• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب وہ نوجوان سندھی آرٹسٹ و کارٹونسٹ نیشنل آرٹس کالج سے فارغ ہوکر لاہور میں اپنا گھر بار بنا کر پنجاب کی زندگی کا حصہ بن چکا جس نے کبھی سندھی میگزین کیلئے کارٹون بنایا تھا جس میں اس نے دریائے سندھ پر مجوزہ کالا باغ ڈیم کے بعد سندھو کے پانی کی جگہ کالے سانپ کو لہراتے دکھایا تھا۔
کالا باغ ڈیم منصوبہ تھری ڈی عینک سے دکھایا جاتا رہا ہے۔ ایک ذی تصور مظہر۔ پنجاب اور وسطی پنجاب خاص طور اور ملک کے شہری متوسط طبقات سمجھتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پاکستان میں بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا، ہر گاؤں شہر کا ہر گھر بجلی کے قمقموں سے روشن ہو جائے گا، لوڈشیڈنگ قصہ پارینہ ہوگی۔ وسطی پنجاب کیلئے کالا باغ بہت بڑا سبز باغ ہے لیکن باقی تین صوبوں خصوصاً سندھ اور پختونخوا کے اکثر لوگوں کیلئے کالا ناگ ہے۔ ان صوبوں کے لوگوں کا رونا تو اس سندھی کہاوت کے مصداق ہے کہ ”اونٹوں نے تب رونا شروع کیا تھا جب باردانے سیئے جارہے تھے“۔
کالا باغ ڈیم منصوبہ ، جس کی تعمیر کے عزم کو اپنے پچھلے دور حکومت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کیلئے ان کے حامی اخبار کے مدیر نے آٹھویں دھماکے سے تعبیر کیا تھا۔ آٹھویں دھماکے سے ان کی مراد تھی کہ نواز شریف کی حکومت کے دوران سات ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد آٹھواں دھماکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہوگی۔ نواز شریف اب کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے اس عزم سے پیچھے یوں ہٹ چکے ہیں کہ وہ اس مجوزہ لیکن متنازع منصوبے کیلئے چاروں صوبوں کے عوام کا قومی اتفاق رائے ضروری سمجھتے ہیں۔ ایٹمی دھماکے چاغی کے پہاڑوں میں کئے گئے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر دریائے سندھ پر۔ اٹک سے لیکر کھاروچھان کے لوگ وادی سندھ کے لوگوں سے کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ جن کا دریا سے صرف پانی اور اس کے پینے والے کا رشتہ نہیں، وہ لائف لائن ہے۔ چاغی کے چرواہوں نے دیکھا کہ ان کے پہاڑ روئی میں کیسے بدلیں گے۔
دونوں صوبوں خیبر پختونخوا اور سندھ یہاں تک کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کے خلاف متفقہ طور پر قراردادیں بھی کب کی منظور کر رکھی ہیں۔ کئی سندھی سیاستدان تو کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں ہیرو بنے اور پھر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر اصلی تے وڈی اسٹیبلشمنٹ کے کاسہ لیس بنکر زیرو بھی بن گئے۔
لیاقت جتوئی نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دنوں میں سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنا جوتا قائد ایوان و وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ کے سامنے بینچ پر کالا باغ ڈیم کے احتجاج میں رکھ دیا تھا، موجودہ پیر پگاڑا اور غلام مرتضیٰ جتوئی جیسے نوجوان وزیروں نے کالا باغ ڈیم پر اپنی وفاقی حکومت نواز شریف دور حکومت میں باغیانہ تقریریں بھی کی تھیں۔ کئی قنوطی لوگ تو کالا باغ ڈیم کو وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہونے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ سندھ کے اکثر لوگ کہتے ہیں سندھ اس سے بنجر ہوجائے گا جبکہ پختونخوا کے لوگ کہتے ہیں کہ نوشہرہ اور جہانگیرہ ڈوب جائیں گے۔
سندھ کے لوگ پاکستانی حکمرانوں پر کیسے اعتبار کریں جنہوں نے پنجاب کے تین دریا بھارت کو فروخت کئے اور بقول سندھ کے پانی کے ماہرین کے دریائے سندھ پر سندھ کے حصہ پر ڈاکہ زنی کی۔ بہت سے سندھ کے پانی کے ماہرین محکمہ آبپاشی میں بڑے انجینئر و عملدار تھے سندھ کے پانی کی خوب ڈاکہ زنی کی لیکن کرسی چھوڑنے کے بعد سندھ کے حقوق اور پانی کے بڑے چیمپئن بن گئے۔ تربیلا ڈیم کے میرپوری کشمیری متاثرین کی تو اب تیسری چوتھی نسل برطانیہ میں آباد ہے جبکہ تربیلہ ڈیم کے سندھ کے متاثرین کی تیسری چوتھی نسل بھی سندھ میں دربدر خاک بسر ہیں بلکہ سندھ میں ڈاکو فیکٹر کا ایک اہم سبب تربیلہ ڈیم کے متاثرین کی دربدری تھی۔
گدو بیراج اور غلام محمد بیراج کی تعمیر پر یا ہر جنگ اور کرکٹ میچ پر سویلین اور فوجی بیورو کریسی اور کھلاڑیوں کو زمینیں سندھ میں انعام اور نیلام میں الاٹ کی گئیں۔ جنرل فضل مقیم، جنرل ذوالفقار، جنرل ٹکا خان، ایئر مارشل اصغر خان، جنرل نصیر اختر، آغا شاہی، سمیت کئیوں کی زمینوں کے بڑے رقبے بدین، ٹنڈو الہ یار، پنوعاقل، گھوٹکی ، سانگھڑ ،نوابشاہ سمیت سندھ میں ہیں۔ کیونکہ اصل وجہ پاکستان کے تمام صوبوں کے عوام کے درمیان عدم اتفاق رائے اور عدم اعتماد ہے۔ تمام صوبوں کے لوگوں میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے بجائے پاکستانی حکمرانوں نے پھر چاہے فوجی آمر تھے کہ نیم آمر یا سویلین حکمرانوں نے اپنے طول اقتدار اور کرسی مضبوط کرنے کیلئے کالاباغ جیسے منصوبوں کو لوگوں کو ایک دوسرے سے باہم گتھم گتھا کرانے پر اپنی کوششیں مرکوز رکھیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ پنجاب میں خادم پنجاب کی حکومت اور نواز شریف اب کیاکریں گے۔ کبھی پیپلزپارٹی پنجاب میں کالا باغ ڈیم کی حمایت تو سندھ میں مخالفت جیسا دہرا موقف رکھتی تھی جب تک اقتدار سے محروم بے نظیر بھٹو نے سندھ، پنجاب سرحد پر کمون شہید میں کالا باغ ڈیم کے خلاف لاکھوں لوگوں کی قیادت کرتے ہوئے دھرنا نہیں دیا تھا۔ عمران خان کالا باغ ڈیم کے خلاف سندھ میں سندھی قوم پرستوں کے جلسوں، جلوسوں میں ان کے شانہ بشانہ شریک رہے تھے۔ ایم کیو ایم کا موقف بھی وہی ہے جو سندھ کے اکثر لوگوں کا ہے۔
دریائے سندھ کے آخری سرے یا دم کے آخر پر رہنے والے لوگ کالا باغ ڈیم کو زندگی موت کا مسئلہ اور دریائے سندھ کی ڈیلٹا کی موت تصور کرتے ہیں۔ درحقیقت ٹھٹھہ سے کوٹری تک سندھو دریا کی ڈیلٹا تباہی اور مفلوک الحالی کا منظر پیش کر رہی ہے، جس کی وجہ دریائے سندھ میں کوٹری بیراج سے نیچے پانی کی ضروری مقدار کا نہ چھوڑنا ہے جس سے ہزاروں ایکڑ زمینوں اور مینگرو فاریسٹ کی تباہی ہے۔ سندھ کی ساحلی پٹی چاہے ڈیلٹا سے کئی لوگ ماحولیاتی مہاجر یا ریفیوجیزبنکر دربدر ہوگئے ہیں۔ ان میں بڑے رقبوں کے مالکان بھی تھے۔
برطانوی صحافی ایلس البینیا جس نے ٹھٹھہ سے لیکر جہاں دریائے سندھ سمندر میں گرتا ہے سے مغربی تبت جہاں سے شروع ہوتا ہے تک سفر کیا تھا اور اس اپنے دو ہزار میل مشکل سفر کے تجربات و مشاہدات پر مبنی کتاب " ایمپائرس آف دی انڈس" (دریائے سندھ کی سلطنتیں) میں کالاباغ ڈیم کے بارے میں لکھتی ہیں ”کچھ قنوطی پاکستانی تو اس حد تک پیشگوئی کرتے ہیں کہ اس منصوبے سے پاکستان کی پنجابی فوج کا سیاست اور پانی دونوں پر غلبہ قائم ہوگا جس سے ملک میں ایک اور خانہ جنگی چھڑ جائے گی" ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کیلئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر آٹھواں دھماکہ ثابت ہوتا ہے کہ واٹر لو۔
تازہ ترین