• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میںتعلیمی شعبے کے انحطاط کا آغاز ستر اور 80 کی دہائیوںمیں اپنائی گئی بعض پالیسیوں سے شروع ہواجبکہ بعد میں آنے والی حکومتوں میں بھی ضروری قوانین و ضوابط وضع کئے بغیر تعلیمی شعبے کو نجی سیکٹر کے حوالے کردیا گیاجس سے نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم منافع بخش کاروبا ر بن گئی۔اب صورتحال یہ ہے کہ نجی اسکولوں کی فیسوں کا معاملہ گمبھیر صورت اختیار کرگیا ہے ۔واضح عدالتی احکامات کے باوجود نجی اسکول انتظامیہ قوانین پر عمل نہیں کررہی۔اس باب میںسندھ کے وزیر تعلیم سردار علی شاہ کی جانب سے قوانین پر عمل نہ کرنے والے اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا انتباہ خوش آئند ہے لیکن یہ اسی صورت کارگر ہوگا جب حکومتی سطح پرصرف بیانات پر اکتفا کی بجائے سنجید ہ اقدامات لئے جائیں۔سندھ اسمبلی میں بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم سے متعلق پیش کردہ قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے یہ بھی کہا کہ نجی تعلیمی ادارےکمرشل بنیادوں پر چل رہے ہیں،یہ فیسوں میں سالانہ پانچ سے دس فیصد اضافہ نہیں کرسکتے۔انہوں نے بتایا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میںزائد فیس کی واپسی کیلئے صوبائی حکومت اسکولوں کو سات سے زائد خط لکھ چکی ہےلیکن نجی انتظامیہ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔دوسری جانب سپریم کورٹ میںاسکول فیس کیس کی سماعت کے دوران سیکر ٹری قانون نے بتایا ہے کہ نجی اسکول آٹھ سے دس فیصد اضافہ چاہتے ہیں۔جس پر عدالت نے کہا کہ یہ عدالتی کمیٹی طے کرے گی کہ فیسوں میں سالانہ کتنا اضافہ کیا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ تعلیمی شعبے کو منافع بخش کاروبار بنانے والے عناصر کے ہاتھوں سے بچانے کیلئے انتظامی سطح پرضروری قوانین و ضوابط وضع کئے جائیں ۔اس ضمن میںاگرچہ سندھ اسمبلی میں مفت تعلیم سے متعلق پیش کی گئی قرارداد ایک اچھا قدم ہے، تاہم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے سرکاری درس گاہوں کی حالت زار بہتر بنانے کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہئے۔جب گورنمنٹ اسکولوں میں جدید و معیاری تعلیم ملے گی تو کیوں والدین بچوں کو نجی اداروں میں داخل کرائیں گے۔

تازہ ترین