• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نئے بیل آئوٹ پیکیج کے حصول میں نیپرا کی جانب سے بجلی کے نرخ میں ایک روپیہ 27پیسے فی یونٹ اضافے کے حالیہ فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی یقین دہانی خاص اہمیت کی حامل ہے۔ صارفین پر پڑنے والے 130؍ارب روپے سالانہ کے اس بوجھ سمیت اضافی ٹیکسوں کے اقدامات سے 170؍ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔ متوقع منی بجٹ کا مطلوب بھی ٹیکسوں میں اضافہ ہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بتدریج ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ مہنگائی میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ مذکورہ مالیاتی اقدامات اور واشنگٹن سے حالیہ رابطوں کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے زیادہ سے زیادہ کوٹہ سہولت 435فیصد پر مبنی پروگرام ملنے کی امید کی جاتی ہے جو 12؍ارب کے مساوی بتایا جاتا ہے۔ پاکستان کو آئندہ تین برسوں میں تقریباً 6.40؍ارب ڈالرز کے واجبات ادا کرنے ہیں تاکہ 36؍ماہ کی دستیاب سہولت کے تحت فنانسنگ 6؍ارب اور 7؍ارب کے درمیان ہو۔ مشکل صورت حال سے دوچارمعیشت کو سنبھالا دینے کے لئے وطن عزیز کو ادائیگیوں کے عدم توازن، بجٹ خسارے، درآمدات و برآمدات کے غیرمعمولی فرق کے علاوہ گردشی قرضوں کے بڑھتے آسیب سمیت کئی چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔صورتحال کی یہ سنگینی اپنی جگہ،مگر ہر مسئلے کا حل عوام پر بوجھ بڑھانا ہی ٹھہرے تو سوال کیا جاسکتا ہے کہ اکنامک منیجرز کا وہ ہنر کہاں چھپا ہے جس کی خاصیت دشوار ترین چیلنجوں کو سنہری مواقع میں بدلنا بتائی جاتی ہے۔ گردشی قرضوں کا حجم گھٹانے سمیت تمام ہی معاشی گتھیوں کا سلجھائو جتنا ضروری ہے مہنگائی، بیروزگاری اور افراط زر سمیت سنگین مسائل کی چکی میں پسنے والے عوام پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو ناقابل برداشت ہونے سے روکنا بھی اتنا ہی ناگزیر ہے۔ ان میںسے کسی ایک پہلو کوترجیح دے کر دوسرے پہلو کو نظرانداز کرنا کسی طور بھی درست نہیں ہوگا۔ موجودہ حکومت کو اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات میں توازن و تناسب کی اس اہمیت کو بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا۔

تازہ ترین