامات اٹھائے گی ۔

خیبر پختونخوامیں مقیم انجمن تاجران پشاور کے صدر حاجی مجیب الرحمان کا اس بارے میں مزید کہنا تھاکہ ’’حکومتی پابندیوں کا سب سے زیادہ نقصان پختونخوا اور افغانستان کے سرحدی صوبوں میں آباد پختونوں کو ہوا ہے۔ دونوں کا ستر فیصد انحصار ایک دوسرے کے ساتھ تجارت پر ہے۔ اشیائےخورد و نوش سے لیکر تعمیراتی اور دیگر سامان تک کی تجارت میں بے پناہ کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس نے دونوں جانب عام لوگوں کو متاثر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نئی حکومت پر یقین ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائے گی اور آمدو رفت کے راستے فوری طور پر کھولنے کے لیے اقدامات اٹھائے گی۔ جب تجارت میں اضافہ ہوگا تو بے روزگاری میں بھی کمی آئیگی اور بے روزگاری میں کمی سے ہی عسکریت پسندی بھی کم ہو گی‘‘۔

تازہ ترین