• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میجر راورٹی کے مطابق، خوش حال خان خٹک نے 250کتابیں لکھیں، مگر اُن کی شاعری اور نثر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ’’ پختو‘‘ ہے۔ پختو(پشتو)، محض ایک زبان ہی نہیں، بلکہ معنوی واصطلاحی اعتبار سے اس سے مُراد پختونوں کا ضابطۂ زندگی بھی ہے۔ Eighteen years in Khyber‘‘کے مصنّف، مسٹربرٹن، Frontier‘‘ کے خالق، لارڈ لٹن اور’’ وحشی قوم‘‘کے مصنّف میجر جیمز اپنی کتابوں، جب کہ رابرٹ منٹگمری، مسٹر ہربرٹ ہیوز اور سرالفریڈ تک، جن جن کا بھی جنگِ آزادی میں پختونوں سے واسطہ پڑا، اپنی تصانیف میں لکھتے ہیں کہ’’ انگریز استعمار اسی ایک’’ پختو‘‘ کی وجہ سے چَین کی نیند نہ سو سکا،‘‘ یہی وجہ ہے کہ فرنگی نے پختونوں کو اسی قومی مزاحمتی کردار ہی کی بنا پر’’ وحشی‘‘ اور’’جنگلی گھوڑے‘‘ تک کہا۔ میجر جیمز نے تو یہاں تک لکھا کہ’’پٹھان اور خون آشامی ہم معنی ہیں۔‘‘حالاں کہ ہزاروں سال سے زندہ پختون تہذیب و ثقافت اور روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مِن حیث القوم، پشتون جبر، تشدّد اور مذہبی منافرت سے دُور رہے ہیں، جس کی واضح مثال بدھ مت کا سوات سے بامیان تک کے پشتون علاقوں میں پروان چڑھنا ہے۔ نیز، اشوکا بادشاہ کا ہندوستان سے پشتون علاقوں میں آکر تشدّد سے نفرت اور محبّت کا پرچار، باچا خان کی عدم تشدّد کی تحریک اور دیگر کئی اور مثالیں بھی اس مؤقف کی تائیدکرتی ہیں۔23ستمبر 2017ء کو ’’پشتو اکیڈمی، کوئٹہ‘‘ کے عالمی پشتو سیمینار کے موقعے پر ہر برس’’پشتون کلچرل ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا۔ سو، پاکستان اور افغانستان کی طرح جہاں، جہاں پختون آباد ہیں، وہ آج(23ستمبرکو) پشتون کلچرل ڈے منارہے ہیں۔

ڈاکٹر احمد حسن دانی کا کہنا ہے کہ’’ پشتونوں کا قبائلی ڈھانچا، ایک ایسے خُوب صورت اور شان دار نظام پر قائم چلا آرہا ہے کہ ہر قبیلہ اپنی اپنی حیثیت میں ایک جمہوری حکومت تھی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کے مطابق ’’ لفظ افغان، سنسکرت کے’’ آپا گانا‘‘ سے وجود میں آیا، جس کے معنی ہیں، متعدّد جمہوریتیں۔‘‘ گویا اپنے وجود میں آنے سے آج تک، یہ قوم زندگی کے ایک ضابطے اور آئین پر کاربند رہی ہے۔ دیگر مفکّرین کی طرح، پروفیسر پریشان خٹک کے مطابق، پختون،5حروف یعنی پ، خ، ت، و اور ن کا مرکّب ہے۔ پ سے مُراد، پت(حیا، عظمت، شرافت، قربانی) خ سے خیگٹرہ(بھلائی، احسان)ت سے تلوار(بہادری، وفا) اور ن سے ننگ مُراد ہے۔ لفظ ننگ، اُردو اور فارسی میں جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے، پشتو میں اس کے کُلی طور پر برعکس ہے۔ پشتو میں ننگ کے معنی، ناموس پر مر مِٹنا ہے۔ یہاں ہم یہ یاد دِلاتے چلیں کہ پختو صرف پشتو زبان کو نہیں کہتے، یہ ایک جامع دستور کا نام ہے۔ ہیروڈوٹس کے جغرافیے میں پختون ثقافت کے خدّوخال کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ یونانی مؤرخ 484ق- م میں گزرا ہے۔ یونانی سیّاح، سکائی لارکس کے سیّاحت نامے، یونانی جغرافیہ دان بطلیموس کی تحقیق میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔ پختون ثقافت کی علمی تفہیم کے لیے ہم’’ انجمن ترقّی پسند مصنّفین‘‘ کے سابق صدر، سلیم راز کے ایک نہایت عالمانہ مضمون سے استفادہ کرتے ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں’’ یہ ایک تاریخی اور واقعاتی حقیقت ہے کہ چھے ہزار سال پرانی تاریخ کی حامل پختون قوم نے مختلف ادوار میں جغرافیے کی تقسیم دَر تقسیم، سرحدی (جغرافیائی) حد بندیوں کے باوجود، ثقافتی طرز پر ایک قومی وحدت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ثقافتی تنوّع کی رنگا رنگی میں ایک مشترکہ ثقافتی، بلکہ اجتماعی معاشرتی زندگی میں گو ناگوں سرگرمیوں کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے تاریخ و جغرافیہ کے بدلتے ہوئے حالات و مقامات میں عصری تقاضوں کے مطابق تہذیبی حُسن کی کثرت میں وحدت اور اس کی صداقتی وحدت میں کثرت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ فاصلوں کی دُوری کے باوجود، ایک مخصوص تاریخی تناظر میں اکائی کے پیمانے پر پوری اُتری ہے۔ یوں قبائلی معاشرے میں بھی قبائلی تفریق ،ایک مجموعی ثقافتی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 

جس نے پختون قوم کو قومی یک جہتی کا ایک ایسا حُسن عطا کیا، جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اور غیروں کی غلامی قبول کرنے سے انکار کی جرأت عطا کرکے اجتماعی خودکُشی سے محفوظ اور تاریخ کے جبر میں بھی نیلام و بدنام ہونے کے الزام سے بری الذمّہ قرار دیا ہے اور یہی وہ تہذیبی حُسن اور ثقافتی صداقت ہے، جسے پختو (پشتو) کا نام دیا گیا ہے۔اسی تہذیبی و ثقافتی اتحاد اور یک جہتی کو عرفِ عام میں پختون ولی (پشتون ولی) کہا جاتا ہے اور یہی پختو اور پختون ولی، پختون قوم کی تمام تر ثقافتی، تہذیبی، تمدّنی اور سماجی سرگرمیوں کا نہ صرف احاطہ کرتی ہے، بلکہ ترجمانی و عکّاسی بھی کرتی ہے۔ پختون سماجیات کے ہر پہلو اور ہر زاویۂ فکر و نظر کی تعمیر و تعبیر کی نمایندگی اور رہنمائی کرتی ہے۔ جسے پختون اہلِ قلم اور دانش وَر سماجی علوم کی اصطلاح میں’’ پختونوں کے ضابطۂ اخلاق‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ جو کوئی اس ضابطۂ اخلاق کے دائرے سے باہر ہوا، وہ پختون یا پشتون کہلانے کے حق سے محروم ہوگیا۔ لہٰذا، پختون ولی کی اس ثقافتی تعبیر سے کوئی انحراف نہیں کرسکتا اور اسی ثقافتی اور سماجی اصطلاح نے نہ صرف پختونوں کی ثقافت کو زندہ رکھا ہے، بلکہ بہ حیثیتِ قوم بھی اس کی اخلاقی اور سماجی حدود و قیود کا تعیّن کرکے اُنہیں اُن کا پابند بناکر منتشر و بے سمت ہونے سے بچایا ہے۔دریائے آمو اور دریائے سندھ کے درمیان ایک ہی جغرافیائی وحدت میں رہتے ہوئے پختونوں کے مختلف قبائل، مختلف رسم و رواج اور روایات کے باوجود، ایک ہی قومی دھارے اور ثقافتی و تہذیبی دائرے میں اپنی مخصوص قبائلی شناخت کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں۔ پختون ثقافت اسی ضابطۂ اخلاق کا عملی اظہار، بلکہ دوسرا نام ہے اور پشتو زبان اس کے ابلاغ، پھیلائو اور ترقّی و ترویج میں بنیادی کردار کا سب سے اہم حوالہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو نہ صرف اظہار و بیان کا ذریعہ اور وسیلہ ہے، بلکہ پوری ثقافتی زندگی، ضابطۂ اخلاق اور تہذیبی تاریخ کو بھی پشتو کا نام دیا گیا ہے، (یاد رہے دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہے)، جو اسے دنیا کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں ممتاز ہونے کا اعزاز بخشتا ہے۔ یعنی پشتو زبان بھی ہے اور سماجی و ثقافتی اعتبار سے ایک ضابطۂ اخلاق بھی۔ اسی طرح، تاریخ کے ہر دَور میں اس نے عصری تقاضوں کے پیشِ نظر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے نئی تبدیلیوں کا ساتھ دیا اور اُنہیں قبول بھی کیا ہے۔ نیز، اپنے بنیادی عناصر اور روایتی اقدار کو بھی زندہ و تابندہ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہزاروں سال کے سفر میں بھی اس کی روایتی اقدار، تبدیلی کے عمل میں کبھی رکاوٹ نہیں بنیں۔ بلکہ انھوں نے اس کی رُوح کو مزید تازگی اور تابندگی بخشی۔ باالفاظِ دیگر، پختون ثقافت نے روحِ عصر کے تقاضوں کے عین مطابق ہمیشہ اپنے مادّی وجود کی شناخت اور روحانی قوّت کی حس و شعور کا ثبوت دیا ہے۔ جس طرح بہ قول احمد ندیم قاسمی’’ثقافت میں روحِ عصر کے تقاضوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ورنہ تہذیب منجمد ہوکر رہ جاتی ہے۔‘‘یہی وجہ ہے کہ پختونوں کی تہذیب و ثقافت جامد نہیں، بلکہ متحرّک اور فعال ہے۔‘‘

اس معتبر حوالے سے اگر ہم پختون تہذیب و ثقافت کا جائزہ لیں، تو پختون قومی وجود کا چہرہ بہت واضح اور نمایاں نظر آتا ہے اور پختون قومی تہذیب کے خدّ و خال ڈھکے چُھپے نہیں، بلکہ دیکھے اور سمجھے جاسکتے ہیں۔ نیز، بہ حیثیت قوم اس کی پہچان و شناخت میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ وسیع تر تناظر میں تو انسانی اور معاشرتی زندگی میں زندہ رہنے اور زندگی بسر کرنے کے تمام طور طریقے، رویّے اور اخلاقی ضابطے تہذیب و ثقافت کے زمرے میں آتے ہیں اور کوئی نہ کوئی حوالہ رکھتے ہیں۔ کھانے، پینے، لباس، رہن سہن، رسم و رواج، میلے ٹھیلے، برتن، اوزار، آلات، کھیل کود اور تفریحی مشاغل کے علاوہ، قومی نوعیت کے ادارے، مقامات اور آپس کے سماجی معاملات و تعلقات، مذہبی رسومات، شادی بیاہ، خوشی، غمی اور رشتوں کے طور طریقے اور وسائل و مسائل کے حوالے سے قوانین، اصول اور ضابطے وغیرہ سب ثقافت و تہذیب کے مختلف رُوپ اور عکس پیش کرتے ہیں۔ابتدا میں جس پختو اور پختون ولی کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، اس کا زیادہ تر تعلق پختونوں کی روحانی اقدار، ضابطۂ اخلاق اور معاشرتی زندگی میں لوگوں کے تعلقات، رشتوں ناتوں، مہمان نوازی، بہادری کے اوصاف، رسم و رواج، مذہبی رجحانات و اعتقادات اور مجموعی قومی طرزِ احساس سے ہے، لیکن تہذیب و ثقافت کا ایک مادّی پہلو بھی ہے۔ جس میں کاروبارِ زندگی، معاشرتی قوانین، ذرایع معاش، فنونِ لطیفہ سے متعلق اشیا، کھیل کود، میلے، تماشے، زمانۂ جنگ و امن کے اصول و ضوابط اور سامانِ زیبائش کے علاوہ، ہنر و کسب کے مختلف آلات اور روزمرّہ کے استعمال کی اشیا کی تیاری و دیگر ذرائع پیداوار شامل ہیں۔ بہ حیثیتِ مجموعی، پختون ولی کے ثقافتی و تہذیبی اقدار میں غیرت، شجاعت، حرمت، مہمان نوازی، دوستی اور دشمنی کا ایک معیار مقرّر ہے، جس سے رُوگردانی کرنے والے کو پختون ولی سے خارج سمجھا جاتا ہے۔ اس قسم کے فیصلے انفرادی طور پر بھی ہوتے ہیں، لیکن اجتماعی طور پر سنگین نوعیت کے فیصلے جرگہ کرتا ہے، جن کا انعقاد حجروں میں ہوتا ہے اور حجرہ، ایک کمیونٹی سینٹر ہے، جو شادی، غمی اور دیگر معاشرتی تقریبات کے لیے ایک تہذیبی مرکز کا کام دیتا ہے۔

پختونوں کی تہذیب و ثقافت سے وابستہ کچھ اہم، مخصوص اقدار و روایات کا بھی ذکر ہوجائے۔ مثلاً ٭گودر…یعنی پنگھٹ، چشمے یا ندی کا وہ خاص مقام، جہاں سے گائوں کی دوشیزائیں گھڑوں میں پانی بَھر کر گھروں کو لے جاتی ہیں۔ جہاں لڑکیوں کی محفلیں سجتی ہیں۔ اگرچہ، وہاں مَردوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر پھر بھی یہ جگہ رومانی داستانوں کے لیے شہرت رکھتی ہے، البتہ اب یہ روایت ختم ہوچکی ہے۔٭ننوتے…کسی جرم کو بخشوانے کا ایک روایتی انداز، اقرار اور معافی مانگنے کا اظہار ہے، جس کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ جسے جرگے اور ننواتے کے طور پر متاثرہ خاندان قبول کرلیتا ہے اور صلح ہوجاتی ہے۔٭مہمان نوازی…اسے ایک اعلیٰ انسانی قدر اور باعثِ رحمت سمجھا جاتا ہے۔٭حب الوطنی…پختون اسے اپنے ایمان کا جز سمجھتے ہیں اور اپنی دھرتی کی عزّت و حفاظت کے لیے جان دینا ،پختون ولی کی شان اور آن قرار دیتے ہیں۔٭تیگہ…دو متحارب فریقوں میں فائر بندی کے اس فیصلے کو’’ تیگہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ صدیوں پرانی روایت ہے، جو آج بھی پختونوں، خصوصاً قبائل میں قائم اور قابلِ احترام ہے۔ ٭عورتوں کا احترام…پختون ثقافت و معاشرت میں عورت کا احترام ایک قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ خصوصاً لڑائی جھگڑوں میں خواتین کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ نہ اُن کی طرف غلط نگاہ ڈالی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر جنگ کے دَوران خواتین امن کی خاطر بیچ میں آجائیں، تو جنگ بندی ہوجاتی ہے۔٭پناہ دینا…پختون ولی کی رُو سے اگر کسی کا دشمن بھی اس کے گھر آکر پناہ مانگ لے، تو اُسے پناہ دی جاتی ہے۔ 

پھر اُس کے تحفّظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔٭پیغور (طعنہ)…پختون معاشرے میں بہت کچھ برداشت کیا جاتا ہے، لیکن پیغور (طعنہ) برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طعنہ بھی خاندانوں کو برباد کردیتا ہے۔٭بدل…پختون اپنی بے عزّتی، تہمت یا قتل کا بدلہ (انتقام) لینا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں۔ پختون معاشرے اور ثقافت کا یہ دستور بہت ہی بھیانک ہے۔٭پور…پختونوں کے بعض قبیلوں میں کسی سے کوئی جرم سرزد ہوجانے پر تاوان وصول کیا جاتا ہے۔ جسے’’ پور‘‘ کہتے ہیں۔ بشرط یہ کہ یہ جرم یا غلطی کسی کی عزّت پر ڈاکا ڈالنے کی نہ ہو۔٭خون بہا…یہ ایک ضابطہ یا قانون ہے، جو کسی سے قتل ہوجانے کی صورت میں لاگو ہوتا ہے۔ اگر مقتول کے ورثاء، قاتل کو معاف کردیتے ہیں، تو جرگہ قاتل کے خاندان سے خون بہا وصول کرکے متاثرہ خاندان کی داد رَسی کرتا ہے۔

پختونوں کی تاریخ جنگوں اور لڑائیوں سے بَھری پڑی ہے۔ ثقافتی اعتبار سے بعض اہم کسب و ہنر میں چوڑی گری، مس گری، قلعی گری، کنگھی سازی، پنکھا سازی، نعل بندی، لُنگی بانی، خیاطی، پوستین دوزی، آہن گری، کاغذ سازی، ابریشم گری، نمد سازی، تانگہ سازی، بارود سازی، بندوق سازی، مہر کنی، صیقل گری، ڈبگری، کوٹا نگری، چپّل سازی، سراجی، پتنگ سازی، زر گری، مصوّری، عطر سازی، خشت سازی، قالین بانی، دری بانی، گھڑی سازی، تسبیح سازی، کلاہ سازی، کشیدہ کاری وغیرہ شامل ہیں، جس کی وجہ سے پختون خوا کے مخصوص ثقافتی رنگ ابھر کر سامنے آتے ہیں اور ان میں ثقافت کا تنوّع اور حُسن بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر یہ کہ پختونوں کے لیے یہ اَمر یقیناً قابلِ فخر ہے کہ اُن کا ثقافتی لباس، پاکستان کا قومی لباس ہے۔ یہاں یہ بات بھی خالی از دِل چسپی نہ ہوگی کہ خٹک رقص پاکستان کا بھی قومی رقص ہے۔ معلوم تاریخ یہ ہے کہ’’ خٹک بنگڑہ‘‘ جنگ کے لیے ایک ایکسر سائز ہوا کرتی تھی۔ پرانے زمانے میں جنگوں میں نقّارے اور ڈھول لازمی ہوا کرتے تھے، اس لیے خٹک بنگڑے کو اہمیت حاصل ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد چوں کہ کوئی مُلکی رقص نہیں تھا، اس لیے خٹک بنگڑے ہی کو قومی رقص قرار دیا گیا ۔اس رقص کی موسیقی اور آہنگ پر نام وَر شاعر، سمندر خان سمندر نے دروند پختون یم،دروند پختون یم دروند( باوقار پختون ہوں، باوقار پختون ہوں، باوقار ) نامی غزل لکھی، جو اس رقص کی موسیقی کا بے مثال’’ بیانیہ‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ رقص، یونانی رقص کی ایک شکل ہے اور یونان ہی سے افغانستان آیا۔ یہ ایک دوسرے نام اتن(اتنڑ) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو خٹک بنگڑے کے شروع میں کیا جاتا ہے۔ اس رقص کو یونان میں’’ اتھینا‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، لیکن عیسائیوں کی یونان آمد کے بعد اس رقص کا خاتمہ ہوگیا، مگر افغانستان اور پختون خوا میں یہ آج بھی جاری ہے۔ تاہم، ہمارا خیال ہے کہ پختونوں کا قومی رقص، خٹک رقص نہیں، اتنڑ (اتن) ہے۔ پشتو کی جتنی بھی لغات ہیں، سب میں اتنڑ ہی کو پختونوں کا قومی رقص بتایا گیا ہے اور آج بھی یہ افغانستان کا قومی رقص ہے۔ اتنڑ، پشتو کا لفظ ہے، جب کہ خٹک کے ساتھ ڈانس یا ناچ غیر پشتو الفاظ ہیں۔ خٹک اپنی بول چال میں بھی اسے کبھی خٹک ڈانس نہیں کہتے، بلکہ بنگڑہ یا بلبلہ کہتے ہیں۔ یعنی یہ اس طرح ہے جیسے، پختون کو پٹھان کہا جائے، جو ظاہر ہے غیروں کا دیا ہوا نام ہے۔ یہ بھی واضح ہو کہ دیگر قومیتوں کے بھنگڑے میں’’ہ‘‘ درمیان میں، جب کہ پشتونوں کے بنگڑہ میں’’ ہ‘‘ آخر میں آتا ہے۔’’ اتنڑیوں‘‘ بھی پختونوں کا ملّی رقص ہے کہ یہ خٹک سمیت پختونوں کے تمام قبیلوں کے رقصوں پر مشتمل یا اس کا مجموعہ ہے۔ جو رقص ناز و انداز، رنگ و آہنگ اور ساز و آواز میں ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں، وہ تمام اتنڑ میں ضم ہو کر اس کے نقش و نگار بن جاتے ہیں۔

پختون ثقافت میں حُجرے کو خاص دخل ہے، جہاں گاؤں کے لوگ جمع ہوکر مختلف معاملات پر گفت و شنید کرتے ہیں۔ کوئی حجرہ ایسا نہیں ہوتا، جہاں رباب، گھڑا اور ڈھول نہ ہو۔ یہیں موسیقی کا اہتمام ہوتا ہے۔ پشتو موسیقی میں سانڈے، ٹپہ، لوبہ، رباعی، لہکتی، بدلہ، چہار بیت اور غزل نمایاں ہیں۔ چناں چہ جو سات اصناف پشتو شاعری کی ہیں، وہیں موسیقی کی بھی ہیں۔ گویا دونوں کی کائنات ایک ہی ہے۔ پشتونوں میں بجائے جانے والے ساز عموماً قدیم ہیں۔ ان کی خُوبی یہ ہے کہ ان کی آواز سخت اور کرخت ہے اور ان کو بجانے میں خاصا زور لگانا پڑتا ہے، اسی لیے یہ جنگی ساز کہلاتے ہیں، شاید اسی لیے یہاں کے رہنے والوں کے مزاج میں ایک قسم کا کرخت پن آگیاہے۔ اس علاقے میں جو ساز رائج ہیں ان میں رباب، سریندہ، سرنا، زنگہ اور زیر بغلئی ہیں۔ یہ ساز اصل میں قدیم زمانے میں برّصغیر میں بھی رائج تھے۔ پشتو دھنوں کی خُوبی یہ ہے کہ یہ جوش سے بَھری ہوئی ہیں اور ان میں والہانہ پن ہے، جو بے اختیار دل کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔

پشتون ثقافتی کھانوں میں کابلی پلاؤ،دبیزے غوخہ(بکری گوشت)، سیخ کباب، چپلی کباب، شامی کباب، شینواری کباب،کیچڑی، شوربا، اوش، اوشک، ہیراک، برونی، غٹے ورجے(بڑے چاول)، گھمبڑی(اس میں لوبیا، چنے، گندم، مکئی ہوتے ہیں اور شوربا نمکین ہوتا ہے)، شوملے (لسی)، وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ پختونوں کے ثقافتی و علاقائی کھیلوں پر سیّد ظفراللہ بخشالی نے سیر حاصل بحث کی ہے، ہم یہاں ان کے صرف ناموں پر اکتفا کرتے ہیں۔تور مخی بابا، دربالی یا بانی چغ، پرزولی او کبڈی، موخہ، پٹہ گیٹی، سخی سخی کرنا، د چا د کوسے خاورے، شلغاتی، آنگے مل دے سوک دے، کوتی لال، گیر ناگیر، نخہ ویشتل، خکار، کچی ڈنڈے، ٹالونہ اوٹوپونہ، ڈنڈے پنڈوس، میرا ڈبی، کانکی وک (پتنگ بازی)، بیلوری۔ لڑکیوں کےچند کھیلوں میں چیندرو، کوٹنی کول، میر گاٹی، اکوبکو، تپ تپانڑے، پٹ پٹونے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ نیز، پردے کے لیے پختون خواتین جو شال اوڑھتی ہیں، وہی ان کی ثقافتی پوشاک ہے۔

گزشتہ 40برسوں سے پختون خطّے پر مسلّط جنگ نے فنونِ لطیفہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔ بہت سے فن کاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، جس کے سبب فن کاروں کی بڑی تعداد مُلک چھوڑ چکی ہے، جب کہ بہت سے خوف کے مارے منظر ہی سے غائب ہو گئے۔ تاہم گزشتہ چار، پانچ سال سے پختون موسیقی بڑی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہا پسندی کے ردّ ِ عمل میں ایک جہانِ نو نمودار ہونے کو ہے اور پختون ثقافت حالات کے جبر سے بکھرے گی نہیں، مزید نکھرے گی بلکہ پوری آب وتاب سے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرے گی۔

تازہ ترین