• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عکّاسی:عرفان نجمی

لاہور کے معروف علاقے،مال روڈ کے گرد ونواح میں واقع، الحمرا آرٹس کائونسل، چڑیا گھر، باغِ جناح، چلڈرن کمپلیکس، قائد اعظم لائبریری اور دیگر اہم عمارتوں کے درمیان موجود تقریباً 700کنال پر محیط سفید رنگ کی عظیم الشّان تاریخی عمارت روزانہ ہی لاکھوں افراد کی توجّہ کا مرکز بنتی تھی، لیکن کسی کو’’ پنجاب گورنر ہائوس‘‘ کے نام سے موسوم اس عمارت کے گرد لگے خار دار تاروں اور کنکریٹ کی دیواروں سے جھانکنے تک کی اجازت نہیں تھی، البتہ وہ اس بات سے ضرور واقف تھے کہ اس وسیع و عریض عمارت کے مکین گورنر پنجاب ہیں، جو وفاق کا نمایندہ ہونے کی حیثیت سے صوبے کے آئینی اور بعض انتظامی امور کے ذمّے دار ہیں۔ تاہم، گورنر ہائوس کی تاریخی عمارت اور اس کے پہلو سے گزرنے والوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جو فاصلے حائل تھے، وہ اُس وقت ختم ہو گئے کہ جب وزیرِ اعظم، عمران خان نے چاروں صوبوں میں موجود گورنر ہائوسز کے دروازے عوام کے لیے کھولنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد شہری ہفتے میں ایک دن گورنر ہائوس کی سیر کر سکتے ہیں اور لاہور کے شہریوں کے لیے اتوار کی صبح 9سے 12اور شام 2سے 5بجے تک کا وقت مقرّر کیا گیا ہے۔ اب ہر اتوار کو شہریوں کی ایک بڑی تعداد گورنر ہائوس کا رُخ کرتی ہے، جس میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس موقعے پر اکثر افراد ممانعت کے باوجود اپنے ساتھ اشیائے خورو نوش بھی لے آتے ہیں اور سیلفیز بھی بناتے ہیں۔ یوں ہمہ وقت پُراسرار خاموشی میں ڈوبی عمارت ہفتے میں ایک روز قہقہوں اور شور و غُل سے گونج اُٹھتی ہے۔گزشتہ دنوں ہم نے عوام کے لیے گورنر ہائوس، پنجاب کے دروازے کھلنے پر شہریوں کا ردِ عمل جاننے کے لیے خصوصی سروےکیا،توگورنر ہائوس کی سیر کے لیے آئے لاہور کے اے جی آفس میں خدمات انجام دینے والے گریڈ 15کے ملازم، محمد نعیم نے بتایا کہ’’ گورنر ہائوس کی تاریخی عمارت میرے دفتر کے راستے میں آتی ہے ۔ مَیں برسوں سے اس کے در و دیوار دیکھ رہا ہوں اور مُجھے عمارت کے اندر جانے کا بہت شوق تھا، لیکن کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے آہنی دروازوں سے جھانک بھی سکوں گا۔ جب وزیرِ اعظم، عمران خان نے عوام کے لیے گورنر ہائوس کے دروازے کھولنے کا اعلان کیا، تو میری اہلیہ بچّوں کے ساتھ اس تاریخی عمارت کی سیر کے لیے اصرار کرنے لگی۔ چناں چہ مَیں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گورنر ہائوس آیا ہوں۔ ہم اس کے وسیع و عریض لان اور اس میں موجود انواع و اقسام کے پُھولوں، گھنے درختوں اور سرسبز و شاداب کیاریوں کو دیکھ کر خُوب لطف اندوز ہو رہے ہیں، البتہ ہمیں یہ سوچ کر حیرت ہو رہی ہے کہ اتنی بڑی عمارت میں صرف ایک خاندان رہائش پذیر ہے اور اس کے لیے خدمت گاروں کی پوری فوج موجود ہے، جب کہ مُلک میں کروڑوں افراد کو سَر چھپانے کے لیے اپنا گھر تک میسّر نہیں۔ یہ اسراف نہیں تو اور کیا ہے؟ لہٰذا، گورنر ہائوس میں یونی ورسٹی ضرور بننی چاہیے۔‘‘

گورنر ہائوس کی سیر کے لیے آنے والوں میں 34سالہ آفس اسسٹنٹ، محمد عالم، اس کی اہلیہ اور دو بچّے بھی شامل تھے۔ یہ خاندان بھی اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا لایا تھا۔ محمد عالم نے بتایا کہ ’’مَیں گورنر ہائوس کے پاس سے گزرتے ہوئے اکثر سوچتا تھا کہ صرف ایک فرد کے لیے اتنی بڑی رہائش گاہ کیسے ہو سکتی ہے، جب کہ میرے پاس صرف3 مرلے کا گھر ہے، جو مَیں نے قرضے لے لے کر اور کمیٹیاں ڈال ڈال کر بہ مشکل بنایا ہے۔ اپنے تنگ و تاریک گھر میں میرا دَم گُھٹنے لگتا ہے، جب کہ یہاں کی کُھلی فضا تو مسرور کُن مہک سے لب ریز ہے۔ مَیں اس ماحول سے خُوب لطف اندوز ہو رہا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ فکر بھی کھائے جا رہی ہے کہ شام 6بجے مَیں اس نعمت سے محروم ہو جائوں گا۔ یہاں آنے کے بعد میرا احساسِ محرومی مزید بڑھ گیا ہے کہ حُکم راں تو بڑے بڑے محلاّت میں رہتے ہیں، جن میں عوام جھانک بھی نہیں سکتے اور غریب تنگ و تاریک کوٹھریوں میں۔ آخر یہ عدم مساوات کب ختم ہو گی؟‘‘ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گورنر ہائوس کی سیر کے لیے آنے والی کینئرڈ کالج کی طالبہ، نورین نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسی عمارتیں نو آبادیاتی دَور کی یاددلاتی ہیںاور انہیں آزادی کے فوراً بعد ہی عوام کے حوالے کر دینا چاہیے تھا، لیکن چُوں کہ ہمارے حُکم راں پُر تعیّش زندگی گزارنے کے عادی ہیں، لہٰذا وہ ان عالی شان عمارتوں کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں؟ یہ فیصلہ گھروں سے محروم شہریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ مَیں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ گورنر ہائوس کو عوام کی خاطر ایک روز کے لیے کھولنے کی بہ جائے یہاں یونی ورسٹی تعمیر کی جائے۔‘‘ گورنر ہائوس کی سیر میں مصروف غزالہ یاسمین نامی گھریلو خاتون کا کہنا تھا کہ ’’ مَیں اس سے قبل گورنر پنجاب، میاں محمد اظہر کے دَور میں یہاں آ چُکی ہے۔ تب مَیں طالبہ تھی اور اُس وقت بھی حکومت نے کچھ عرصے کے لیے یہ ’’ڈراما‘‘ رچایا تھا۔ آخر عوام کو اس عمارت کی سیر کی اجازت دینے کا کیا مقصد ہے؟ اس قدر وسیع و عریض رہائش گاہ کو دیکھ کر تو ہم مزید احساسِ کم تری کا شکار ہو گئے ہیں۔ مَیں کرائے کے مکان میں رہتی ہوں، جو اس قدر چھوٹا ہے کہ شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے، جب کہ کرایہ آسمان کو چُھو رہا ہے۔ گرچہ حکومت کا یہ فیصلہ بُرا نہیں، لیکن اس عمارت کو یونی ورسٹی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ نہایت مستحسن ہو گا، کیوں کہ محض چند افراد کے لیے اتنی بڑی عمارت مختص کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر گورنر صاحب ایک یا دو کنال کی شان دار کوٹھی میں بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔‘‘

عوام کے لیے گورنر ہائوس کھولنے کے اعلان کے بعد پہلے اور دوسرے ہفتے میں عمارت میں بہت زیادہ بدنظمی دیکھنے میں آئی اور انتظامیہ کی جانب سے صفائی سُتھرائی کا خیال رکھنے کی ہدایت کے باوجود شہری کچرا دانوں کی بہ جائے لان ہی میں کچرا پھینک کر چلے گئے۔ اسی طرح بچّوں نے پُھول توڑنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، جب کہ بعض شہری گورنر ہائوس میں موجود مصنوعی جھیل پر بنے نمائشی پُل پر چڑھ گئے، جو ان کا بوجھ برداشت نہ کر سکا اور اس کے ٹوٹنے کے نتیجے میں کئی شہری زخمی ہو گئے۔ یہاں آنے والے شہریوں نے گورنر ہائوس کی تاریخی عمارت میں کم دِل چسپی لی اور دن بَھر لان میں پکنک ہی مناتے رہے ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہیں ایک طویل عرصے بعد آزاد فضائوں میں سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ گورنر ہائوس کی سیر کے لیے آنے والوں میں سکھر، آزاد کشمیر اور رحیم یار خان سمیت مُلک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ ان میں سے بعض افراد لاہور میں مقیم اپنے رشتے داروں کے مہمان تھے اور انہوں نے بھی اتوار کو باغِ جناح کی بہ جائے گورنر ہائوس کا رُخ کیا۔ اس موقعے پر گورنر پنجاب، چوہدری محمد سرور بھی موجود تھے۔ انہیں دیکھتے ہی شہری ان کے گرد جمع ہو گئے اور سیلفیز بنانے لگے، جب کہ بعض افراد نے انہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے درخواستیں بھی دیں۔ اسی طرح گورنر پنجاب کی اہلیہ بھی شہریوں میں گُھل مل گئیں۔ گورنر چوہدری سرور نے عوام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ سرکاری عمارات عوام کی ملکیت اور عوام کے لیے ہیں۔‘‘ اتوار کے روز گورنر ہائوس میں جہاں بد نظمی دیکھنے میں آئی، وہیں سیکوریٹی گارڈز کی کمی بھی محسوس کی گئی،البتہ بعض ایسے طلبہ دکھائی دیے کہ جو شہریوں کی جانب سے پھینکے گئے شاپرز، ریپرز، خالی بوتلوں اور ڈبّوں کو اُٹھا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یہ سب کچھ رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں اور اس کا مقصد شہریوں میں صفائی کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ گرچہ گورنر ہائوس کے باہر یہ اعلان نمایاں طور پر چسپاں کیا گیا تھا کہ ’’کھانے پینے کی اشیااندر لے جانا منع ہے‘‘، لیکن اس کے باوجود شہری اشیائے خور و نوش اپنے ساتھ اندر لے گئے، جس کے نتیجے میں گورنر ہائوس کا وسیع و عریض لان کچرا کنڈی میں تبدیل ہو گیا۔

گورنر ہائوس، لاہور کی تاریخ چار صدیوں پر محیط ہے۔ شہر کے مرکز میں واقع اس عمارت نے کئی نشیب و فراز دیکھے اور یہ کئی سربستہ رازوں کی امین ہے۔ گورنر ہائوس، لاہور مغل شہنشاہ، جلال الدّین اکبر کے زمانے میں بنائے گئے ایک خُوب صُورت مقبرے کے گرد تعمیر کیا گیا ہے۔ 19ویں صدی کے تاریخ دانوں، ٹی ایچ تھارنٹن، جے ایل کیپلنگ اور سیّد محمد لطیف کے مطابق، یہ مقبرہ محمد قاسم خان کا ہے، جو شہنشاہ اکبر کے ماموں زاد بھائی تھے۔ ان مؤرخین کے مطابق، محمد قاسم خان کا انتقال شاہ جہاں کے دَور میں ہوا تھا، لیکن کئی محقّقین اس بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ بالخصوص، معروف ماہرِ آثارِ قدیمہ اور مؤرخ، محمد ولی اللہ خان (تمغۂ امتیاز) نے اپنی ریسرچ سے ثابت کیا کہ یہاں محمد قاسم خان نہیں، بلکہ مہدی قاسم خان مدفون ہیں، جو بابر سے لے کر اکبر تک کے دَورِ حکومت میں ایک با اثر جاگیر دار تھے اور ان کی لاہور میں ایک بہت بڑی حویلی تھی، جب کہ رائے بہادر کنہیا لال اور محمد طفیل جیسے مؤرخین کا خیال ہے کہ یہاں سیّد بدر الدّین گیلانی نامی بزرگ آسودۂ خاک ہیں، جن کا 1661ء میں لاہور میں انتقال ہوا تھا اور ان کے عقیدت مندوں نے ان کا مقبرہ تعمیر کیا تھا۔ تاہم، اکثر مؤرخین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ بہر کیف، 1851 ء سے 1853ء تک اس مقبرے کے گرد کئی عالی شان عمارات تعمیر کی گئیں اور ایک بہت بڑا طعام خانہ بنایا گیا۔ سِکھوں کے دَورِ حکومت (1764ء سے 1849ء) میں اس مقبرے اور مساجد کو پہلے بارود خانوں کے طور پر اور پھر ردّ و بدل کر کے رہائش گاہوں کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے محافظ دستے میں شامل خوش حال سنگھ نے اس مقبرے کے گرد بہت بڑی حویلی تعمیر کی اور مقبرے کے تہہ خانے کی بالائی منزل سے نمائشی قبر اور لوح بھی ہٹوا دی۔ حویلی کے گرد ایک وسیع باغ تھا، جس کے ایک گوشے میں محافظ دستے کی رہائش گاہیں بنائی گئیں۔ رنجیت سنگھ کے دَور میں یہاں پہلوانوں کے لیے ایک اکھاڑہ بھی بنایا گیا، جس کی وجہ سے یہ عمارت ’’کشتی والا گنبد‘‘ بھی کہلانے لگی۔ 29مارچ 1849ء کو پنجاب برطانوی قلمرو میں شامل کر لیا گیا اور پھر یہ حویلی یکے بعد دیگرے لارڈز، میئرز اور کمشنرز کے زیرِ استعمال رہی۔ برطانوی دَور کے آغاز میں اس عمارت میں سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر، مسٹر بورنگ نے رہائش اختیار کی۔ انگریزوں نے یہ حویلی خوش حال سنگھ کے بھتیجے راجہ تیجا سنگھ سے حاصل کی تھی، جس کی وسیع پیمانے پر مرمّت کی گئی اور اس کے بیش تر حصّے منہدم کر کے دوبارہ تعمیر کیے گئے، جب کہ مقبرے کو ایک بڑے ہال میں تبدیل کر دیا گیا۔ 

نیز، نئے کمروں کی تزئین و آرائش بھی کی گئی۔ حویلی کی تزئین و آرائش کا کام 1853ء میں مکمل ہوا اور اس وقت اس پر 16.5ہزار صَرف ہوئے تھے۔ اسی برس انتظامی بورڈ کو ختم کر کے سر جان لارنس کو پہلا چیف کمشنر مقرّر کیا گیا۔ 1854ء میں جب پنجاب کو صوبہ بنایا گیا، تو اس عمارت میں مزید توسیع کر کے اسے گورنمنٹ ہائوس کا نام دیا گیا اور خوش حال سنگھ کی حویلی سرکاری استعمال کے لیے کمشنر لاہور، سر رابرٹ منٹگمری کی استدعا پر تحویل میں لی گئی اور اس کے بدلے میں راجہ تیجا سنگھ کو سیال کوٹ میں ایک حویلی دی گئی۔ 1882ء میں عمارت میں مزید توسیع کر کے اسے گورنر ہائوس سے موسوم کیا گیا اور اب تک یہی نام چلا آ رہا ہے۔ گورنر ہائوس، لاہور کی آخری توسیع انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوئی۔ اس زمانے میں قاسم خان کے مقبرے کا زمین دوز راستہ صاف کر کے تہہ خانے کی مرمّت کی گئی۔ موجودہ گورنر ہائوس میں خوش حال سنگھ کی اصل حویلی کے آثار معدوم ہو چُکے ہیں۔ موجودہ گورنر ہائوس عظیم الشّان ہال کے علاوہ سوئمنگ پول، گھوڑوں کے اصطبل، گودام، اہل کاروں اور محافظوں کی رہائش گاہوں، لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے دو اسکولز، ایک خُوب صُورت مسجد (تعمیر کردہ، گورنر میاں مشتاق احمد گورمانی) اور دفاتر سمیت دیگر عمارات پر مشتمل ہے اور اسے ایک ثقافتی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔

تازہ ترین