SMS: #KMC (space) message & send to 8001
ما ضی میںنیب کو سیاست کی نظر کرکے مخالفین سے انتقامی کارروائی کا ایسا انوکھا فارمولا تیار ہوا جس کے چند نمونے شاہد عزیز کی کتاب ’’ یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں باآسانی دستیاب ہیں ۔اس دور میں شریف فیملی پر مقدمہ بنا ، تحقیقات شروع ہوئیں، رائے ونڈ سے جاتی امرا کو ملانے والی سڑک کی تعمیر کے معاملے میں اختیارات کا ناجائز استعمال اور ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کا الزام تھا۔ انکوائری کو سولہ سال گزر گئے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا ۔31 مارچ 2016 ء کو حتمی فیصلہ آنا باقی ہے کہ آیا مقدمات کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ریفرنس بنا کر داخل دفتر کیا جائے گا یا پھر عدم ثبوت کی بنا پر تحقیقات کا سلسلہ ختم کرکے کیس کو خارج کیا جائے گا ۔ وطنِ عزیز کے سیاسی منظر نامہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بلا تفریق تمام جماعتیں احتساب کی لاٹھی سے خائف ایک ہی دلیل کو مختلف زاویے سے پیش کر کے اپنے آپ کو بچانے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کے پی کے کی انصاف پسند حکومت سے احتساب کمیشن کے سربراہ حامد خان احتساب کمیشن ایکٹ میں ترامیم ، محدود اختیارات اور کارروائیوں میں رخنہ اندازی کے سبب برگشتہ ہوکر چلے گئے ۔ مسلم لیگ نون بھی نیب کو مشرف کی باقیات ہونے کی بنا پر اچھے نظروں سے نہیں دیکھتی۔ پیپلز پارٹی تو روز اوّل سے ہی نیب اور ایف آئی اے سے نالہ ہے ۔ ان حالات میں حکومت کی جانب سے نیب کو عیب دار بناکر اس پر کمیشن مسلط کرنا احتساب کو روکنے اوربدعنوانی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دُم پر پاؤں ہو یا پاؤں پر دُم دونوں ہی الجھن کا باعث ہوتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے سے تکلیف اور دوسرے سے چبھن ہوتی ہے۔پیپلز پارٹی کی دُم پر پاؤں آتا رہا تو وہ سیخ پا ہوتی رہی اب جب حکمراں جماعت کے پاؤں کے قریب نیب نے دُم ہلانا شروع کیا تو وہ الجھن کا شکار ہوگئی۔ اس تاثر کوعمل سے یکسر زائل کیا جانا چاہئے کہ حکومت احتساب کے خوف اور پنجاب میں ممکنہ رینجرز آپریشن کے ڈر سے کھسیانی ہوگئی ہے ۔اگر اس تاثر کا ازالہ نیب کو قابلِ اصلاح ادارہ قرار دے کر کیا جارہا ہے تو پھر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ تین سال گزرنے کے باوجود بھی اصلاح کیونکر ممکن نہ ہوسکی۔ حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق سے موجودہ چیئرمین نیب کی تقرری اور ’’سب اچھا ہے‘‘ کے نعرے کے بعد اچانک مارچ ایک مہینہ پیشتر نیب میں ایسی کون سی خامی در آئی کہ جس پر بڑوں کو ایکشن لینا پڑا ۔ رہا قضیہ نیب کا لوگوں کے گھروں میں بلاجواز گھسنے اور بے محابا چھاپوں کا ، تواس ضمن میں زرداری صاحب کی یہ بات سولہ آنے درست کہ نیب کی طرح کا نیک کام تو ایف آئی اے اور رینجرز بھی رات گئے اور دن چڑھے سر انجام دیتےر ہے ہیں۔ رینجرز، ایف آئی اے اور نیب کو محدود اور گرفتاریوں سے پہلے اجازت کا پابند بنانے کی بات سندھ کی جانب سے ہوئی تو اس پر کان نہیں دھرا گیا۔ دیوانے کی بڑ کی مانند اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا اور اب ’’اصلاح‘‘ کے نام پر نیب کو کمیشن کے ماتحت کرنے اور گرفتاریوں سے قبل اجازت کی مالا جپنے کی نصیحت کی جارہی ہے۔ زرداری صاحب نے جب ہوشیار ، ہوشیار، ہوشیار کی بے معنیٰ لفاظی کی تھی تو چوطرفہ تنقید کا انہیں سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اب جب ایک ذمہ دار منصب کی حامل شخصیت نیب سے خفا ہوکراس کے حدود وقیود متعین کرنے میں مصروف ہے تو ان کے لئے بھی پندونصائح ہونے چاہئیں۔سیاسی جوڑ توڑ اور معاصرانہ چشمک کو قوانین اور اصولوں پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہئے۔