• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امتیاز راشد

پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ (خادم اعلیٰ بھی) اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور پاکستان مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کو جمعہ کے روز بعض الزامات کی روشنی میں نیب نے گرفتار کرکے سیاسی، سماجی میدان میں ایک ہلچل سے مچادی ، شاید کسی کو اس بات کا تصور بھی نہ ہو کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ کہلانے والی شخصیت کے ساتھ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے لیکن مقدر میں جو لکھا جائے وہ ہو کر رہتا ہے۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری پر جو سیاسی طوفان اور ان کی جماعت کے کارکنوں کے علاوہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی طرف سے تشویش اور بےچینی کا اظہار کیا جارہا ہے وہ میاں شہباز شریف کے لئے ایک سیاسی آکسیجن کا کام دے رہا ہے۔ میاں شہباز شریف پر کیا ،کیا الزامات ہیں ان الزامات کی قانونی حیثیت کیا ہے، کیا یہ ایسے ہی سنگین الزامات ہیں کہ پنجاب کی ایک سیاسی شخصیت کو غیر معمولی طور پر گرفتار کیا گیا۔آج کل میاں صاحب عدالت کی طرف سے دئیے گئے 10روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے شکنجے میں ہیں ان سے الزامات کے بارے میں تفتیش اور انکوائری کی جارہی ہے، اس میں دودھ کا دودھ کا پانی کا پانی ہوجائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت آنے سے قبل بھی اس قسم کی باتیں یا افواہیں سامنے آتی رہیںہیں کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اپنے صوبے کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ، خود بھی مال کمایا اور ان کی بیوروکریسی نے بھی کام دکھایا۔ 

اسے محض سیاسی نعرے یا الزامات ہی کہا جاسکتا تھا لیکن جمعہ کے روز ان افواہوں اور باتوں نے دم توڑ دیا اور یہ بات حقیقت کے طور پر سامنے آگئی اور سابق وزیر اعلیٰ کو گرفتار کرکے ان کا دس روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ایک سیاسی ہلچل ضرور مچی ہے، میاں صاحب کی حمایت اور ہمدردی میں ملک کی بہت سی اپوزیشن کی جماعتیں اکٹھی ہوچکی ہیں انہیں میاں شہباز شریف کی گرفتاری کچھ زیادہ اچھی نہیں لگی۔ انہوں نے حکومت کے خلاف اور میاں شہباز شریف کی حمایت میں بیانات کے منہ کھول دئیے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے اس بارے ملکی سطح پر تحریک چلانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) سمیت بہت سے سیاسی حلقوں میں اس بات پر بھی مایوسی سامنے آئی ہے کہ میاں شہباز شریف کی گرفتاری پر وہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا جو آنا چاہئے تھا ،ان کو جب گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا تو اس موقع پر اگرچہ مسلم لیگ(ن) کے کارکن موجود تھے لیکن ان کی تعداد لاہور کی آبادی کی نسبت بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہی جس کا افسوس شاید شریف فیملی کو بھی ہو لیکن ایسی باتیں شروع شروع میں اس طرح کی ہی ہوتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ پنجاب کے لوگوں کو میاں شہباز شریف کی خدمات کا اعتراف ہے۔ انہوں نے پنجاب بالخصوص لاہور میں بہت کام کروائے۔ آج لاہور انہی کی وجہ سے خوبصورت ا ور خوشنما نظر آرہا ہے۔ انہوں نے پنجاب کے لوگوں کی خدمت کے لئے دن رات کام کیا لیکن اپنی بیوروکریسی کی کرپشن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ ان کی ناک کے نیچے کرپشن کے کھیل کھیلے جاتے رہے، پولیس دن بدن بےلگام ہوتی رہی، ان کے سابق لاڈلے صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ زہر سے بھرے بیانات دے کر حالات کو بےقابو بناتے رہے۔ 

انہوں نے مذہبی قائدین سے لے کر ہر کسی کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا کہ ان کے بیانوں کی بازگشت بھی ہر جگہ سنی گئی، جو پنجاب کی حکومت کے لئے مفید ثابت نہ ہوسکی، کہنے والے تو یہ بھی کہتے رہے کہ پنجاب میں جس طرح من مانی ہورہی ہے وہ کسی اور صوبے میں نہیں میاں شہباز شریف اپنی بیوروکریسی کے دو بیوروکریٹوں احد چیمہ فواد حسن فواد کو مظلوم قرار دیتے رہے۔ ان کی ہمدردی میں سرکاری ا فسروں کی طرف سے ہڑتال بھی کرائی گئی اور اس سلسلے میں بدنامی بھی مول لی لیکن آج احد چیمہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے بیانوں کی روشنی میں خادم اعلیٰ کو گرفتار ہونا پڑا۔ اب کہا جارہا ہے کہ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کا مقصد 14اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات ہے، اگر اس کو غور سے دیکھا جائے تو اس قسم کی بات میں شاید کوئی حقیقت سامنے نہیں آتی یہ کوئی سیاسی بیان تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت نہیں جبکہ نیب کی یہی کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف الزامات کے ٹھوس ثبوت ہیں تاہم میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پنجاب کے سیاسی حالات پر کوئی زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے، البتہ ان کی جماعت کے کارکن ضرور مایوس ہوئے ہیں جب کوئی شخص کسی کیس میں گرفتار ہوجاتا ہے تو اس کے بارے میں دو رائے ضرور سامنے آتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ بےگناہ ہے اور کسی کی رائے ہوتی ہے کہ نہیں اس شخص نے ضرور کوئی واردات کی ہے جس کی وجہ سے اسے گرفتار کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ان میں سے کون سی رائے صحیح اور کون سی غلط ثابت ہوتی ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا جب عدالت اپنا فیصلہ سناتے ہوئے برملا یہ کہے گی کہ میاں شہباز شریف بادی لنظر میں بےگناہ پائے جاتے ہیں یا انہیں بری کیا جاتا ہے۔ بہرحال شہباز شریف کی گرفتاری سے پورے ملک کی سیاسی فضا کشیدہ ہوگئی ہے ۔ ادھر پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے قبضہ مافیا کے خلاف تحریک چلا کر خوب نام کمایا۔ 

انہوں نے گزشتہ دو تین ہفتوں میں قبضہ مافیا کے خلاف خوب سوچ بیچار کی، اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ سے میٹنگیں بھی ہوتی رہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے جاری احکامات پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے اللہ کا نام لے کر قبضہ مافیا کے خلاف کمر کستے ہوئے آپریشن کا آغاز کردیا۔ انہیں اس سلسلے میں کامیابی بھی حاصل ہوئی اور پنجاب میں کئی ہزار اراضی قبضہ گروپوں سے واہگزار کرائی لیکن پھر ان کی طرف سے قبضہ گروپوں کے خلاف اچانک یہ گرینڈ آپریشن ختم کردیا گیا یہ کیونکر ہوا یا تو اللہ جانتا ہے یا خود وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ، تاہم اس کے بعد بھی ان کا فرمانا ہے کہ طاقتور قبضہ مافیا کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے اور انہوں نے اس سلسلے میں ہر ضلع میں انسداد تجاوزات سیل بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اگرچہ عثمان بزدار کا قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن ایک صحیح اور اچھا اقدام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسری باتوں کی طرف بھی توجہ دیں وہ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سٹریٹ کرائمز کی طرف توجہ دیں، ان دونوں باتوں کا تعلق براہ راست عوام کے ساتھ جس کے دکھ کی بات وہ ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ پنجاب کی عوام اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سٹریٹ کرائمز سے پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ چور اور ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں دکانداروں نے مہنگائی کا طوفان کھڑا کررکھا ہے۔ 

وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس طرف خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس قسم کے حالات بعض دفعہ حکومت گرانے کے لئے مددگارثابت ہوتے ہیں۔ سابق صدر ایوب خان کے زمانے میں چینی کچھ مہنگائی ہوگئی تھی جس کے بعد عوامی طوفان اٹھا اور یوں یہ عوامی طوفان ایوب خان کو لے بیٹھا۔ یہ عوامی طوفان اس وقت ختم ہوا جب ایوب خان کی حکومت ختم ہوچکی تھی۔

تازہ ترین
تازہ ترین