• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سے لوگوں کو یقین نہیں آئے گا مگر یہ جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ پانچ سال پہلے جو باتیں قطعی ناممکن اور ناقابل قیاس سمجھی جاتی تھیں وہ ممکن دکھائی دینے لگی ہیں۔
2007ء میں کون سوچ سکتا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ حکومت پاکستان کو کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا حکم جاری کرے گا؟ یہ سوچنا تو کسی شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا کہ پنجاب کا اپنا، اپنی جغرافیائی حدود کے اندر بھی کوئی ڈیم ہوسکتا ہے۔
پانچ سال پہلے مفاہمت اور مصالحت کے تقاضوں کے باوجود میاں منظور احمد وٹو وسطی پنجاب کی پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ نہیں بن سکتے تھے اور یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتے تھے کہ صوبہ پنجاب کی سیاسی فتح حاصل کرسکیں گے وہ یہ چیلنج بھی نہیں کرسکتے تھے کہ صوبے کا مشکل ترین حلقہ نیابت بتاؤ میں وہاں سے الیکشن جیت کر دکھاؤں گا۔
اور سب سے زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ کہ پنجاب کے ضلع وہاڑی کے ”ڈی سی او“ احسان اللہ بھٹہ جمعہ 23نومبر کو اپنے ضلع کے 32دیہات میں پھیلے ہوئے بیس ہزار سے زیادہ بچوں اور بچیوں کے 35تعلیمی سکولوں کو وہاں کے زمینداروں کے پندرہ سالہ ناجائز، غیر قانونی قبضہ غاصبانہ سے واگداز کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جن میں سے 25سکولوں کا تعلق وہاں کی بچیوں اور مستقبل کی ماؤں کی ابتدائی تعلیم سے ہے۔ کیا پانچ سال پہلے سال 2007ء میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ جو زمیندار اپنے کھیتوں کے قریب سے گزرنے والے بچھڑے کی کھال بھی اصل مالکوں کو واپس نہیں کرسکتے اپنے علاقے کے 32دیہات کے 35 سرکاری سکولوں کے احاطوں سے اپنے مویشی نکال لیں گے وہاں بنائے گئے اناج کے نہاں خانوں کو خالی کر دیں گے۔ کلاس رومز میں رکھے گئے کھاد کے ڈھیر اٹھا لیں گے اور اپنے مضارعوں اور کھیت مزدوروں کو آگے بڑھنے اور بہتر مستقبل کی راہوں پر چلنے کی بجائے ماضی کے اندھیروں میں دھکیلنے اور معذوریوں، مجبوریوں اور محتاجوں کی ذلت میں غرق کرنے کے ظلم سے باز آجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پنجاب کے بڑے زمینداروں کی سوچ میں مثبت تبدیلی کا معجزہ رونما ہوسکتا ہے تو پنجاب میں کالا باغ کے مقام پر کالا باغ ڈیم کے نام سے کالا باغ ڈیم بھی بن سکتا ہے بلکہ کچھ بھی ہوسکتا ہے یہاں تک کہ ہمالیہ پہاڑ بھی اپنی بنیادوں سے ہٹ سکتا ہے۔
کارل مارکس اور لینن تو یہی کہیں گے کہ وہاڑی کے زمینداروں کے غاصبانہ قبضے کے پیچھے ”ملکیت“ کی خرابیاں کارفرما ہیں مگر پاکستا ن کے حوالے سے برصغیر کی تقسیم کے ساتھ مذہبی فسادات، الاٹ منٹ اور لوٹ مار کے بعد تحریک پاکستان کے مخالفوں کے ”نظریہ پاکستان“ نے ان فسادات، الاٹ منٹوں اور لوٹ مار کے سلسلوں کو جاری رکھنے کی راہیں ہموار کر دیں۔ حقوق کے مقابلے میں ”مراعات“ بہت زیادہ نمایاں ہوئیں۔ حکومتوں اور حکمرانوں کے لئے یہ آسان تھا کہ وہ کچھ لوگوں کو مراعات دیدیں اور تمام لوگوں کے اجتماعی حقوق کو نظرانداز کروا دیں۔ میں اگر اخبار نویس ہونے کی وجہ سے اپنے لئے رہائشی پلاٹ کی مراعات ، بچے کے سکول، کالج، یونیورسٹی میں داخلے کی مراعات اور زندگی کے دیگر معاملات میں ترجیحی سلوک کی مراعات چاہوں گا تو ضلع وہاڑی کے زمینداروں کے سرکاری تعلیمی اداروں پر ناجائز،غیر قانونی اور غاصبانہ قبضوں کو کیسے روک سکوں گا؟ اپنے ملک کے ایک بڑے حصے کو ملک سے الگ ہونے سے کیسے روک سکوں گا؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچنا چاہئے کہ حالات کبھی جوں کے توں نہیں رہتے۔ حالات کے اندر ایک مستقل اور متواتر تبدیلی چل رہی ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی بھی ہماری برداشت کی طلب گزار ہوتی ہے۔ اس برداشت کا مظاہرہ کیا جائے تو وہاڑی سے کالا باغ تک بلکہ بہت دور تک پھیلے ہوئے سبز باغوں میں بھی انقلاب آفرین تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
تازہ ترین