• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’وارن بفیٹ‘‘ کی زندگی بدلنے والی 2 کتابیں

وارن بفیٹ غالباً امریکی تاریخ کے کامیاب ترین سرمایہ کار ہیں۔ وہ اپنی کامیابی کا سہرا"One Thousand Ways To Make $1,000"کو دیتےہیں۔ 1936ء میں شائع کی گئی یہ کتاب انھیں لائبریری میں اس وقت پڑھنے کو ملی، جب وہ صرف 7برس کے تھے۔ اس کتاب سے انھیں کیریئر شروع کرنے کی حوصلہ افزائی ملی۔

وارن بفیٹ کے مطابق، یہ کتاب انھیں سب سے عزیز ہے۔آج سے 30برس قبل، فارچون میں جب وارن بفیٹ کا پروفائل چھپا تو اس میں بتایا گیا کہ انھیں یہ کتاب تقریباً حفظ ہے۔ اس کتاب کے مصنف F.C. Minakerہیں۔ ماہرین نے وارن بفیٹ کی یہ پسندیدہ کتاب پڑھنے کے بعد،زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اس کتاب سے کچھ سبق حاصل کیے ہیں، آئیے جانتے ہیں کہ وہ کیا سبق ہیں، جو آج کی نئی نسل کیلئے کامیابی حاصل کرنے کیلئے رہنما اصول بن سکتے ہیں۔

آج کریں، کل نہیں

یہ کتاب ایسے لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جو پیسے کمانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کتاب چونکہ سن30کی دہائی کی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد تھی، جو اپنی صلاحیتوں اور ہنر کے بل بوتے پر بآسانی1,000ڈالر کما رہے تھے۔ایک کامیاب شخص کی کہانی کے بعد، دوسرے اور دوسرے کامیاب شخص کی کہانی کے بعد تیسرے شخص کی کہانی (کتاب میں ایسی کامیاب کہانیوں کی ایک طویل فہرست ہے) پڑھنے والے پر اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ ایک شخص جس نے Hires Root Beerکمپنی کی بنیاد رکھی، J.C.Pennyکی کہانی، نیویارک کی اس بیوہ کی کہانی جس نے اپنے آخری 38ڈالرسے ملین ڈالر کا ’کافی ایمپائر‘ کھڑا کیا، پھر اس شخص کی کہانی جس نے سڑک کنارے ٹائر مرمت سے کام کا آغاز کیا وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب سے متاثر ہونے کے علاوہ، بفیٹ نے دوسری بات یہ سیکھی کہ کم عمری میں سرمایہ کاری کا فائدہ یہ ہوگا کہ سرمایہ کاری پر منافع بڑھتا رہے گا۔

وہ کریں جو آپ جانتے ہیں

وارن بفیٹ نے اس کتاب سے یہ بھی سیکھا کہ آپ کو اسی کاروبار میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، جسے آپ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اس کتاب میں جن کامیاب اشخاص کی مثالیں دی گئی ہیں، ان میں سے تقریباً سبھی نے اسی کاروبار کا انتخاب کیا، جس کے بارے میں وہ کچھ نہ کچھ جانتے تھے۔ یہ اس سوچ کے برخلاف ہے کہ آپ کو مارکیٹ میں ایک چیز کی کمی نظر آتی ہے اور آپ وہ ’پراڈکٹ‘ یا ’سروس‘ شروع کرنے میں اپنی صلاحیتیں، توانائی، وقت اور پیسہ خرچ کرنے لگتے ہیں، حالانکہ آپ اس کاروبار کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ سادہ الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر انٹرپرینیور اپنا گاہک خود ہی ہوتا ہے۔ کئی لوگ اپنے بیک یارڈ میں شروع کیے گئے اپنے مشغلوں کو ملین ڈالر کاروباری اداروں میں بدل دیتے ہیں۔

ابھی سے بہتر کوئی وقت نہیں

1936ء میں یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب امریکی اور بین الاقوامی معیشت شدید کساد بازاری کا شکار تھی۔ اس وقت امریکا میں بے روزگاری کی شرح 20فیصد کی انتہائی بلندی پر تھی۔ تاہم اس وقت لوگوں نے معاشی کساد بازاری کو وجہ بناکر کچھ نہ کرنے کے بجائے، اسی کو موقع جانتے ہوئے کچھ کرنے کی ٹھانی اور کامیابی حاصل کی یعنی ’ابھی شروع کریں، کوئی بہانہ نہ تراشیں‘۔

معمولی لوگ غیر معمولی بن سکتے ہیں

کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جن لوگوں کی مثالیں دی گئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی پیسے والا نہیں تھا۔ کتاب میںکوئی ایسا نہیں ہے، جو ہارورڈ یا ییل سے پڑھ کر نکلا ہو۔ تمام کے تمام عام افراد ہیں، جو عظیم کساد بازاری کے دور میں اپنے لیے روزی روٹی کمانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ان افراد کے برعکس اس کتاب کو پڑھنے والا وارن بفیٹ کوئی غریب بچہ نہیں تھا۔ دراصل، یہ کتاب پڑھنے کے 2سال بعد ان کے والد کانگریس کے رکن منتخب ہوگئے اور وہ واشنگٹن منتقل ہوگئے۔

ہر نسل یہی سوچتی ہے کہ ان کے لیے مشکلات زیادہ ہیں

ہرچندکہ 30ء کی دہائی معاشی اعتبار سے واقعتاً انتہائی مشکل تھی، لیکن ہر نسل کے نوجوانوں کو اپنا دور پہلے سے زیادہ کٹھن نظر آتا ہے۔اگر اس بات کو سچ مان بھی لیا جائے تو یہ حقیقت اپنی جگہ پھر بھی برقرار رہے گی کہ 30ء جیسی معاشی کساد بازاری دنیا نے دوبارہ نہیں دیکھی۔ اس لیے اگر اس عظیم کساد بازاری میں لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں تو آج کے دور میں آپ کیوں نہیں ہوسکتے؟ خود سے ایک بار یہ سوال ضرور پوچھیں۔

وارن بفیٹ کی دوسری پسندیدہ کتاب

وارن بفیٹ کو 19سال کی عمر میں بینجمن گراہم کی تحریر کردہ کتاب "The Intelligent Investor" پڑھنے کا موقع ملا۔ بعد میں بینجمن گراہم، وارن بفیٹ کے ہیرو اور مینٹور بھی بنے۔ وارن بفیٹ کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ کتاب تقریباً 6مرتبہ بار بار پڑھی ہے۔ بفیٹ کہتے ہیں کہ وہ آج تک سرمایہ کاری کے لیے اس کتاب میں بتائی گئی انویسٹ منٹ ’فلاسفی ‘ اور ’اسٹریٹجی‘ پر عمل پیرا ہیں۔

کتاب کے مصنف بینجمن گراہم اس وقت ’گورنمنٹ ایمپلائیز انشورنس کمپنی‘ (GEICO)کے چیئرمین تھے۔ بفیٹ نے پتہ لگایا کہ اس کمپنی کا ہیڈکوارٹر نیویارک میں تھا اور بینجمن گراہم کا دفتر بھی وہیں تھا۔ وارن بفیٹ نے وقت ضائع کیے بغیر، ٹرین پکڑی اور نیویارک روانہ ہوگئے۔ وارن بفیٹ کہتے ہیں، ’’جس ہفتے کی صبح میں نیویارک پہنچا، وہ ہفتہ وار تعطیل کا دن تھا۔ اس کے باوجود میں نے کمپنی کے دروازے کو جا کھٹکھٹایا۔ کافی دیر کے بعد چوکیدار نمودار ہوا اور اس نے مجھے اندر آنے دیا‘‘۔ بفیٹ بتاتے ہیں کہ چوکیدار نے انھیں، اس وقت ہیڈا کوارٹر بلڈنگ میں موجود واحد شخص Lorimer Davidsonسے ملوایا۔ ’کوئی وجہ نہیں تھی کہ ڈیوڈ سن مجھ سے ملاقات کرتا، تاہم جب میں نے انھیں بتایا کہ میں، گراہم کا شاگرد ہوں تو وہ مجھ سے ملنے پر راضی ہوئے‘۔

وارن بفیٹ کا کہنا ہے،’’ڈیوڈسن کے ساتھ میری ملاقات اگلے چار گھنٹے کے لگ بھگ جاری رہی، جس دوران میں نے ان سے انشورنس انڈسٹری سے متعلق لاتعداد سوالات پوچھ ڈالے۔ انھوں نے میرے سوالات کے جوابات دیے، مجھے انشورنس کاروبار سمجھایا اور مجھے یہ بتایا کہ GEICOکو دیگر انشورنس کمپنیوں پر کیا فوقیت ہے۔ اس دوپہر نے میری زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دی‘‘۔

تازہ ترین