• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن نے فائرنگ اور اسلحہ نمائش کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ ہمارے ہاں انتخابات کے نتیجے میں بیٹا پیدا نہیں ہوتا لیکن ہوائی فائرنگ شروع ہو جاتی ہے، شاید بے اولاد انتخابی مہم جُو اپنی شکست کو چھپانے یا اپنی شرمندگی پر پردہ ڈالنے کے لئے ایسا کرتے ہیں، انتخابات تو ووٹرز کی صوابدید کے محتاج ہوتے ہیں، یہ اسلحہ کی نمائش تو صرف کیٹ واک ہے، بڑا اچھا کیا کہ الیکشن کمیشن نے فائرنگ اور اسلحہ نمائش کے خلاف ایکشن شروع کر دیا۔ ویسے یہ سیاسی پارٹیاں عسکری پارٹیاں کیوں بنتی جارہی ہیں، یہ تو نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے پر مبنی ہٹ دھرمی ہے سیاست نہیں۔ انتخابات سیاستدانوں کو اپنا منہ دیکھنے کے لئے ایک آئینہ ہوتے ہیں، ممکن ہے شیشہ دیکھنے سے منہ بھی نظر آ جائے اور مسور کی دال بھی۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے سیاستدان اسلحہ کے قدر دان سینہ زوری پر اتر کر کہیں
کہا جو اُس نے اب میں پھروں گا بے پردہ
منہ اُس کا دیکھ کے بس رہ گئے نقاب فروش
الیکشن کمیشن نے حدود و قیود قائم کر دی ہیں ، ان پر اچھے بچوں کی طرح از خود ہی عملدرآمد کیا جائے، مگر یہ نہ ہو کہ
دیوانوں سے شعر نہ چنئے سب کا خلاصہ مجھ سے سنیے
آپ کی صورت سبحان اللہ میری نیت توبہ توبہ
تمام سیاسی پارٹیوں کو اسلحہ ترک کر کے خود کو اپنے حسن کردار و اخلاق سے مسلح کر لینا چاہئے کہ اسی میں ہے ہار جیت کی آبرو!
#####
مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں : نئے اتحاد کا اعلان ایم ایم اے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ مولانا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جمہوریت مذہبی جماعتوں سے خارج نہیں، وہ بھی اس کے دائرہ کار میں آتی ہیں، پھر کیسا شکوہ، کیسا گلہ، مولانا نے یہ کیوں فرض کر لیا ہے کہ ”مولویز اینڈ مولویز اینڈ مور مولویز“ یعنی ایم ایم اے کے وہ بلاشرکت ِ غیرے وارث ہیں۔ وہ سردست اپنے والد محترم کے مشہور زمانہ تاریخی جملے کو اپنا ورثہ بنا لیں تاکہ یوں خالی ہاتھ تو نہ رہیں، جماعت اسلامی ہو یا جمعیت علماء اسلام (ف) اور اس کے علاوہ دیگر ایم ایم کے اجزائے ترکیبی سمیت سبھی کو آکسیجن ملنی چاہئے کیونکہ فخر الدین جی ابراہیم کی قیادت میں آنے کو ہے سلطانی ٴ جمہور کا زمانہ، اب کوئی ہینکی پھینکی نہ ہو گی، ہر کوئی اپنی خدمات کے عوض عوام سے صلہ پائے گا، اور اگر ایم ایم اے کو کوئی سبوتاژ کرتا ہے تو مولانا بہ ایں تن و توش آسانی سے روک سکتے ہیں اور اگر پھر بھی ڈر ہے کہ کہیں کانچ کی چوڑی ٹوٹ نہ جائے تو پھر سبوتاژ کرنے کا عمل تو خود میرکارواں کی طرف سے شروع ہو گا، جماعت اسلامی اس ملک کی بڑی دینی سیاسی تنظیم ہے اور کافی عمر رسیدہ بھی لیکن یہ الاخوان المسلمون پھر بھی نہ بن سکی۔ سیاست میں اس کی شمولیت کا یہ عالم ہے کہ عوام الناس سے کہیں دور اُس کا ٹھکانہ ہے اور لوگ اب بھی اُس سے پیار کرتے ہیں مگر وہ منہ چھپا لیتی ہے
جب کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر
ہنس کے کہنے لگے اور آپ کو آتا کیا ہے
ویسے اگر مذہبی سیاسی جماعتیں برا نہ مانیں تو یہ ابھی تک اقبال کے اس خدشے کا تدارک نہیں کر سکیں
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
#####
ضمنی انتخابات میں اپنے ہی علاقے میں مسلم لیگ قاف کی ناکامی سے اُس کی اتحادی روح مجروح ہو گئی۔ چودھری شجاعت حسین علیہ ماعلیہ اب کیسے کہیں گے کہ ”مٹی پاؤ“، کہیں ایسا تو نہیں کہ چوہدری صاحب نے اتنی مٹی ڈال دی ہے کہ اُن کی سیاست زندہ درگور ہو گئی، زرداری یہ سمجھتے تھے کہ پنجاب کی سرزمین سے ایک تگڑا اتحادی اُن کے ہاتھ لگ گیا ہے مگر اب وہ شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ سپریم کورٹ کی بات مان ہی لینی چاہئے ایوان صدر میں بیٹھ کر سیاست نہیں کرنی چاہئے، ویسے انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں فکر تو چوہدری برادران کریں کہ
ایوانِ صدر کس منہ سے جاؤ گے چوہدریو
شرم تم کو مگر نہیں آتی
نوشتہ دیوار یہ کہہ رہا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی بڑی پارٹی جو کبھی بڑی ہوا کرتی تھی، پیوند کاریوں کے بغیر اپنا چولا تیار نہ کر سکے گی اور بڑی پارٹیوں کی وہ بے نیازیاں نہ رہیں گی جب وہ آزاد امیدوار کو بھی قریب نہیں پھٹکنے دیتی تھیں مگر اب یہ جو موسم آ رہا ہے سیاست کا اُس میں بلا کی دریوزہ گری ہو گی، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بان متی نے کنبہ جوڑا کا سا سماں ہو گا اور بزرجمہرانِ سیاست تسلیم و رضاکے عالم میں گویا ہوں گے
ترے وجود سے منکر جہاں میں تھی، میں ہی
تری نگاہ کی اب تو اسیر ہوں میں بھی
اب تو وہ سیاسی رومانس شروع ہونے کو ہے کہ غزال بھی غزل کہے گی۔
#####
ایک امریکی تحقیق کے مطابق بیوی کے دل کی کنجی اس کی ماں کو خوش رکھنا ہے۔ گویا بیوی کا دل نہ ہوا میکدے کا جندرا ہوا، کہ س میں ماں کی کنجی لگانے سے میکدے کا در کھل جائے گا، پھر ساس، صرف ایک ساس پین اور بیوی مے گلگوں کا شیشہ، بن کر رہ جائے گی۔یہ تحقیق اگر مان بھی لی جائے تو ایسی بیوی کس کام کی جو شوہر سے پیار بھی اپنی ماں کی اجازت سے کرے، ورنہ صلواتیں سنائے۔ شوہروں کی زبوں حالی کی اقسام بہت ہیں اور اس سلسلے میں بڑے بڑے نام بہت ہیں، یہ تحقیق چونکہ امریکہ سے آئی ہے اس لئے اس کی خبر لینا بھی ڈرون حملوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے، پھر بھی ہم اپنے کلچر کے مطابق شوہر نامدار اور شوہر بے نام کا ذکر ، اور ساس اگر آجائے راس تو صرف اُس کا ذکرِ خیر کریں گے، ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ سو گلاں دی اکو ای گل نواب ٹیوب ویل نواب ٹیوب ویل۔ اگر شوہر نواب یا نوابوں جیسا امیر کبیر ہو اور اُس میں راتیں باہر گزارنے سمیت ہزاروں عیب بھی ہوں، بیوی اس کے باوجود اس کے صدقے واری جاتی ہے اور جہاں غربت ہو وہاں جبری خالص پیاربیوی کو شوہر کا اور شوہر کو بیوی کا ٹکے سیر ملتا ہے ۔ اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک غریب ہو تو وہ ممنونِ احسان ہی رہے گا اور غلامِ بے دام ہی رہے گا۔
یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے
مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا
بیوی کی ماں اگر مشرقی ہو تو اس کی قدر بھی بقدر زر ہوتی اگر اس کے پاس ہو تو، وگرنہ روٹھی ہوئی سے ماں کہتی ہے کہ آیا ہے پھر وہ موٴا تمہیں منانے، ہرگز نہ مان جانا، بے چارہ شوہر بے زر بھی کیا کرے ڈر ڈر کے میکے میں ٹکی بیوی کے قریب جاتا ہے اور وہ ٹھکراکے چل دیتی ہے
میں نے کہا جو اُس سے ٹھکرا کے چل نہ ظالم
حیرت میں آ کے ”بولی“ کیا آپ جی رہے ہیں
ہم نے ایک صورت عرض کر دی ہے، اگر معاملہ الٹ ہو تو ہماری تحریر الٹا دیجئے آپ کا معاملہ سیدھا ہو جائے گا۔
#####
تازہ ترین