• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سابق امریکی صدر کلنٹن نے مسئلہ کشمیر پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’فلیش پوائنٹ‘‘ قرار دیا تھا، واشنگٹن اپنی نئی ’’انڈیا پالیسی‘‘ میں بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دینے کی پوزیشن لے چکا تھا جو آنے والی بش اور اوبامہ حکومتوں میں برقرار رہی۔ مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور پاکستان اور کشمیریوں کے مبنی برحق ہونے کو امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ کوئی اور ملک نہیں سمجھتا۔ لیکن ہر دو اپنے بھارت کے حوالے سے ’’قومی مفادات‘‘ کے مطابق خود اصل حقائق کے مطابق موقف اختیار نہ کر پائے۔ مسئلہ کشمیر پر امریکی لٹریچر اور تحقیقی مواد میں بہت کچھ ہے۔ جس کی روشنی میں امریکہ مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف اختیار کرتا تو برصغیر آج ایک پر امن، مستحکم اور دنیائے امن و استحکام اور خوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہوتا، جس کے سب سے بڑے بینی فیشریز پاکستان ، بھارت اور دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کے بعد امریکہ اور برطانیہ ہوتے۔ لیکن دنیا کی تلخ عالمی حقیقت یہ ہی ہے جو ہمارے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان نے بیان کی ہے۔ کہ ’’چھوٹے لوگ بڑے عہدے پر پہنچ کر بھی چھوٹے ہی رہتے ہیں‘‘۔ یہ جدید اور قدیم دنیا کی وہ حقیقت ہے، جسے دانشوروں، شاعر اور صحافیوں نے تو اپنی تحریروں ، تجزیوں اور شاعری کا موضوع بنایا ہوگا، لیکن کسی حکمران نے یہ حقیقت اتنی بیباکی اور دانش سے بیان نہیں کی جس طرح وزیر اعظم عمران خاں نے اپنے ٹویٹ میں کر دی۔ یہ نہیں کہ کوئی بھی حکمران اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتا کہ چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پر پہنچ کر چھوٹے ہی رہتے ہیں ۔ کئی ذمے دار اور دانش ور حکمراں اس دانش ورانہ بیانیے کی تلخ حقیقت اور اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، لیکن ہمارے وزیر اعظم کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایک بہت بڑی اور حساس قومی ضرورت کے لئے ٹیکنالوجی کی مدد سے سفارتی بیانئے میں ڈھال کر پوری دنیا میں عام کر دیا، باقی کی ایسی جرأت نہیں ہوتی نہ تاریخ میں ہوتی رہی۔ اس لئے کہ ’’بڑے عہدے پر چھوٹے آدمی کے براجمان‘‘ کے منفی نتائج کو سمجھنے والے حکمرانوں میں ایسی جرأت اور بیباکی نہیں ہوتی کہ وہ اس طرح سفارت کاری اور حکومت میں رہ کر بڑے بڑے ملک کے چھوٹے ذہن حکمرانوں اور اہم اداروں میں بیٹھے چھوٹے ذہن سربراہوں کی ناراضگی و خفگی کا ڈر آڑے آتا ہے۔ خصوصاً اگر معاملہ بڑی عسکری طاقتوں کے حکمرانوں کے ساتھ چل رہا ہو تو ، کس میں اتنی جرأت ہوتی ہے ،لیکن تلخ حقیقت کو ابلاغ عامہ اور سفارتی زبان میں نہ لانے کے نتائج ہمیشہ مہلک نتائج انسانوں اور ان کے امن کے لئے مہلک ہی نکلے ہیں۔سو ہمیں تاریخ میں نہ آج کے سفارتی اور عالمی سیاست کے لٹریچر میں حکمرانوں کے ایسے جرأت مندانہ بیانات کے حوالے دور دور نہیں ملتے۔ یا شاذ و نادر ڈھونڈنے سے ملیں گے۔

وزیر اعظم عمران خاں کی سفارتی حق گوئی کی تائید امریکہ اور بھارت کی گزشتہ انتخابی مہمات پھر ’’ہندوتوا‘‘ (مکمل ہندوغلبہ) کے علمبردار بنیاد پرست نریندر مودی اور نسل پرستی اور مذہبی منافرت کے کھلے پر چارک ڈونالڈ ٹرمپ کے وزیر اعظم اور صدر منتخب ہونے پر ان کے مطابق حکومتی اقدامات سے ہوتی ہے۔ کیا دونوں نے اپنے اپنے آئین کی روح کے برعکس ’’ہندوتوا‘‘ اور اپنے نسل پرستانہ اور مذہبی منافرت اور اقلیت دشمن حکومتی اقدامات نہیں کئے؟ ناچیز کا تو فقط سوال ہے ، تائید دونوں کی انتخابی مہمات کے دوران اور حکومتی اقدامات لینے پر بھارت اور امریکہ کی اپوزیشن ، سیاسی دانشوروں ، بنیادی حقوق کی تنظیموں اور غیر جانبدار میڈیا کے واویلا اور مسلسل نوٹس اور ان کے رویے اور آئین مخالف اقدامات پر عدالتوں سے رجوع کرنے سے ہوتی ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان کے اپنے ہمسایوں سے پر امن تعلقات قائم کرنے کے اعلانیہ حکومتی ایجنڈے کے مطابق بڑے بھارت کے محدود الذہن وزیر اعظم کو جو امن نامہ بھیجا تھا، اس پر بھارت کو پہلے تو نیم دلی سے ہاں کرنا پڑی پھر جب چھوٹا پن اختیار کر کے فرار کیا تو بھارت کی لاکھوں افواج کے چھوٹے کمان دار نے اپنا چھوٹا پن دھڑلے سے بیان کیا۔ ایسا کمانڈر انچیف، جسے دونوں ملکوں کے ایٹمی حیثیت کے حوالے سے حساسیت کا اندازہ نہیں ، نے پاکستان کو دھمکیوں سے جس طرح مخاطب کیا ہے، وہ وزیر اعظم عمران خان کے بیانئے کی مزید اور مکمل تصدیق ہے۔

تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم میں ملک میں نظام تعلیم کی زبوں حالی کی جگہ قومی ضرورت کے مطابق ایک صحت مند اور نتیجہ خیز نظام تعلیم کو اپنے ٹاپ ایجنڈے میں شامل کیا۔ خود تھرو آئوٹ جناب وزیر اعظم اپنے سیاسی ابلاغ میں تعلیم اور یونیورسٹیوں کے قومی کردار پر مسلسل اظہار خیال کرتے رہے۔ یقیناً وہ اس کے لئے بہت کچھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور انشا اللہ یہ ہوگا۔

فوری نوعیت کا ایک مسئلہ جس کی جانب وفاقی دارلحکومت کی تین یونیورسٹیوں قائد اعظم یونیورسٹی ، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں وی سی شپ کی خالی آسامیوں کے انتہائی معتبر اور محترم پروفیسر امیدواروں نے توجہ دلائی ہے۔ وہ ان خالی آسامیوں پر فوری وائس چانسلر کی تعیناتی ہے، وگرنہ ریٹائر ہونے والے وی سی صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی طرح سابقہ پنجاب حکومت کی طرح، وفاقی حکومت بھی انہیں ایڈہاک ازم پر چلائے گی۔ یونیورسٹی ہرگز ایسا ادارہ نہیں کہ انہیں مہینوں مطلوب علمی انتظامی سربراہی سے محروم رکھا جائے۔ جبکہ پنجاب کی پبلک یونیورسٹیوں میں جو تماشہ اس حوالے سے ہوا ہے ، خدشہ ہے کہ وہ ان وفاقی پبلک یونیورسٹیوں میں بھی ہو۔ یہ امیدواروں کے توجہ دلانے کی ہی بات نہیں، خود یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کے 36سالہ تجربے اور پنجاب یونیورسٹی میں تین سال کے ممبر سینڈیکیٹ کے تجربے کے ناطے میں اس خدشہ کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ یہ اس ایڈہاک ازم کا نتیجہ رہا کہ یونیورسٹیوں میں دیرپا فیصلوں کا فقدان رہا ، مالی ، انتظامی اور سب سے بڑھ کر تعلیمی ڈسپلن اور ریسرچ کو نقصان پہنچا اور طلبہ اور اساتذہ میں بے چینی پیدا ہو کر بڑھتی رہی۔ متذکرہ تینوں وفاقی یونیورسٹیاں پہلے بھی مطلوب قیادت سے 7ماہ تک محروم رہ چکی ہیں، جس کے شدید نقصان بالآخر زیر تعلیم طلبہ کو کتنی ہی اذیت ناک شکل میں بھگتنے پڑتے اور اساتذہ کی بے چینی بڑھنے لگتی اور دو نمبری کلچر پیدا ہونے لگتا ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسے ہی ایڈہاک ازم سے ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے کہ پروفیسری تک ایسے اساتذہ کے ہاتھ لگ جاتی ہے جو سمسٹر سسٹم سے حاصل اپنی ایمپاور منٹ کا انتہائی متعصبانہ استعمال کر کے فیل کو پاس اور پاس کو فیل کر دیتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی ایک ایسے پروفیسر کو بھگت چکی ہے جس کے خلاف انکوائری کے نتائج میں ایک معتبر انکوائری آفیسر نے سفارش کی کہ ’’پروفیسر صاحب‘‘ کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی جائے کیونکہ یہ ایم فل لینڈنگ ٹو پی ایچ ڈی پروگرام کو دانستہ تباہ کرنے کے مرتکب ہوئے ۔ لیکن ان کی کچھ عرصہ پنشن رکی کہیں سینڈیکٹ میں لیکن اسٹیٹس کو کی فنکاریوں سے آج انہیں کوئی پرائیویٹ یونیورسٹی بھگت رہی ہےکیونکہ اب یہ اپنی ’’فنکاریوں‘‘ سے پوتر ہو چکے ہیں۔ اور کئی جینوئن اساتذہ کے سرعام درپے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین