• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’احمد ندیم قاسمی‘‘ معروف ادیب، شاعر اور افسانہ نگار

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

اکثر یوم آزادی یا یوم پاکستان پر جو اشتہار ات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں یا ٹی وی پر چلتے ہیں، ان میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے ان اشعار کی گونج سنائی دیتی ہے۔ سالہا سال استعمال ہونے والے یہ سدابہار الفاظ ہر بار ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے صرف ایک ہی لفظ نکلتاہے ، ’’آمین‘‘۔

احمد ندیم قاسمی 20نومبر 1916ء کوسرگودھا کے قریب ایک گاؤں انگہ میں پیدا ہوئے۔ پرائمری کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے، جو آج اٹک کہلاتا ہے۔ انھوں نے میٹرک تک تعلیم اٹک میں ہی حاصل کی۔ اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے چچا کے ہاں مقیم تھے، جو اُن کے سرپرست بھی تھے، جب اُن کا تبادلہ شیخوپورہ ہو گیا تو وہ بھی اُن کے ہمراہ شیخوپورہ چلے گئے۔ اُنہوں نے شیخوپورہ ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لے لیا، جہاں معروف اردو شاعر ’ن م راشد‘ کے والد فضل الٰہی چشتی ہیڈ ماسٹر تھے۔

جنوری 1931ء میں تحریک آزادی کے نامور رہنما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح قاسمی صاحب کے شعری سفر کا آغاز ہوا۔ اُسی دور میں اُنہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے۔ اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اُس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ قائم کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔ مرحوم قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد اُن کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔ منٹو ہی کی دعوت پر وہ نئی دہلی گئے، جہاں ممبئی سے منٹو صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ دونوں نے وہاں اکٹھے نو دَس روز گزارے اور یوں اردو زبان کے ان دو نامور افسانہ نگاروں کے درمیان دوستی کا ایک ایسا تعلق استوار ہوا، جو منٹو کے انتقال تک قائم رہا۔

بقول ابراہم افسر ،’’ علامہ اقبالؔ اور فیض احمد فیضؔ کے بعد برِ ّصغیر ہند و پاک میں اگر کسی بڑے شاعر، ادیب، صحافی، افسانہ نگار، خاکہ نگاراورکالم نویس کا نام معلوم کیا جائے تو یقیناًلوگوں کی زبان پر بے ساختہ احمد ندیمؔ قاسمی کا نام آئے گا۔ اُردو کے اِس عظیم شاعر ادیب،افسانہ نگار، صحافی اور نقادپر لا تعداد مضامین و کتب تحریر کی جاچکی ہیں۔ کتنی ہی یونیورسٹیوںمیں اِن کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات سپردِ قلم ہو چکے ہیں۔ ان کی غزلوں، نظموں اور افسانوں کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے کورس میں شامل کرکے طلبا کو پڑھایا جاتاہے۔ ساتھ ہی اِن کے فن پارے ہندی، روسی، جاپانی، چینی اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ ہو کر دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ کئی اخبارات و رسائل میں اِن کی ادبی جہات پر خصوصی گوشے نکل چکے ہیں۔ احمد ندیم ؔقاسمی بر صغیر کے واحد ادیب و قلم کار ہیں جو بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، خاکہ نگار، بچوں کے ادیب، مدیر، نقاد، صحافی اور کالم نگار تھے‘‘۔

قاسمی صاحب کا پہلا افسانوی مجموعہ’’چوپال‘‘1939ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد1941ء میں ’’بگولے‘‘، 1942ء میں ’’طلوع و غروب‘‘، 1943ء میں ’’گرداب‘‘، 1944ء میں ’’سیلاب‘‘، 1945ء میں ’’آنچل‘‘، 1946ء میں ’’آبلے‘‘، 1948ء میں ’’آس پاس‘‘، 1949ء میں ’’درو دیوار‘‘، 1952ء میں ’’سنّاٹا‘‘، 1955ء میں ’’بازارِ حیات‘‘، 1959ء میں ’’برگِ حنا‘‘، 1961ء میں سیلاب و گرداب‘‘، 1963ء میں ’’ گھر سے گھر تک‘‘1973ء میں ’’ کپاس کا پھول‘‘، 1980ء میں ’’نیلا پتھر‘‘، 1995ء میں ’’کوہ و پیما‘‘، 2007ء میں ’’پت جھڑ‘‘ (افسانے اور ناولٹ) نے شائع ہو کر قبولِ عام کی نئی منازل طے کیں۔

احمد ندیمؔ قاسمی کی پچاس سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں شاعری کے11مجموعے ( ایک حمدیہ و نعتیہ مجموعے سمیت) اور افسانوں کے17مجموعے شامل ہیں۔ ان کا ایک ناولٹ بھی ہے جبکہ2کالموں کے مجموعے،2شخصی خاکوں کے مجموعے اور تنقید کی5کتب شائع ہوئیں۔ انھوں نے بچوں کے لئے3کتابیں اور کلیات کی3کتابیں لکھیں جبکہ7کتابوں کی ترتیب و تدوین کی۔ اس کے علاوہ بچوں کی نظمیں، پنجابی مجموعۂ نظم و نثر، تنقیدی و تجزیاتی مضامین، مختلف کالموں اور خطوط پر مشتمل کتابیں زیرِ طبع ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کا درج ذیل شعر ان کی عظمت کی دلیل ہے کہ ایسی عظیم شخصیات واقعی تاریخ میں امر ہوجاتی ہیں اوران کی تخلیقات سیلِ رواں جیسے راستہ بناتی رہتی ہیں۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں، سمندر میں اُتر جاؤں گا 

تازہ ترین