• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالے، پہلے کیسز کا تعین کرے، عثمان ڈار

کراچی(جنگ نیوز)حکمران جماعت کے رہنما عثمان ڈار نے کہا ہےکہ نیب کو لوگوں کی غیر ضروری طورپرپگڑیاں نہیں اچھالنی چاہیئں ، نیب کو پہلے کیسز کا تعین کرنا چاہیے کہ وہ قابل سماعت بھی ہیں یا نہیں ،اور اگر کیس بنتے ہیں تو انہیں منطقی انجام تک پہنچانا چاہیےقوم جانتی ہے کہ یہ تمام کیسز پی ٹی آئی کی حکومت آنے سے پہلے کے ہیں، یہ کہنا کہ عمران خان سیاسی انتقام لے رہے ہیں تو درست نہیں ہوگا ،پاکستان کی عدالتیں آزاد ہیں ،عمران خان نے واضح کہا ہے کہ کسی قسم کا مک مکا نہیں ہوگا، انہوں نے کہا کہ میں ملک احمد کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی ۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام’’ آپس کی بات ‘‘میں گفتگو کررہے تھے ۔ پروگرام میں ،وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل کامران مرتضیٰ،پیپلزپارٹی کے رہنما نبیل گبول اور مسلم لیگ ن کے ملک احمد خان نے بھی حصہ لیا ۔ ملک احمد خان نے کہا ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالنا سیاسی انتقام ہے ، یہ کیس ابھی کورٹ میں ہے ، اگر کورٹ ایون فیلڈ پراپرٹیز پر فیصلہ کردیتی ہے کہ اس کا پیسا واس لانا چاہیے یا نہیں تو وہ فیصلہ کرے گی لیکن عمران خان کے قوم سے خطاب میں جو کرپشن کے خلاف ایک مہم کا آغا ز کیا گیا اس میں سیاسی انتقام واضح نظر آرہا ہے ۔ عثمان ڈار نے کہا کہ صاف و شفاف تحقیقات ہونی چاہیے ، نیب کو غیر ضروری لوگوں کی پگڑیاں نہیں اچھالنی چاہیئں ، نیب کو پہلے کیسز کا تعین کرنا چاہیے کہ وہ قابل سماعت بھی ہیں یا نہیں ،اور اگر کیس بنتے ہیں تو انہیں منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے ۔ نبیل گبول نے کہا کہ عمران خان کے قوم سے خطاب کے بعد میں ان کی نیت پر شک نہیں کروں گا ، میں جانتا ہوں کہ عمران خان کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی تقریر سے ایسا لگتا ہے کہ وہ جو کرنا چاہتے ہیں وہ کرنہیں پائیں گے ، شاہ محمود کے بیان پر نبیل گبول نے کہا کہ خارجہ پالیسی آج سے پہلے کون بناتا رہا ہے یہ کس کی طرف اشارہ کررہے ہیں ، فواد چوہدری حکومت کے وزیر بن گئے ہیں لیکن وہ ابھی تک ایک پی ٹی آئی کے رہنما کی حیثیت سے بات کررہے ہیں ، یہ کہنا کہ کابینہ کا فیصلہ ہے ،نوازشریف اور مریم نواز کو ای سی ایل میں ڈالا جائے گا ۔ انہوں نے کہا یہ کورٹ کا فیصلہ ہے ان کو کرنے دیں ۔ اگر اس طرح کی باتیں کریں گے تو لوگ یہی سمجھیں گے سیاسی انتقام لے رہے ہیں ۔ایم کیو ایم جس کی چھ سیٹیں تھیں پی ٹی آئی نے ان کے پرائم وزارتوں سے نوازا ہے ،سیاسی مجبوری کا مطلب یہ ہے کہ چھ ایم این ایز کی پارٹی کو 2اہم وزارتیں دیں تاکہ وہ وہاں بیٹھ کر کرپشن کریں کیونکہ لاء اور آئی ٹی کی منسٹری میں پچھلے پانچ سال بھی بہت کرپشن ہوئی تھی ۔ حکومت کو عدالتی فیصلے یا تحقیقات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے ۔ملک احمد خان نے کہا کہ انتخابی عمل میں نیب کا ایک فعال رویہ تھا جس میں بہت سارے سیاسی لوگ الزام کی بنیاد پر سیاسی عمل سے نکال باہر کیا گیا ۔ اب چیف جسٹس کے بیان ”نیب کسی کی پگڑی نا اچھالے“ کا مطلب ہے کہ پہلے نیب کی کارروائیاں ن لیگ کے خلاف تھیں اور اب یہ رویہ تبدیل ہورہا ہے ۔ عثمان ڈار نے کہا کہ ہم اس بات کے حق میں ہیں کہ تحقیقاتی اداروں کو کسی صورت غیر ضروری افراد کو نہیں گھسیٹنا چاہیے ، جن پر مقدمات بنتے ہیں وہی درج ہونے چاہیئں اور ان کے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ۔ نبیل گبول نے کہا کہ نئی کابینہ میں آدھے لوگ پی ٹی آئی کے ہیں اور 50فیصد لوگ باہر کے ہیں، کپتان کو اپنی ٹیم کا انتخاب کرنے میں آؤٹ سورس کرنا پڑا، اگر بھی دوسروں کی طرح اتحادیوں کو راضی کرنے میں لگ جائیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی ؟ یہ اتحادی آپ کو بلیک میل کریں گے ،عمران خان نے اپنے دعوؤں میں سے اگر 10فیصد بھی کرلیا تو لوگ مانیں گے ۔ نبیل گبول نے کہا کہ بابر اعوان نے پی پی کی حکومت میں کچھ فیصلے غلط کروائے تھے جس کی وجہ سے پی پی حکومت کو مسائل کا سامنا ہوا ۔عثمان نے کہا بابر اعوان کا کیس سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہے جس دن فیصلہ آجائے گا تو دیکھ لیں گے ۔کیا نوازشریف اور مریم نواز جلد یا بدیل جیل سے رہا ہونے والے ہیں ؟ اس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سزا کی معطلی کا فیصلہ موخر کرنا اور اس کو اہم اپیل کے ساتھ جوڑنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے ، اگر اپیل کے ساتھ فکس ہوگیا اور وہ سن لی گئی تواس کا مطلب ہے بیل کی انکاری ہوگئی ۔ ممکن ہے عید کے بعد فیصلہ سنا دیں گے ۔ انہوں نے کہا بظاہر ایسا لگ رہا ہے ججز بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کیس کمزور ہے، ایسے شواہد موجود نہیں تھے جس کی بنیاد پر فیصلہ دیا گیا، اس حوالے سے اگر اپیل دائر کرنی تھی تو نیب کرنی چاہیے تھی ، ایون فیلڈ پراپرٹی کی مالیت بتانی تھی وہ نہیں بتائی گئی ، پتا نہیں کیسا کیس بنایا گیا ہے اور اس پر سزا بھی دے دی حالانکہ اس میں جتنی بھی کمیاں ہیں وہ نیب کے پارٹ میں ہے ۔ نیب کے قانون میں جب گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوتے ہیں وہ چیئرمین نیب کرتا ہے جبکہ اس کیس میں چیئرمین نیب نے جاری نہیں کیئے ،اس کا مطلب ہے کہ ان کو تحقیقات کے دوران گرفتاری کی ضرورت نہیں تھی ۔ تو اپیل میں گرفتاری کیوں کرنی ہے ۔ مجھے شک ہے کہ ٹیلی وژن انٹرویو کو انہوں نے تحقیقات کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے چونکہ جب کوئی چیز ریکارڈ کا حصہ نہیں بنی وہ کس طرح اس کیس میں اثرانداز ہوسکتی ہے ۔منیب فاروق نے پروگرام کے سیگمنٹ’آخری بات‘ میں کہا کہ وزارت داخلہ کے قلمدان پر پہلے شیخ رشید اور پرویز خٹک کی نظریں مرکوزتھیں اور اس پر اتحادیوں میں ناراضگی کی خبریں بھی سامنے آئیں شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے پا س رکھ معاملہ رفہ دفہ کردیا لیکن موجودہ حالات میں وزارت داخلہ کے چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ممکنہ طور پر آنے والا آصف زرداری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق فیصلوں پر عمران خان پر سیاسی انتقام کا الزام لگ سکتا ہے ، دوسری جانب قریبی دوست زلفی بخاری کو کسی قسم کی رعایت دینے کی صورت میں وہ تنقید کی زد میں بھی آسکتے ہیں ۔ اس وقت نیب میں پرویز خٹک اور عمران خان پر تحقیقات چل رہی ہیں ، مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کو نندی پور پاور پلانٹ میں 113ارب کا ذمہ دار تقریباً قرار دیا جاچکا ہے ۔ ان معاملات میں عمران خان کو معاونت کرنے یا نا کرنے پر مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ پرویز مشرف، الطاف حسین، اسحاق ڈاراور حسن اور حسین نواز کی پاکستان واپسی سے متعلق معاملات کی بھی عمران خان براہ راست نگرانی کریں گے ۔ ایسے میں کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں مشکل حالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔

تازہ ترین