دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی برداشت اور رواداری کا عالمی دن اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال16 نومبر کو اس مقصد کے تحت منایا جاتا ہے کہ لوگوں کو صبروتحمل اوربرداشت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے اور عدم برداشت کے نتیجے میں معاشرے پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کا تدارک کیا جاسکے،برداشت اور رواداری کے عالمی دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کو دوسروں کے عقائد اور رائے کا احترام کرنا سکھایا جائے۔پاکستانی معاشرے میں صبرو تحمل ، برداشت، رواداری کا فروغ میرا ایسا دیرینہ خواب ہے جسکی تکمیل کیلئے میں ماضی میں مختلف اقدامات اٹھاتا رہا ہوں، عالمی یوم برداشت کے موقع پر میرا آج کا کالم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جائے۔ انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے توبیشتر خونریزی اور تنازعات کے پس پردہ عوامل کی بڑی وجہ عدم برداشت کا رویہ ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہم اپنے مخالف کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے تو ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جسکے نتائج دونوں فریقوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کی بنیادی وجہ ہٹلر کی زیرقیادت نازی جرمنی کی عدم برداشت پر مبنی حکومتی پالیسیاں کو سمجھا جاتا ہے جسکی بناء پر لاکھوں انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اسکے عالمی منشور میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پُرامن معاشرے کے قیام کیلئے انسانوں کے بنیادی حقوق بشمول مذہب، عقائد، حق رائے دہی، زبان،ثقافت کا باہمی احترام یقینی بنانا ناگزیر ہے، آج سے کوئی بائیس برس قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے تمام ممبر ممالک کو دعوت دی گئی کہ وہ 16نومبر کو حکومتی اداروں، تعلیمی اداروں ، سول سوسائٹی اور میڈیا کے تعاون سے سالانہ عالمی یوم برداشت منائیں اور لوگوں میں اس امرکا شعور اجاگر کریں کہ ایک پر امن اور خوبصورت معاشرے کا انحصار دوسروں کے عقائد اور حقوق کے احترام سے مشروط ہے، یہ عالمی دن پہلی مرتبہ 2005ء میں منایا گیا۔میری نظر میں برداشت کی بہترین تعریف اختلاف رائے کا احترام کرنا ہے۔ عراق پر امریکی حملہ ہو یا شام کا موجودہ بحران ، عالمی سطح پر عدم برداشت کی عکاسی کرتا ہے جسکا نشانہ معصوم عوام کو بننا پڑتا ہے، تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر عرصہ طویل سے حل طلب ہے جسکی وجہ غاصب طاقت کا عوام کے حق رائے دہی کو برداشت نہ کرنا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں مشال خان قتل ، مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملے اور خون خرابہ کے پے در پے بے شمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے پنپتے ہوئے عدم برداشت کے رویوں کی عکاسی کرتے ہیں، آج کے ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا کسی بھی معاشرے کی ترقی و تنزلی کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا اپنے مخالفین کے خلاف گالم گلوچ کیلئے استعمال کیا جارہا ہے، اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والوں پر ایسے ذاتی نوعیت کے حملے کیے جاتے ہیں کہ لوگوں کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے، عام آدمی کے دل و دماغ میں ایسا انجانا خوف بھردیا جاتا ہے کہ وہ عدم برداشت کی علمبردارمٹھی بھر قوتوں کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے تمام مذاہب نے اپنے ما ننے والوں کو برداشت اور رواداری کا درس دیا ہے، ہندو دھرم میں برداشت کی قوت کو دنیا کی سب سے مضبوط شکتی سمجھا جاتا ہے، ہندو نظریہ برداشت چار ستونوں پر قائم ہے، نمبر ایک انسان کو زندگی احسن انداز میں گزارنے کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے،نمبردو اچھے انداز میں زندگی گزارنے کیلئے اعلیٰ اخلاقی اقدار پر عمل کرنا ضروری ہے،نمبرتین انسان خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور اسے اپنی نجات کی فکرکرنی چاہیے ،نمبر چارخدا کی طاقت لامحدود ہے اور کبھی بھی مکمل طور پر انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔اسی طرح قرآن پاک میں جابجاصبروتحمل، برداشت اور رواداری جیسے اعلیٰ انسانی اوصاف اپنانے کی تلقین کی گئی ہے کہ بے شک اللہ صبر کرنے والے کے ساتھ ہے۔ مقدس بائبل کے مطابق برداشت خدا کے وقت، کامل قدرت اور محبت پر ہمارے ایمان کی عکاس ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ برداشت اور صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے سے انسان میں ایسی ناقابل شکست طاقت پیدا ہوتی ہے جس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ مجھے روزانہ کی بنیادوں پر اپنے سیاسی مخالفین کا سامنا مختلف ٹی وی ٹاک شوز پر کرنا پڑتا ہے، اپنی سولہ سالہ پارلیمانی جدوجہد میں بے شمار مرتبہ میری ذات کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن میں نے ہمیشہ اپنے مخالفین کو قابلِ احترام سمجھتے ہوئے انکی تلخ باتوں کو خندہ پیشانی اور دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کیا، میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایک انسان کا دوسرے انسان سے اختلاف ہونا ایک فطری بات ہے لیکن اس اختلاف کو ادب و تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے، یہ سب میری قوت برداشت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے کے باوجودمیرے معاشرے کے تمام مکاتب فکر سے خوشگوار تعلقات قائم ہیں۔دوسری طرف عدم برداشت کا مظاہرہ ایک ایسا منفی طرز زندگی ہے جس پر عمل کرنے والا دن بدن سوچنے سمجھے کی صلاحیت سے عاری ہوکر اچھے برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے، ایسے انسان کی نظر میں صرف وہی درست ہوتا ہے جو اسکے صحیح یا غلط موقف کی حمایت کرتا ہے اور مخالفت کرنے والے کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، عدم برداشت سے انسانی رویوں میں ایک ایسی ہیجان انگیزی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ جب کبھی کوئی واقعہ اسکے موقف کے برخلاف رونما ہوتا ہے تووہ مرنے مارنے پر تُل جاتا ہے۔اسکی تازہ مثال آسیہ بی بی کیس کے حوالے سے معزز اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے ردعمل کے طور پر معاشرے میں جلاؤ گھیراؤ کی صورت میں دیکھنے کو ملی، میڈیا کے توسط سے عالمی برادری کو نہایت منفی پیغام دیا گیا کہ پاکستانی معاشرہ قانون کے احترام اور برداشت پر یقین نہیں رکھتا، پاکستانی میڈیا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ قومی مفاد مقدم رکھتے ہوئے ایسے افسوسناک واقعات کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرے تاکہ لوگوں کا مزید اشتعال انگیزی کی طرف نہ دھکیلا جائے، لوگوں کو بتلایا جائے کہ اپنے موقف کا اظہار قانون کو ہاتھ میں لیے بغیر صبر و تحمل کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں برداشت اور اخلاقیات جیسے مضامین کو ہمیں اپنے بچوں کے نصابِ تعلیم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچپن سے ہی برداشت کی تعلیم عام کی جائے، نئی نسل کو سمجھایا جائے کہ صبروتحمل، برداشت، درگزر اور رواداری جیسے اعلیٰ اوصاف ایک متوازن زندگی گزارنے کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں، دنیا کے تمام کامیاب لوگوں کی شخصیت کا مشترکہ پہلو انکا ضبط اور برداشت پر مبنی رویہ ہے۔ میں نے پاکستانی معاشرے میں برداشت و رواداری کو فروغ دینے کیلئے ٹولرینٹ پاکستان میڈیا نیٹ ورک کے پلیٹ فارم سے ایک جدوجہد شروع کررکھی ہے جسکا مقصد میڈیا نمائندگان اور تعلیمی اداروں کے اشتراک سے نئی نسل کو سیدھی راہ دکھلانا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اسکا دائرہ کار ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بڑھاتے ہوئے خصوصی لیکچرز دیئے جانے چاہیے ۔بطور ایک محب وطن پاکستانی پارلیمنٹرین برداشت کے عالمی دن کے موقع پر میرا یہی پیغام ہے کہ ہم اپنے سیاسی، مذہبی و دیگر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، آج ہمیں ملک و قوم کی ترقی و سربلندی کی خاطر ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملاکرآگے بڑھنے کی شدید ضرورت ہے۔ آئیں، آج ہم سب ملکر عہد کریں کہ ہم برداشت اورصبرو تحمل کا دامن ہر حال میں تھامے رکھیں گے، مجھے یقین ہے کہ بحیثیت قوم اگر ہم قوت برداشت کو اپنالیتے ہیں توخدا کی رحمت سے ہم زندگی کی ہر آزمائش میں کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)