• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کا دھارا دریا کے بہائو کی مانند ہر لمحے تبدیلی سے آشنا ہوتا ہوا نئی منزلوں کی طرف رواں رہتا ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں تو یہ زیادہ پرشور اور غضبناک ہو جاتا ہے یہاں تک کہ رکاوٹوں کو منہدم کرکے یا ان میں سے راستہ نکال کر آگے بڑھنے کی سبیل نکال لیتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بدھ کے روز تحصیل شکرگڑھ میں واقع گوردوارہ ننکانہ صاحب کے قریب کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی جس تقریب میں ہمسایہ ملک بھارت کیلئے پاکستان کے امن و خیرسگالی پیغام کا اعادہ کیا، اسی تقریب میں پڑوسی ملک بھارت سے آئے ہوئے تین رکنی تجارتی وفد کے سربراہ نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ کرتارپور راہداری لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنے گی اور عمران خان کے ہاتھوں کوریڈور کھولے جانے کا واقعہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ وزیراعظم عمران خان نے واہگہ کے راستے سکھ یاتریوں کے 400کلومیٹر کے سفر کو صرف چار کلومیٹر تک محدود کرنے والی راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں پاکستان اور بھارت کے عوام میں پائی جانے والی دوستی و امن کی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے اپنی یہ پیشکش دہرائی کہ بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت جوہری طاقتیں ہیں جن کے مابین جنگ ہو ہی نہیں سکتی۔ تجارت کے لئے بھی ہمیں سرحدیں کھولنا ہوں گی۔ انہوں نے دو صدیوں تک باہمی جنگوں میں الجھنے والے ملکوں فرانس اور جرمنی کی دشمنی کے بہترین دوستی میں بدلنے کے حوالے سے نکتہ اُٹھایا کہ مذکورہ دونوں ملکوں کی تاریخ جن واقعات سے عبارت ہے، پاکستان اور بھارت کی تاریخ اس نوع کی سنگینی کی حامل نہیں۔ ایسی صورت میں اسلام آباد اور نئی دہلی ایک دوسرے کے قریب کیوں نہیں آسکتے؟ حقیقت بھی یہی ہے کہ فرانس اور جرمنی کے رہنما امن کی ضرورت سامنے رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری نہ نبھاتے اور مشترکہ اقدار اور مفادات کو بنیاد بناکر ’’الیزے امن معاہدہ‘‘ نہ کرتے تو دونوں ملکوں کے درمیان ’’دشمنی‘‘ کی علامت سمجھا جانے والا ’’دریائے رائن‘‘ آج انہیں متحد رکھنے والا دریا نہ کہلاتا اور یورپ بھی متحد نہ ہو پاتا ۔تاریخ کا سبق یہی ہے کہ دیرپا معاہدوں کے لئے ایسے لیڈروں کی ضرورت پڑتی ہے جو آگے بڑھنے کی اہمیت سمجھیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا میں ڈیڑھ ارب آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ دونوں ممالک جرمنی اور فرانس کی مثال سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات پر کام کریں تو یقینی طور پر خطے اور ایشیا کی معیشت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایسے منظر نامے میں، کہ 1947ء سے لے کر آج تک پاکستان کی بھارت کے ساتھ امن و تعاون کی پیشکشوں کا جواب سردمہری، دھمکیوں اور جنگوں کی صورت میں دیا جاتا رہا اور جب مخصوص ماحول یا کیفیت میں بات چیت کا دور چلا تو کسی نہ کسی بہانے معطل کیا جاتا رہا، یہ سوال بار بار سامنے آتا ہے کہ مذکورہ کوششیں کب تک کی جاسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ کاوشیں اس وقت تک پورے اخلاص سے جاری رہنی چاہئیں جب تک تاریخی عمل کا بہائو ماحولیاتی سمت کو انسانیت کی اعلیٰ و ارفع اقدار کے رخ پر نہیں لے آتا۔ پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کی سمت دو بڑی کوششیں 1998ء میں دونوں ملکوں کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی وزیراعظم واجپائی کی دوستی بس سے لاہور آمد کی صورت میں اور پھر کئی برس بعد پرویز واجپائی مشترکہ بیان کی صورت سامنے آئیں۔ مگر اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت سارک کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ بیٹھنے تک سے انکاری ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان امن و ترقی کی فضا پائیدار بنانے کیلئے ضروری ہےکہ دونوں جانب انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور سیاسی قیادتیں پورے عزم کے ساتھ مل جل کر خطے کے ڈیڑھ ارب باسیوں کے لئے خوشیوں بھرے مستقبل کی تعمیر کریں۔

تازہ ترین