• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کپتان نے آتے ہی ریاست مدینہ کی باتیں کیں۔ اس نے کئی اہم فیصلے بھی کئے۔ہمارے کسی وزیراعظم نے بچوںکی صحت کے بارے میں باتیں نہیں کی تھیں مگر ہمارے موجودہ وزیراعظم نے بچوںکی ذہنی و جسمانی نشوونماکے حوالے سے متفکر ہو کرباتیں کیں۔ ہم نے مانا کہ کپتان سے پہلے کسی وزیراعظم کو موسموں کا احساس نہیں ہوا ہوگا اسی لئے تو یہاں گرمی کی شدت بڑھتی گئی۔ یہ مان لیا کہ کپتان کو اس کا بڑا ادراک ہے، اسی لئے اس نے ملک میں اربوں درخت لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی مان لیا کہ وہ پاکستان کو سرسبز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ کپتان کو یہ بھی احساس ہے کہ ملک میں پانی کی کمی ہے، اسی لئے اس نے چیف جسٹس کی آواز پر لبیک کہا۔ وزیراعظم ملک کوصاف ستھرا بھی دیکھنا چاہتے ہیں، اسی لئے انہوں نے اسلام آباد کے ایک کالج سے صفائی مہم کا آغاز بھی کیا۔وزیراعظم ملک میں جلد انصاف کا نظام چاہتے ہیں، اس خاص مقصد کےلئے قانون سازی چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لوگوںکو انصاف کی فراہمی میںدیر نہیں ہونی چاہئے۔ وزیراعظم آبادی پر کنٹرول بھی چاہتے ہیں، اسی لئے انہوں نے سپریم کورٹ میں ہونے والی تقریب میں شرکت کی۔ وزیراعظم اپنے ملک کے کسان کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ زراعت میں انقلاب کے خواہاں ہیں۔ وہ عام آدمی کی زندگی کوبہتر بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں یتیم بچوں کا احساس ہے۔ وہ زکوٰۃ کے نظام کی درستی چاہتے ہیں۔ وہ بیوائوں کے دکھوںکا مداوا چاہتے ہیں۔ وہ کھیل کے میدانوں کو آباد دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ ملکی معیشت درست ہو جائے۔ ملک ترقی کے راستے پرگامزن ہو جائے۔ یہ خواہشیں، یہ خواب، یہ خیال سب درست ہیں مگر ان کی تکمیل کے لئے ٹیم چاہئے۔ ہم نے مانا کہ کپتان درست ہے، کپتان کو مسائل کاادراک ہے مگر یہ سارے مسائل حل کرنے کے لئے شاندار ٹیم چاہئے۔ کپتان صرف راستے کا تعین کرتا ہے، حکمت عملی بتاتا ہے، پرفارم تو ٹیم نے کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت بہت اچھا کپتان ہے مگر اس کی ٹیم میں کئی فالتو کھلاڑی ہیں۔ کپتان کو ایسے کھلاڑیوں کی خوشامد سے بچنا ہوگا۔ یہ خوشامدی اتنے چالاک اور ہوشیار ہیں کہ وہ عمران خان کی خوشامد کے لئے کرکٹ کی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ نے سو دنوں کے اختتام پر تقریب دیکھی ہے تو پھر آپ کو خوشامد کے لفظ بھی یاد ہوں گے۔اس تقریب میں کپتان کے دو وزیروں نے تقریریں کیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دونوں نے کسی قدر خوشامد کا مظاہرہ کیا۔ ایک نے گگلی کا سہارا لیا تو دوسرے نے موسم، پچ اور بال کے سوئنگ ہونے کے الفاظ استعمال کئے۔ ایک نے تو انتہا کردی۔ اس کااسٹاک مارکیٹ میںاپنابزنس ہے۔ اس کی کارکردگی کااندازہ صرف ڈالرسے لگالیں۔ باتوں کا جادوگر،خوشامد کی انتہا کرتا ہے مگرکارکردگی صفرہے۔ اس نے وزیراعظم سے وعدہ ختم کروایا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان نے غیرملکی دورہ نہ کرنے کاعہد کر رکھا تھا مگر جب یہ وزیر ناکام ہوا تو کپتان کو خود میدان میںاترنا پڑا۔ خود بیرونی دورے کرنے پڑے، خود معیشت کو سنبھالا دینا پڑا۔ کپتان ٹھیک ہے مگر کپتان کی ٹیم میں کئی بارہویں کھلاڑی ہیں۔

مغل بادشاہ اکبر نے اکیاون (51) برس حکومت کی۔ اتنی کامیابی سے حکومت کی کہ لوگ آج تک اکبر کے نورتن نہیں بھول سکے۔ یہ نو رتن دراصل اکبر کے وزیرمشیر تھے۔ اکبر نصف صدی سے زائد اپنے وزیروں مشیروں کے سرپر حکومت کر گیاحالانکہ اکبر خود اَن پڑھ تھا۔ ایک ہمارے کپتان ہیں۔ پڑھے لکھے ہیں، وژن رکھتے ہیں، انہیں مسائل کا ادراک بھی ہے، وہ مسائل کو حل کرنا چاہتےہیں مگر ان کے پلّے نالائق پڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان کسان کی حالت بدلناچاہتے ہیں، ایسا کیسے ممکن ہوگا؟ کسان کی حالت کس طرح بدلی جائے گی۔ اس وقت پاکستانی زمیندار کی کیاصورتحال ہے؟ اس وقت کسان کے حالات کا ’’چہرہ‘‘ کیسا ہے؟ اس سلسلے میں صادق آباد کے رہائشی چوہدری اعجاز چٹھہ بتاتے ہیں کہ ’’ہمیں صادق آباد کے دیہات میں رہ کر ایسے لگتا ہے جیسے پاکستانی حکمران ہمارے علاقے کو اپنی حکومت میں شامل ہی نہیں سمجھتے۔ ہمارے ہاں زمینداروں کے ساتھ سارا ظلم محکمۂ آبپاشی کر رہا ہے، ہماری نہروں کو پندرہ، پندرہ دن کے وقفے سے چالو کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ بھی قبول ہے مگر جن لوگوں کی زمین شروع میں ہے انہیں پانی کا مسئلہ وہ نہیں ہے جو ٹیل والوں کو ہے۔ محکمۂ آبپاشی کے اہل کار پانی چوری کرواتے ہیں۔ اس طرح پانی کی تقسیم میںانصاف نہیں ہوتا۔ ہمارے باغات سوکھ گئے ہیں۔ ہم فصلیں نہیں اُگا سکتے، ہمارے ہاں انسانوں اور جانوروں کے لئے پینے کا پانی بھی کم ہوتاجارہا ہے۔ اگر وزیراعظم پاکستان کو سرسبز دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں پانی کی تقسیم میںناانصافی کو ختم کرنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ آپ نئے ڈیم بنائیں اچھی بات ہے۔ نہروں اور کھالوں کو پختہ بنائیں،یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ پانی سے زندگی ہے، اگر ہمیں پانی نہیں دے سکتے تو پھر ہمارے علاقے کو آفت زدہ قرار دے دیں۔ وزیراعظم جانوروں کا گوشت برآمد کرنا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس تو جانوروںکو ڈالنے کے لئے چارہ ہی نہیں کیونکہ چارے کو اُگانے کے لئے پانی چاہئے۔ چیف جسٹس صاحب بھی ایک نظرہماری طرف کریں۔ پانی چوری اور ناانصافی کے نظام میں ایک ہی نہر پر ایک زمیندار کے پاس مہنگی گاڑی ہے اور دوسرے کے پاس موٹرسائیکل ہے۔ یہ سب پانی چوری کے باعث ہے۔ ہمارے ساتھ انصاف کیجئے۔‘‘

صاحبو! ایسے مراحل پر مجھے نارووال کا سرور ارمان یاد آجاتا ہے کہ؎

رات کے اندھیروں سے جنگ کرنے والوں نے

صبح کی ہتھیلی پر آفتاب رکھنا ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین