• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت میں دونوں میاں بیوی ایک دوسرےپرچیخ چیخ کر الزام لگارہے تھے اور بیوی طلاق کا مطالبہ کررہی تھی۔جج صاحب نے بھی دونوں کو دل کا غبار نکال لینے کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔خاوند کہہ رہا تھا کہ تمہیں تو انڈا تک فرائی کرنا نہیں آتا۔ہاف فرائی کہو تو انڈے کا سخت اورکالا توا بنا لاتی ہو۔ بیوی نے جواباً حملہ کرتے ہوئے کہا تمہاری اپنی شکل کالے توے کی مانند ہے اس لیے ہر چیز تمہیں توے کی مانند دکھتی ہے اور تم جیسا گندا انسان تو میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔شوز اتارتے ہو تو جرابوں کی بدبو کسی ایسی گندی بھیڑکی مانند ہوتی ہے جو کسی گندے نالے میں نہا کر آئی ہو۔خاوند نے جوابی فائر کرتے ہوئے کہاکہ تمہاری جیسی گھامڑ بیوی ہوگی تو میرے کپڑے گندے اور جرابیں بد بودارہی ہوںگی۔اگر تم اتنی سگھڑ ہو تی تو تمہارا اپنا کزن تم سے شادی سے انکار نہ کرتا۔یہ بات سننا تھی کہ بیوی نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا۔اور روتےروتے کہنے لگی میرے تواتنےرشتےتھے نہ جاننے مجھے اورمیرے والدین کو کیاسوجھی کہ میرا تم سے رشتہ کردیا اور آج مجھے بھری عدالت میں بے عزتی برداشت کرنا پڑرہی ہے۔میرے تو نصیب ہی پھو ٹ گئے ہیں۔جج صاحب ! میں ایسے شخص کے ساتھ نہیںرہنا چاہتی جو مجھے یوں ذلیل کرے ۔خاوند بھلا کہاں چپ رہنے والا تھا کہنے لگا تم تو میرے شان میںقصیدے پڑھ رہی ہو تو میں تمہاری بے عزتی کررہا ہوں۔جج صاحب کی ہمت اس شوروغل سے جواب دینے لگی تھی ۔انہوںنے آرڈر آرڈر پکارتےہوئے دونوں کو خاموش کرادیا۔اور پوچھنے لگے آخر تم دونوں کی لڑائی کی وجہ کیا ہے کہ نوبت طلاق تک آگئی ہے۔بیوی نے کہاکہ جج صاحب میراا شوہرمیری بات کواہمیت نہیں دیتا۔میری ہر بات کو رد کردیتا ہے۔میرا خیال تھا کہ مناپلنگ کی بجائے جھولے میں سوئے گا جبکہ میرے شوہر کا خیال ہے کہ منا پلنگ پر سوئے گا۔جج صاحب نے معمولی وجہ پر لڑائی کی شروعات جاننے کے بعد غصے سے دھاڑتے ہوئے کہاکہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ اتنی معمولی بات پر لڑائی کرتے ہوئےاور بات طلاق تک پہنچ گئی ہے۔منے کی عمر کتنی ہے جج صاحب نے سوال کیاتو دونوں میاں بیوی خاموش ہوگئے اور کوئی بھی جواب دینے کو تیار نہیں تھا۔آخر جج صاحب نے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ منے کی عمر کتنی ہے تو شوہر نے شرماتے ہوئے جواب دیا جی ابھی ہماری شادی کو ایک ماہ ہوا ہے ہمارا جھگڑا اس بات پرشروع ہوا کہ جب مناپیدا ہوگا تو وہ کہاں سویاکرے گا اور بات بڑھ گئی یہاں تک کے نوبت طلاق تک پہنچ گئی اور ہم آپ کے سامنے کھڑے ہیں جج صاحب جو غصے سے لال پیلے ہورہے تھے اپنی ہنسی نہ روک سکے اور دونوں کو عقل اور دانش کا درس دے کر عدالت سے بھیج دیا۔ہماری اپوزیشن جماعتیں متفقہ صدارتی امیدوار لانے کے لیے بھی کچھ اسی طرح کے لڑائی جھگڑے میں الجھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت جوابھی قوالی کے اس آغازکی طرح ہے ،جو سازو آواز ملانے اور ردھم پکڑنےکے لیے ابھی صرف الاپ لگارہے ہیں۔اورعوام اسی الاپ پر واہ واہ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اسی الاپ میں ہی قوم کو گرفت میں لے کر’’ویلیں‘‘ وصول کررہی ہے اور اپوزیشن منے کی لڑائی میں اپنی محبت ،اپنی توانائی اور اپنا اعتماد کھو رہی ہے اور سیاسی پنڈت جس اپوزیشن کو مضبوط اپوزیشن قرار دے کر پی ٹی آئی کے لیے مشکل قرار دے رہے تھے، اس کی ٹیوب ایسی پنکچر ہونی ہے کہ شاید کوئی تیس پنکچر کا ماہر بھی اب یہ پنکچر نہ لگاسکے اور ہوا یوں ہی خارج ہوتی رہے کیونکہ لڑائی ان دیکھے منے کی وجہ سے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔پہلے وزیراعظم کے لیے ووٹ نہ دیا اب صدرکے امیدوار پر اتفاق رائے نہیں ہورہا۔مری جاکر اجلاس کرنے سے یہ تاثر ملا تھا کہ نہ صرف صدارتی الیکشن کے لیے متفقہ امیدوار کا فیصلہ ہوجائے گا بلکہ تعاون اورمتحدہ اپوزیشن کے حوالے سے بہت سے فیصلے ہوںگے تاکہ اپوزیشن جو جمہوریت کا حسن ہوتی ہے وہ مضبوط ہوگی تو پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی جواب دہی کا خوف ہوگا۔اپنے کئے ہوئے وعدوں میں تاخیر کا خوف ہوگا۔گڈگورننس کے لیے دوڑ دھوپ کرنی پڑے گی۔اداروں کی بہتری کے لیے تمام وسائل اور صلاحتیں بروئے کار لانے کے لیے عذر اور بہانہ نہیں تلاش کیاجائیگا۔لیکن سیاست جس کے بارے میں کہاکہ جاتا ہے کہ منزل تک پہنچنے کے لیے آگے دیکھاجاتا ہے پیچھے نہیں، کیونکہ اگر گڑھے مردے نکالنے کا کام شروع ہوگیا تو پھر تو تعفن ہی تعفن ہوگا۔جمہوریت، سیاست یا اپوزیشن نہ ہوسکے گی۔دیکھتے ہیں ، کہ ان دیکھے منے کی وجہ سے لڑائی طول پکڑتی ہے یا کہ کو ئی فیصلہ ہوجائے گا۔

twitter:@am_nawazish

SMS رائے: #AMN (SPACE)پیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں

تازہ ترین