• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’امام و مُوذّن‘‘ کا مقام و مرتبہ اور ہماری ذمے داریاں

مسلم معاشرے میں امامت ایک معززاور قابلِ احترام منصب ہے اوراس پر فائز رہنے والے لوگوں کوعام و خاص ہر طبقے میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب دنیاکے بیشتر خطوں میں سیاسی و سماجی اور تہذیبی ا ور علمی اعتبار سے مسلمانوں کاغلبہ تھا اور مسلم تہذیب دنیاکی مقبول ترین تہذیب تھی، اس وقت امام کا مرتبہ اس اعتبار سے غیر معمولی تھاکہ وہ نہ صرف پنج وقتہ،جمعہ و عیدین اور جنازے کی نمازوں میں مسلمانوں کے پیشواہوتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ لوگ اپنے روزمرہ مسائل و مشکلات کے حل کےلیے بھی انہی سے رجوع کیاکرتے تھے۔ماضی میں دین و دنیاکے کئی اہم کارنامے انجام دینے والے افراد مساجد کے منبروں سے ہی وابستہ تھے۔ اسلامی کتب خانے کا اچھا خاصا ذخیرہ ائمہ کی علمی و فکری قابلیتوں کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ان کی اہمیت و برتری اور فضیلت کودراصل اللہ کے نبی ﷺنے اپنے قول و عمل کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں بٹھایاتھا۔

ایک موقع پر اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: امام اس لیے بنائے گئے ہیں کہ ان کی اقتداکی جائے۔ اس کاایک ظاہری مطلب یہ ہے کہ نمازکے دوران اماموں کی اقتداکرنی چاہیے اوران کے عمل کے مطابق عمل کیاجائے،تاکہ ہماری نمازدرست اور مکمل ہوسکے، لیکن ایک مطلب اس کایہ بھی ہے کہ معاشرے میں امام کے منصب کااعتراف کرتے ہوئے ان کے اچھے اوراعلیٰ اخلاق و کردار کواپنایاجائے اوراس سلسلے میں بھی انہیں اپنا رہنمابنایاجائے۔

نبی اکرم ﷺپوری مدنی زندگی میں مسجدنبوی کے امام و خطیب رہے اور مسلمانوں کودی جانے والی تمام تر تعلیمات مسجدوں کے ذریعے ہی پایۂ تکمیل کوپہنچتی تھیں۔چاہے معاشرتی مسائل ہوں یا اللہ کے راستے میں جہادکے لیے نکلنے کی تدبیریں، چاہے تعلیم و تعلم ہویادیگرامورسب امام یعنی نبی پاک ﷺ کے ذریعے ہی لوگوں تک پہنچتے تھے۔اسی طرح لوگوں کونمازکے اوقات کی خبر دینااور انہیں دن کے پانچ وقت کامیابی اور خیر کی طرف بلانابھی نہایت ہی شرف اور فضیلت والاعمل ہے۔نبی پاک ﷺنے امام کے ساتھ ساتھ موذنین کے لیے بھی بڑے اجروثواب کی بشارت دی ہے۔

امام ابن تیمیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک صاحب حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے دریافت کیاکہ اللہ کے رسولﷺ!مجھے کوئی کام بتائیں،توآپ ﷺنے فرمایااپنی قوم کے امام بن جاؤتوانہوں نے کہا،اگریہ ممکن نہ ہوتو؟ توآپ ﷺنے فرمایا، پھرموذن بن جاو۔(شرح العمدۃ)اس حدیثِ پاک سے سیدھے طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی نگاہ میں امامت اور موذنی ایک اعلیٰ اور شرف والاعمل تھا،اسی وجہ سے آپ ﷺنے ایک صحابی کواس کی تلقین فرمائی۔ایک دوسری حدیث جسے امام ترمذیؒ نے نقل کیاہے،اس میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا،تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلےپر ہوں گے:ایک وہ جس نے اللہ کے اوراپنے غلاموں کے حقوق اداکیے ہوں گے،دوسرا وہ شخص جس نے لوگوں کی امامت کی اوراس کے مقتدی اس سے خوش رہے اورتیسراوہ شخص جس نے روزانہ پانچ وقت لوگوں کو نماز کی دعوت دی۔ یعنی جو اذان دیا کرتا تھا،اس حدیثِ پاک سے تو اوربھی وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتاہے کہ امامت اور موذنی اللہ کے نزدیک قابل عزت و تکریم عمل ہے اور دونوں قسم کے لوگوں کے لیے اللہ کی خاص رحمت ومہربانی مقدرہے۔

ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ، محشرکے دن موذنین کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی،یعنی وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں نمایاں ہوں گے اوربآسانی پہچانے جاسکیں گے۔ایک موقع پر فرمایاگیاکہ اگر لوگوں کوپہلی صف میں نماز پڑھنے اوراذان دینے کی فضیلت کاعلم ہوجائے توقرعہ اندازی کی نوبت آجائے ۔اسی طرح اللہ کے رسول ﷺنے خاص طورپرامام اور موذن کے لیے رشدومغفرت کی دعافرمائی ہے۔ (سنن ابوداؤد)

ایک طرف ائمہ اور موذّنین کے بارے میں اتنی فضیلتیں واردہیں، جنہیں جان کرایک انسا ن کے دل میں حسرت پیداہوتی ہے کہ کاش وہ امام یاموذّن ہوتا،لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ وقت میں اپنے معاشرے کے ائمہ اور موذنین کی صورتِ حال اوران کے ساتھ لوگوں کے رویوں کامشاہدہ کرتے ہیں تونہایت افسوس اورتکلیف ہوتی ہے اور پھر عام حالتوں میں عموماً کوئی بھی شخص امام یاموذّن بننے کاخواب نہیں دیکھتا۔ مختلف اسباب کی بناء پر آج کل ایسا ماحول بنادیاگیاہے کہ دوسرے لوگوں کوتوچھوڑیں خودمسلمان اور وہ بھی باشعور سمجھے جانے والے مسلمان بھی امامت اور موذنی کوحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،حالاں کہ دوسری جانب ایک ناقابلِ انکارحقیقت یہ ہے کہ پانچ وقتوں اور عیدین کی نمازوں کے علاوہ بھی پیدائش سے موت تک ہم ایک امام اورموذّن کے محتاج ہوتے ہیں۔ایساباورکیاجاتاہے کہ مساجدکے امام اور موذنین معاشرے پربوجھ ہیں اورپھران کے ساتھ عام طورپراسی قسم کا برتاؤـ کیا جاتاہے،یقین جانئے ہمارایہ عمل خود ہماری بدبختی اور اللہ کی ناراضی کاسبب ہے اوراس سے خودہمیں ہی دنیاوآخرت میں خسارہ ہوگا۔یہ کس قدرحیرت اور افسوس کامقام ہے کہ ایک جانب توہم یہ سمجھتے ہیں کہ امامت اورموذنی کرنا معمولی کام ہے،یہ کام کرکے انسان پُرسکون طریقے سے اپنی زندگی نہیں گزارسکتا اوراس میں اپنی اولاد کولگاناگویاان کی زندگی کوبربادکرناہے،جب کہ دوسری جانب جب ہم ہی مسجدکے ٹرسٹی یامتولی بنتے ہیں توامام یاموذّن کی تنخواہ چند ہزار سے زائد کرنے کے لیے کسی بھی صورت تیارنہیں ہوتے۔معمولی سے معمولی شخص بھی جس کامعاشرے میں کوئی وزن نہیں ہوتا،وہ کسی بھی وقت امام یا موذن پر اپناغصہ نکال سکتاہے،کسی بھی وقت اسے یہ کہہ کرنکال دیاجاہے کہ آپ ہماری مسجدکے لائق نہیں۔ ہمارا تصوریہ ہوتا ہے کہ امام اور موذن کوانسان نہیں،فرشتہ ہوناچاہیے، مگر خودہم کسی کے ساتھ انسانی اخلاق کے ساتھ بھی پیش نہیں آتے۔پس اِس وقت مسلمانوں میں بے شمارسماجی اصلاحات کے ساتھ کرنے کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ ائمہ اور موذنین کے تئیں لوگوں کے دلوں میں احترا م اور وقار کاجذبہ پیدا کیاجائے۔ اسلام میں ان کاجومقام و مرتبہ بتایاگیاہے، اس سے لوگوں کوروشناس کیاجائے اور لوگوں کو مساجد سے جوڑتے ہوئے ائمہ کی مخلصانہ اقتداکاماحول بنایاجائے۔ ہر دور میں عوام کامساجداور اماموں سے گہراربط رہاہے،آج بھی عام مسلمانوں کا دن رات کاتعلق اپنے اماموں سے ہوتاہے، اگر عوام اور ائمہ کے مابین تعلقات مضبوط ہوں گے اور دونوں طرف افادہ و استفادہ کی راہ ہموارہوگی تواس طرح مجموعی طور پر پورے مسلم معاشرے میں ایک خو ش گوارسماجی انقلاب برپا ہوسکتاہے۔ 

تازہ ترین