• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ہم بے نظیر بھٹو کا پانچواں یوم شہادت منارہے ہیں۔ پلک جھپکتے ہی پانچ برس گزر گئے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ تھوڑی دیر قبل تو ہمارے پاس تھی۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی بھی ایسے ہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی کو وزارت خارجہ میں تربیت دینا شروع کی تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکی ایک دن بے نظیر بنے گی، باپ کے نام کو روشن کریگی اور پھر مر کر بھی زندہ رہے گی۔ 30سال سے زائد عمل زندگی کبھی جلاوطنی تو کبھی قید۔اسی طرح کبھی وزیراعظم تو کبھی اپوزیشن لیڈر۔
بے نظیر بھٹو پاکستان کو قائداعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان بنانا چاہتی تھی۔ ایک جدید پاکستان جو آج کی دنیا کے ساتھ چل سکے۔ قانون کی حکمرانی اور آئین کی مکمل پاسداری قیدوبند سے آزاد میڈیا اور عدلیہ کی آزادی اُن کا خواب تھا۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کئے رکھی۔
بے نظیر بھٹو ایک Visionaryلیڈر تھیں۔ انہوں نے ملک کی خاطر اتحاداپنے بدتر دشمنوں کو معاف کیا اور ملک کے مفاد کیلئے Reconcilationکا نعرہ بھی بلند کیا۔ میاں نواز شریف کے ساتھ مل کرجدوجہد کرنا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ایک ایسا شخص اور ایک ایسی پارٹی جس نے 1985سے لیکر 1999تک مخالفت کیا دشمنی کی ہو۔ بے نظیر بھٹو کو پاکستان کیلئے ڈکٹیٹر قبول نہیں تھا اپنا سیاسی مخالف قبول تھا،پھر جس نے انہیں غدار کہا ہو۔ ایسا مخالف جس نے انہیں سزا دلوائی ہو۔ ایسا مخالف جس نے انہیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا ہو۔ ایسا مخالف جس نے ان کے خاوند کو قید رکھا ہو۔ بے نظیر بھٹو کو ملک میں جمہوریت بہت عزیز تھی۔ اسی لئے 2000ء میں ARDبنی تو دنیا حیران رہ گئی۔ جنرل مشرف کا خیال تھا کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کا کبھی سیاسی اتحاد نہیں ہوسکتا۔ دونوں آگ اور پانی کی مانند ہیں لیکن دنیا نے دیکھا کہ بے نظیر بھٹو سے میاں نواز شریف کی اٹک قلعہ میں قید برداشت نہ ہوئی اور نوابزادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد اتحاد بنادیا گیا ۔
بے نظیر بھٹو نے مجھے ARDکا ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات اور بعدازاں اب مرکزی سیکرٹری اطلاعات نامزدکیا اس کے علاوہ ARDکی قیادت اور اپنے درمیان رابطے کا ذریعہ بھی۔ بے نظیر بھٹو نے دبئی میں بیٹھ کر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد شروع کی۔ ARDبننے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ میاں نواز شریف کو قید سے رہائی مل گئی کیونکہ اے آر ڈی کے بننے کے بعد جنرل مشرف کیلئے میاں نواز شریف کو قید میں رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف سے جدہ میں ملاقات بھی کی اور جب نوابزادہ نصراللہ خان، سہیل وڑائچ اور راقم نے لندن ، سعودی عرب اور دبئی کا دورہ کیا تو بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ایک ایسے معاہدے کی بنیاد رکھی جو بعدازاں Charter of Democracyکے طور پر مشہور ہوا۔
بے نظیر بھٹو کا ویژن یہ تھا کہ ملک کو مفاہمت کے ذریعے چلانے کا وقت ہے۔ افغانستان کے حالات اور پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر محاذ آرائی کی پالیسی ہم affordنہیں کرسکتے۔ اس مفاہمتی پالیسی کے تحت جب بے نظیر بھٹو 2007ء میں پاکستان تشریف لائیں تو انہوں نے شریف برادران کو راستہ دکھایا کہ وہ پاکستان واپس آجائیں۔ بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کیلئے ناممکن بنادیا کہ وہ سیاستدانوں کا راستہ روکے۔ آج کی جمہوریت بے نظیر بھٹو کے خون سے آئی ہے۔ شریف برادران کی واپسی اور حکومت بھی بے نظیر بھٹو کی جدوجہد اور قربانی کا نتیجہ ہے۔
بے نظیر بھٹو ایک لازوال داستان چھوڑ گئی ہیں۔ وہ کہتی تھیں کہ:” میراباپ ہمیشہ کہتا تھا کہ میری بیٹی وزیراعظم بنے گی لیکن میں ایسا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے کہا کہ پاپا میں کبھی سیاست میں نہیں آؤں گی۔ یہ وہ زندگی ہے جس کا انتخاب میں نے نہیں کیا بلکہ اس زندگی نے میرا انتخاب کیا۔۔۔لیکن میں نے یہ ذمہ داری قبول کی اور میں کبھی بھی اپنی Commitmentسے نہیں گھبرائی۔“
اللہ تعالیٰ نے بے نظیر بھٹو کو ایک مکمل انسان بنایا تھا اور بہت ساری صفات سے نوازا تھااور پھرذوالفقار علی بھٹو کو اپنی بیٹی میں صلاحیتیں اور کرشمہ نظر آیا تھا۔ وہ ایک غیرمعمولی ذہین، بہترین تعلیم اور قائدانہ صلاحیتوں کی مالک تھی۔
بے نظیر بھٹو ایک Optimisticلیڈر تھی۔ جن کو عوام کی طاقت پر یقین تھا ۔اپنی شہادت سے قبل جب وہ پاکستان تشریف لائیں تو ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ:
”میں ایک پارٹی کے اجلاس میں تھی اور یقین کریں کہ میں نے جتنا جذبہ پارٹی کے لوگوں میں دیکھا ہے اس پر مجھے فخر ہے کیونکہ ہم دہشت گردوں کو کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں dictateکریں اور ہمیں صرف ایک ہی کوشش کرنی ہے کہ پاکستان کو بچانے کیلئے جمہوریت کو بچائیں۔اور میرے حمایتی اس کیلئے تیار ہیں۔“
بے نظیر بھٹو جمہوریت پر مکمل یقین رکھتی تھی۔ وہ opennessاور فریڈم پر یقین رکھتی تھی۔ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اتنی جدوجہد کی ہے کہ اس کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس لئے انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے initiatives لئےARDکا قیام اور چیف جسٹس کے گھر پر جھنڈا لہرانے کا اعلان ان کے initiatives میں سرفہرست ہیں۔ بے نظیر بھٹو کہتی تھیں کہ:
” کہ آپ ایک انسان کو قید کرسکتے ہیں لیکن آئیڈیا کو قید نہیں کرسکتے ۔ آپ انسان کو جلا وطن کرسکتے ہیں لیکن آئیڈیا کو نہیں روک سکتے ۔ آپ ایک انسان کو مار سکتے ہیں لیکن آئیڈیا کو دفن نہیں کرسکتے ۔ “
بے نظیر بھٹو کے خیالات اور آئیڈیا کو لے کر آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کو پچھلے پانچ سالوں سے سنبھالا ہوا ہے اور پاکستان کو بے نظیر بھٹو کے Vision کے مطابق آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ آج لاکھوں لوگوں کو بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ کے ذریعے مدد ملتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی سوچ کے مطابق لاکھوں لوگوں کو نوکریوں پر بحال کیا گیا اور ان کی خواہش کے مطابق لاکھوں بیروزگاروں کو نوکریاں دی گئیں۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری آج اُسی پیپلز پارٹی کے جھنڈے کو لیکر چل رہے ہیں جس پارٹی نے ملک میں جمہوریت اپنے خون سے لکھی ہے۔ پھانسیاں اور کوڑے برداشت کئے ہیں۔ کوئی بھی دور ہو پاکستان پیپلز پارٹی لوگوں کو بااختیار بنانے اور ان کی حالات بہتر بنانے کی جدوجہد میں آگے آگے ہے۔ یہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو شہید بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید نے چھوڑی۔ آصف علی زرداری کی قیادت میں اسی پیپلز پارٹی نے جمہوریت بحال کی اور ڈکٹیٹر کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یہ وہی بھٹوز کی پارٹی ہے جس نے تمام سازشوں کے باوجود جمہوریت کو زندہ رکھا اور ”پاکستان کھپے“کا نعرہ بلند کیا۔ اسی نعرہ کو بلند کرنے کیلئے آج بلاول بھٹو زرداری عملی سیاسی زندگی کا آغاز کررہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ویژن کی تکمیل کیلئے۔
" Welcome Bilawal Welcome "
تازہ ترین