ربیع الاول کے مبارک مہینے کی بارہ تاریخ کو آج میرا یہ کالم دنیا کی اس عظیم ترین ہستی کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی ایک ادنیٰ کاوش ہے جو تمام جہانوں کیلئے سراپارحمت ، شفقت اور ہمدردتھے، جنہیں خود خدا نے رحمت العالمین کے نام سے پکارا،پیغمبر اسلام ﷺ کی پوری زندگی آزمائشوں سے بھرپور تھی لیکن وہ رہتی انسانیت کیلئے ایسی روشن تعلیمات دے گئے کہ انکے ماننے والے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے انسان ہیں۔صدیوں سے ڈاکٹر بدھ ویر دہلوی، سوامی برج نارائین سنیاسی، بابو جگل کشور کھنہ، سوامی لکشمن رائے ، کملا دیوی سمیت ہندو دھرم کے ماننے والے سمجھدار لوگ آپ کیلئے تعریفانہ کلمات ادا کرتے آرہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے اپنے عمل، کردار اور گفتار سے ثابت کیا کہ دنیا کے سب انسان برابر ہیں، اگر خدا کے ہاں کسی کو برتری حاصل ہے تو وہ فقط اسکے اچھے اعمال کی بدولت ہے۔ آپ کو اپنے آبائی وطن مکہ میں دعوت حق دینے کی پاداش میں ساتھیوں سمیت مختلف مصائب کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب مکہ انکے سامنے سرنگوں ہوگیا تو آپ نے سب کیلئے عام معافی کا اعلان کرکے دل جیت لئے،طائف کے نافرمان لوگوں نے جب ان پر پتھر برسانے کی جسارت کی تو فرشتے نے عرض کی کہ آپ دعا کریں تو ان پر تباہی نازل ہوجائے لیکن اللہ کے محبوب نے انکے حق میں دعائے خیر کی ۔ ایک بوڑھی عورت اپنی ناسمجھی کی بناء پر ان پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی لیکن جب وہ بیمار ہوئی تو انہوں نے اسکی عیادت کرکے اعلیٰ اخلاق کی روشن مثال قائم کردی، جنگ بدر کے نتیجے میں قید ہونے والے دشمنوں کے بارے میں حکم دیا کہ وہ مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیکر آزادی حاصل کرسکتے ہیں، انہوں نے چرند پرند تک کو تکلیف پہنچانے سے منع کیا۔ مدینہ جو کبھی بیماریوں اور مصیبتوں کے گڑھ یثرب کے نام سے پہچانا جاتا تھا ، پیغمبر اسلام کی تشریف آوری کے بعد مدینہ کہلانے لگا۔ شیطان انسان کو انتقام کیلئے اُکساتا ہے لیکن آپ نے غصہ پینے اور درگزر کرنے کی تعلیمات دیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایک اچھے انسان کیلئے لازم ہے کہ اسکی زبان اور ہاتھ سے دوسرا انسان محفوظ ہو۔، انہوں نے ہمیشہ مظلوم، بے بس ، بے کس اور سماجی طور پر کمزور طبقات کی مدد کرنے پر زور دیا، آپ کی تعلیمات کا محور دکھی انسانیت کو راہ نجات دکھانا تھا، بطور رحمت العالمین آپ نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی بھلائی اور امن و سلامتی کا درس عام کرنے میں گزاری۔ پیغمبر اسلام نے آخری حج کے خطبے میںجو درس دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے، آپ نے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی برتری حاصل نہیں ، تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔آپ نے واضح کردیا کہ خدا کے سامنے برتری صرف اچھے اعمال کرنے والے ہی کو حاصل ہے۔ انہوں نے مختلف سماجی برائیوں سے خبردار کیا کہ تمام لوگوں کو ایک دن خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، ہرکوئی اپنے کرتوت کا خود ذمہ دار ہے۔آپ نے اپنے خطبہ میں معاشی استحصال کا راستہ روکنے کیلئے سود کو حرام قرار دیا۔ آپ کی مدینہ آمد کے وقت وہاں مختلف قبائل اور مذاہب کے پیروکار بستے تھے، پیغمبر اسلام نے تمام مقامی افراد کے مابین ہم آہنگی کے فروغ کیلئے میثاقِ مدینہ کے نام سے معاہدہ امن کیا، یہ انسانی تاریخ کا ایسا بے مثال معاہدہ ہے جسکا تذکرہ میں گزشتہ ایک عرصے سے مختلف پلیٹ فارم پر کرتا آرہا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ آج بھی نافذ العمل ہوسکتا ہے، اس معاہدے کے تحت اسلامی ریاست میں بسنے والے غیرمسلموں کو یکساں شہری حقوق کی فراہمی یقینی بنائی گئی تھی، بیرونی حملے کی صورت میں تمام شہریوں کو مشترکہ دفاع کیلئے پابند کیا گیا، غیر مسلموں کے مذہبی عقیدے کا احترام کرتے ہوئے انہیں اپنے عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی فراہم کی گئی۔تاریخ میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے بعدہمارا پیارا وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جسکا قیام اسلام کے نام پر عمل میں لایا گیا، بانی پاکستان قائداعظم نے اپنی تقاریر میں واضح کردیا تھا کہ انکی نظر میں حصولِ پاکستان کا مقصد اسلام کی تجربہ گاہ بنانا ہے اوربرصغیر کے مسلمانوں نے برداشت، رواداری اور درگذر کا درس 14 سو برس قبل پیغمبر اسلام سے حاصل کیاہے۔ یہی وجہ تھی کہ قائداعظم کی زیرقیادت تحریک پاکستان کے عظیم راہنماؤں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو شہری جوگندرناتھ منڈل بھی شامل تھے جو قائداعظم کی آخری سانسوں تک انکے شانہ بشانہ پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے سرگرم رہے۔وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ مسلمان اکثریتی ملک میں مسلمانوں کا حکومت کرنا ایک جمہوری حق ہے لیکن وہ مطمئن تھے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی اعلیٰ تعلیمات پر عمل پیرا پاکستان میثاق مدینہ کی پیروی کرتے ہوئے غیرمسلم شہریوں کو قومی ترقی کیلئے یکساں مواقع فراہم کرے گا۔ آج قیام پاکستان کو ستر سال گزر جانے کے باوجود افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں گھیراؤ جلاؤ کی سیاست کی جارہی ہے، پیغمبر اسلام نے مسافروں کے راستے سے رکاوٹیں دور کرنے کا حکم دیا لیکن یہاں سڑکیں بند کی جارہی ہیں، پیغمبر اسلام نے تلقین کی کہ جنگ کے موقع پر بھی عورتوں اور بچوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے لیکن یہاں احتجاج کے نام پر کسی کو نہیں بخشا جارہا،آپ نے دھوکا دہی، ذخیرہ اندوزی اور سودی نظام سے منع کیا لیکن ملک چور بازاری، کرپشن اور فراڈ کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے، اسلامی مملکت میں غیرمسلموں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن پاکستان میں کمزور غیرمسلم اقلیتوں کو مختلف مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام ایک اسلامی مملکت کا خاصا ہوا کرتا ہے ، افسوس جب ہمارے درمیان موجود کچھ عناصر عدلیہ کے فیصلوں کو جواز بناتے ہوئے شرپسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ میں بارہ ربیع الاول کے مبارک دن کے موقع پر آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ پیغمبر اسلام کے احکامات کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے شدت پسندی کو رد کردیا جائے اورہم سب پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کیلئے برداشت، رواداری اور تحمل پر مبنی معا شر ے کا قیام یقینی بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ آج بارہ ربیع الاول منانے کا بہترین طریقہ میری نظر میںیہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے احکامات کو اپنی زندگی میں نافذکرنے کیلئے حیاتِ مبارکہ ﷺ کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے۔ بارہ ربیع الاول کا دن تقاضا کرتا ہے کہ رحمت العالمین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات بنایا جائے،جو لوگ اپنی ناسمجھی کی بناء پر ناپسندیدہ حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں، ان کیلئے دعا کی جائے کہ اللہ انہیں ہدایت دے ، پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کو پاکستانی سمجھا جائے۔آج پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جو پاکستان کو مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کرتی ہے، میں وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب سے بطور خاص گزارش کرتا ہوں کہ وہ عوام سے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے میثاقِ مدینہ اور آخری حج کے خطبے کو اپنی ریاستی پالیسی کا محور بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ خدا کی رحمت پاک سرزمین پر صرف اسی صورت برس سکتی ہے جب پاکستان کے باسی دل و جان سے خدا کے احکامات کو مانتے ہوئے پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں۔میں اپنے کالم کا اختتام پیغمبر اسلام کی خدمت میںنہایت ادب و احترام سے ایک ہندو شاعرکے اشعار پڑھ کر کرنا چاہتا ہوں۔ میرے سینے کی دھڑکن ہیں، میری آنکھوں کے تارے ہیں،سہارا بے سہاروں کا،خدا کے وہ دلارے ہیں، سمجھ کر تم فقط اپنا انہیں تقسیم نہ کرنا،نبی جتنے تمھارے ہیں ،نبی اتنے ہمارے ہیں،سبق تم نے محبت کا ہرایک انسان کو سکھلایا،مقدس راستہ دے کر دین دنیا میں پھیلایا،تم ہی ساگر تم ہی دریا،تم ہی کشتی تم ہی ملاح،رسول اللہ رسول اللہ رسول اللہ رسول اللہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)