• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں کرپشن سے کسی کو انکار نہیں جس کی چھان بین کے لئے ماضی میں ایک ادارہ تشکیل دیا گیا مگر اس کی کارکردگی کوئی ایسی خوش کن نہ رہی بلکہ اس کو سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیاراستعمال کیا جاتا رہا نتیجتاً اس ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی۔ موجودہ حکومت جو آئی ہی احتساب کے نعرے پرہے، نے قومی احتساب بیورو ’’نیب‘‘ کو فعال کیا۔ عدلیہ نے بھی اس کی بھرپور معاونت کی۔ کچھ بہتری کے امکانات بھی پیدا ہوئے لیکن نیب ایک بار پھرتنقید کی زد میں آنے لگا اور اس پر انتقامی کارروائیاں کرنے کے الزامات عائد ہونے لگے۔ اپوزیشن کا واویلا اپنی جگہ، خود اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نیب کو انتباہ کیا گیا کہ وہ کسی کو گرفتار کرنے سے قبل مکمل چھان بین کرے اور لوگوں کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔ اس ضمن میں خاص طور پرسابق حکومتی جماعت نے سب سے زیادہ تحفظات کا اظہارکیااور بدھ کےروز اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز پر اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف اسمبلی میں لائے گئے تو انہوں نے برملا کہا کہ ’’نیب اور تحریک ِ انصاف میں ناپاک اتحاد ہے‘‘ اس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ’’اپوزیشن احتساب قانون میں ترمیم لائے، تعاون کریں گے‘‘ یہ ایک احسن عمل ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے تحفظات دورکرنے میں ہرممکن معاونت کی پیشکش کی۔ اس کی تصدیق اسی رات اسپیکر قومی اسمبلی نے جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں یہ کہہ کر کی کہ ’’نیب قوانین میں اصلاحات کے لئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہوگیا ہے۔ آئندہ اجلاس میں ترامیم کے لئے باقاعدہ کمیٹی بنائی جائے گی۔ قانون میں ترمیم لانااسمبلی کا حق ہے۔ لا ڈیپارٹمنٹ نے شاید اس پر کچھ کام بھی کیا ہے۔‘‘ اس حقیقت سے مفرممکن نہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے تاہم اس کی شفافیت بے حد ضروری ہے تاکہ اس سے یہ تاثر نہ پھیلے کہ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کی جارہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو نیب قوانین میں ترامیم کے حوالے سے بہترین کارکردگی کامظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ اس کی ساکھ پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

تازہ ترین