• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پشاور میں مشترکہ سول، ملٹری ایئر پورٹ پر دہشت گردوں کے دیدہ دلیرانہ حملے کے بعد جہاں بچہ خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ، پاکستان ایئر فورس اینڈ آرمی ایوی ایشن بیسز واقع ہیں اب آئندہ کیا ہو گا؟ کراچی میں پاکستان نیوی ایئربیس اور پی اے ایف کامرہ بیس کے بعد یہ اپنی نوعیت کا تیسرا حملہ ہے۔ درحقیقت ملک کے تمام ہوائی اڈے اور ایئر بیسز دہشت گردوں کے اہم اہداف ہیں مگر ان جگہوں پر پہلے حملے کئے گئے ہیں جو دہشت گردوں کی ترجیحی فہرست میں اولین تھے۔ پشاور ایئر بیس پر حملہ گویا گھات لگائے بیٹھا تھا اور کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال اس پر فائر کئے گئے راکٹ ایک بڑے حملے کی تنبیہ تھی۔ ان راکٹوں سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تھا کیوں کہ یہ مختصر حد کے راکٹ درست طور پر ہدف کو نشانہ نہیں بنا سکتے مگر ان کا بہت شدید نفسیاتی اثر رونما ہوا اور متعدد ایئر لائنوں نے پشاور کی پروازیں منسوخ کر دیں جس کے باعث مسافروں کو بہت پریشانی اٹھانا پڑی۔ خلیجی ممالک میں بنیاد کرنے والی کم از کم چھ بین الاقوامی ایئر لائنوں نے پشاور جیسے منافع بخش روٹ پر اپنی پروازوں کو معطل کر دیا جہاں مسافروں کی کوئی کمی نہیں جیسا کہ بے شمار پاکستانی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور کویت میں روز گار کما رہے ہیں۔ حکام بھی اس بات سے آگاہ تھے کہ پشاور ایئر پورٹ پر حملہ کیا جا سکتا ہے اور اسی خدشے کے پیش نظر وہاں حالیہ سالوں میں حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر دیا گیا تھا تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسیع ایئر پورٹ کی بیرونی حدود کو تحفظ فراہم کرنے کی نسبت ان اضافی حفاظتی اقدامات کا زیادہ زور مسافروں، انہیں چھوڑنے آنے یا لینے جانے والے اہل خانہ و دوستوں اور آنے جانے والی گاڑیوں پر مرتکز تھا۔ دہشت گرد بلاشبہ ان غیر معمولی حفاظتی اقدامات سے باخبر ہوں گے اور اسی وجہ سے انہوں نے ادبارہ اور باڑہ روڈ کے کمزور مقامات کا انتخاب کیا جہاں سے وہ باؤنڈری لائن کو پھلانگ کر ایئر پورٹ میں داخل ہونے کے بعد طیاروں اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنا سکتے تھے تاہم ان کے منصوبے نے کام نہیں کیا اور حملہ ناکام ہو گیا۔ تمام10حملہ آور خودکش بمبار تھے جنہیں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ’فدائی‘ قرار دیا جس نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
حملے کے دوران اگرچہ تمام10حملہ آور مارے گئے مگر ان آخری پانچ کا خاتمہ کرنے میں16گھنٹے لگے جو تاریکی کا فائدہ اٹھا کر بھاگ نکلے تھے اور ایئر پورٹ سے دو کلو میٹر دور پاواکی نامی گاؤں کے ایک زیر تعمیر مکان میں روپوش ہو گئے تھے۔ ایک ناکام حملے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اب دہشت گرد دوبارہ اسی یا اسی جیسے کسی دوسرے ہدف کو نشانہ نہیں بنائیں گے بلکہ خدشہ ہے کہ دہشت گرد مزید حملوں کے ذریعے اپنی ناکامی اور ساتھیوں کی ہلاکت کا انتقام لینے کی کوشش کریں گے۔ پشاور ایئر بیس ٹی ٹی پی کی ٹارگٹ لسٹ میں اونچے درجے پر رہے گی کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اسے جیٹ فائٹرز اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فضائی حملے کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کا ایک اور اہم ہدف چکلالہ کا مشترکہ سول، ملٹری ایئرپورٹ ہے جس کا نیا نام بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھا گیا ہے جہاں چند سال قبل ایک خود کش حملہ آور خود کو دھماکے سے اڑا چکا ہے جس میں خوش قسمتی سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تھا۔ درحقیت سوائے کراچی اور سیالکوٹ کے وطن عزیز کے تمام ایئر پورٹ مشترکہ طور پر شہری و فوجی مقاصد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس سے بعض اوقات کچھ پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں کیوں کہ ان مشترکہ ہوائی اڈوں پر ایئر ٹریفک کنٹرول پی اے ایف کے پاس ہے جب کہ ریڈار کو پی اے ایف اور سول ایوی ایشن اتھارٹی مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ ہوائی اڈوں پر کمانڈ میں ہمیشہ ہم آہنگی نہیں ہو سکتی۔ خیال رہے کہ یہ اصطلاح اس وقت بہت عام ہوئی تھی جب جنرل پرویز مشرف صدر کے عہدے پر براجمان رہنے کے ساتھ وردی نہ اتارنے کا موقف پیش کر رہے تھے۔ ماضی میں ایئر پورٹ سیکورٹی فورس ایئر پورٹ منیجروں اور سی اے اے کو جواب دہ ہوتی تھی مگر اب یہ براہ راست وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق تمام ہوائی اڈوں پر کرائسس مینجمنٹ سیل موجود ہوتے ہیں مگر اس بات کا علم نہیں کہ آیا یہ چھوٹے ہوائی اڈوں پر موثر روپ میں ہوتے ہیں۔1995ء میں ٹی این ایس ایم کے سیاہ پگڑی پوش مسلح جنگجوؤں نے مولانا صوفی محمد کی قیادت میں جو فی الوقت جیل میں ہے سوات میں سیدو شریف کے چھوٹے ایئر پورٹ پر بنا کسی غیر معمولی مزاحمت کے قبضہ کر لیا تھا۔ پاکستانی طالبان، ان کے غیر ملکی اتحادی اور انہی جیسی ذہنیت رکھنے والے دیگر گروپ کسی چھوٹی ایئر بیس کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ پشاور ایئر پورٹ کو نشانہ بنانا دہشت گردوں کی صلاحیت سے کہیں زیادہ تھا اور اسی وجہ سے ان کا منصوبہ پورا ہونے میں ناکام رہا تاہم یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا حملہ نہیں تھا اور نہ ہی آخری اور اسی لئے حفاظتی اقدامات میں معمولی سی ڈھیل بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ اس نوعیت کے اہداف پر حملے کے خطرات میں اب بہت اضافہ ہو چکا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ایئر بیسوں پر تین حملوں کے بعد ٹی ٹی پی نے اندازہ کر لیا ہے کہ وہاں اونچے درجے کی سیکورٹی میں کہیں نہ کہیں سے نقب لگائی جا سکتی ہے۔
تازہ ترین