• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظیم ناول نگار بانو قدسیہ کی زندگی پر ایک نظر

آج کل فیس بک پر بانو قدسیہ کے کلپ شیئر ہورہے ہیں، جن میں وہ والدین کو بچوں کی پرورش کے حوالے سے مشورے دیتی نظر آتی ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر چلنے والے بے شمار انٹرویوز میں ان کازور گھر سے شروع ہونے والی بچوں کی تربیت اور مذہب کی پیروی پر ہوتا تھا۔ ان کے نزدیک بہترین تعلیم و تربیت نہ صرف ان کو دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دیتی ہے بلکہ ایک مطمئن اور مسرور زندگی کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ لیکن اس کا انحصار بھی والدین کی تربیت پر ہوتاہے، جو اپنی ثقافت کے پروردہ ہوں، اپنی مٹی سے جڑے ہوں اور دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلتے ہوں۔

حالات زندگی

اردو اور پنجابی زبان کی مشہور و معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ28نومبر، 1928ء کو فیروزپور میں زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد چوہدری بدرالزماں چٹھہ زراعت میں بیچلر کی ڈگری رکھتے تھے۔ جب بانو قدسیہ محض ساڑھے تین برس کی تھیں تو اُن کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آ گئیں۔ لاہور آنے سے پہلے وہ مشرقی بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش کے شہر دھرم شالا میں زیر تعلیم رہیں۔ اُن کی والدہ مسز چٹھہ (Chattha) بھی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ بانو قدسیہ نے مشہور ناول و افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے شادی کی۔ وہ اپنے کالج کے میگزین اور دوسرے رسائل کے لیے بھی لکھتی رہیں۔ انہوں نے کنیئرڈ کالج لاہور برائے خواتین سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کیا۔ بعد ازاں انہوں نے 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔

خدمات و اعزازات

بانو قدسیہ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہت سے ڈرامے لکھے۔ اُن کا سب سے مشہور ناول راجہ گدھ ہے۔ اُن کے ایک ڈرامے آدھی بات کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب قابلِ ذکر ہیں۔ ٹی وی ڈراموں پر انہوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔1983ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے بانو قدسیہ کو ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ 2010ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا جبکہ 2012ء میں کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2016ء میں اُنہیں اعزازِ حیات (Lifetime Achievement Award) سے نوازا گیا۔

بانو قدسیہ نے ناول کو سادہ اور جدید وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے انگریزی زبان کے الفاظ کی اردو میں آمیزش بھی کی، جو آج کا رواج ہے۔ ان کے ناول میں انگریزی الفاظ کا بکثرت استعمال ملتا ہے، جو تعلیم یافتہ اور اعلیٰ طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے حقیقت کا رنگ بھرنے اور کہانی میں ماحول کی آبیاری کے لئے انتہائی ضروری تصور کی جاتی ہے۔

بانو قدسیہ کے اقوال و خیالات لکھنے کے حوالے سے بانو قدسیہ صاحبہ کہتی تھیں، ” میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ کیا کسی پھول کو معلوم ہوا ہے کہ وہ کھلتا کیوں ہے؟ کسی پھل کو پتہ چلا ہے کہ وہ کیوں پکتا ہے؟ اور کیوں اس میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے؟ تخلیقی کاموں کا جس بندے کو علم ہو گیا کہ وہ کیوں لکھتا ہے تو میرے خیال میں وہ مشقت سے لکھتا ہے اور اس کا نام ہسٹری میں آ نہیں سکتا۔ کہانی وارد ہو جاتی ہے۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسے آتی ہے۔ وہ چلتے چلتے وارد ہو جاتی ہے۔ وہ خود ہی پکڑی جاتی ہے۔ خود ہی ذہن اسے پکڑ لیتا ہے اور خود ہی اس پر کام کرنے لگ جاتا ہے۔ جس طرح غزل نازل ہوتی ہے، آمد سے بھی زیادہ، میں کہتی ہوں نازل ہوتی ہے، تو پتہ تو نہیں ہوتا کہ کیسے شعر اتریں گے اور کیسے بن جائیں گے۔ بن جاتی ہے تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پوری غزل ہی ہو گئی‘‘۔

مایوسی کے بارے میں بانو قدسیہ کہتی ہیں،’’حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے۔ وہ بھی جنت سے نکالے گئے۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ یہی تو ساری بات ہے۔ ابلیس نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا۔ نا امید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغوا ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے‘‘۔

(سامان وجود سے اقتباس)

تازہ ترین