• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی …تنویرزمان خان، لندن
عاصمہ جہانگیر فائونڈیشن کی جانب سے عاصمہ جہانگیر کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ جو کہ لاہور کا ایک تاریخی اور یادگار ایونٹEvent تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں انسانی حقوق پر گفتگو سننے کے لئے لوگوں کا اکٹھے ہونا پاکستان جیسی سوسائٹی میں بہت اچھا شگون ہے۔ جس طریقے اور جوش سے تمام ملک کی اہم شخصیت نے شرکت کی اسے کانفرنس کی نہیں بلکہ ان اہم شخصیات کی عزت افزائی سمجھنی چاہئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی شخصیات بھی شریک تھیں جو عاصمہ کی زندگی میں ریاستی ہدایات پر انہیں اذیت بھی پہنچاتی رہیں۔ لیکن چلیں کسی بہانے ہی سہی یا ان لوگوں کی عملی زندگی کے برعکس ہی سہی آج ملک میں انسانی حقوق کی بحالی کی آواز میں آواز ملانے کے لئے اکٹھے تو ہوئے۔ اس ذہنی پسماندگی میں گرتی سوسائٹی کو درپیش مسائل پر چند سرپھروں کے ساتھ سر جوڑنے کے لئے تیار تو ہیں۔ اس سارے عمل کا کریڈٹ عاصمہ جہانگیر کو جاتا ہے۔ جو اپنی زندگی بھر کی جدوجہد سے کئی ادوار کی حکومتوں کو جھنجھوڑتے رہی۔ آج اس کی وفات کے بعد بھی وہ جدوجہد کا علم بلند ہے۔ عاصمہ کی جدوجہد عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کی جدوجہد کا ایک بڑاریفرنس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے منعقد ہونے والی کانفرنس میں نہ صرف پاکستان کے بڑے بڑے نام جن میں بلاول بھٹو، چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، آئی اے رحمان، فاروق ستار، فاروق طارق اور دیگر بہت سے نامور ناموں کے علاوہ مختلف ممالک کی سفیروں، عالمی سطح پر حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے وفود نے شرکت کی۔ جو کہ ثابت کرتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر پاکستان میں حقوق انسانی کی تحریک اور جدوجہد کا سنگ میل ہے۔ جسے آج پاکستان کی ہر سیاسی جماعت، دانشور صحافی وقت کی اہم ترین ضرورت محسوس کرتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ تو گزشتہ چنددہائیوں میں سوسائٹی کا عدم برادشت میں اضافہ اور تنگ نظر مذہبی ملا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ بحث کا فقدان ہے، لوگ تنگ نظر نقطے پر آہنی موقف لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جہالت پر جنونی سٹینڈ لے لیتے ہیں۔ دہرا معیار ایک قابل فخر وصف بن گیا ہے فہم کی بات کرنے والے کو کافر یا غدار قرار دینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس قسم کی صورتحال میں عاصمہ جہانگیر کی آواز اور جدوجہد کو زندہ رکھنا اور جلا بخشنا لاہوریوں کا بڑا کریڈٹ ہے۔ اس کانفرنس میں جو درجن سے زائد قرار دادیں منظور کی گئیں وہ قرار دادیں ہی دراصل ایک ایسا چارٹر ہے جس پر کم از کم جن جن پارٹیوں کے لیڈر اور نمائندے شریک تھے وہ اسے اپنی سیاست اور سماجی کام کا حصہ بنالیں۔ عدالتیں فیصلے کرتے وقت ان نکات کو مدنظر رکھیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ مہذب سوسائٹی بن سکتے ہیں۔ میں یہاں مختصراً اور طائرانہ نظر سے ان قراردادوں کا ذکر کروں گا۔ کیونکہ تفصیلات بتانا میرا کام نہیں۔ نہ ہی کالم جگہ اس تقاضے کی متحمل ہے۔ قراردادوں میں آزادی اظہار رائے کے لئے نئی قانون سازی کی سفارش، ووٹ گنتی کے وقت ہر پولنگ سٹیشن میں ریکارڈ کیمروں کا استعمال، گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے ناصرف قانون نافذ کئے جائیں بلکہ ان کے زیر سماعت مقدمات بھی جلد نمٹائے جائیں۔ تعلیمی نظام میں سے مذہبی اقلیتوں سے امتیازی تعلیمات کا خاتمہ کیا جائے، کام کی جگہوں پر عورتوں کے حوالے سے جنسی ہراسگی ختم کی جائے۔ ٹرانس جینڈر قوانین کو ان کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے جنوبی ایشیا کے ممالک میں آپس کے آنے جانے میں ویزا فری پالیسی کے نفاذ کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ جنسی برابری کے حوالے سے امتیازی سلوک رکھنے والے قوانین تبدیل کئے جائیں۔ پاکستان میں یو این او کے ادارے سیکورٹی کونسل کے انسانی حقوق کنونشن کے تحت مہاجر لا بنایا جائے ۔ سزائے موت کیونکہ ایک ناقابل تنسیخ سزا ہے۔ اس لئے جب تک قوانین میں سقم برقرار ہیں اس وقت تک سزائے موت کے عملدرآمد پر پابندی لگائی جائے۔ یہ تمام وہ قراردادیں ہیں جو کسی جلسے یا ووٹ مانگنے کا منشور نہیں بلکہ سنجیدہ ایشوز پر حقوق انسانی کے نفاذ کا مسئلہ ہے یہ انسانی حقوق ہی ہیں جو ہمیں جانور سے انسان کے درجے پر لاتے ہیں۔ پاکستان جیسی سوسائٹی میں ان کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ وہاں تاحال کئی معاملات میں عملی طور پر جنگ کا قانون چلتا ہے۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ کمزور کو طاقتور روند ڈالتا ہے، طاقتور کے سامنے کمزور کو گھٹنے ٹیک کے اور سر جھکا کے جینا پڑتا ہے۔ جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہ نہیں ہوسکتا کہ حقوق و فرائض کی بات تو ہو لیکن امیر اور غریب کا فرق قائم اور برقرار رکھا جائے۔ یعنی معاشی ناہمواری کے خاتمے کے بغیر انسانی حقوق کی پاسداری ممکن نہیں تاہم عاصمہ جہانگیر نے جس بحث کا آغاز کیا اور آواز بلند کی وہی آج سوسائٹی کو مہذب سماج کی جانب لے جانے کا راستہ ہے وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ان کی جدوجہد کی تکمیل دولت اور وسائل کی مساوی تقسیم کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ محض اخلاقیات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ قانون، معیشت اور اخلاقیات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین