• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل نفسا نفسی کے دور میں بھی میرے قارئین بہت نصیحت آمیز ای میلز بھیجتے رہتے ہیں جس کو میں اپنے دیگر قارئین کی نذر کرتا رہتا ہوں۔ ملاحظہ ہو ایک بزرگ کو جب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو بلا کر وصیت کی کہ جب ان کا انتقال ہو جائے تو ان کو نہلا دھلا کر کفنایا جائے تو ایک پاؤں میں وہ موزہ بھی پہنا دیا جائے جو انہوں نے مرنے کے وقت پہنا ہوا ہو ۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تو ان کے صاحبزادوں نے کفن میں لپٹی لاش میں ایک موزہ پہنانے کی کوشش کی تو تمام افراد ، دوست، احباب اور مولانا صاحب نے سختی سے ان کے صاحبزادوں کو منع کیا کہ یہ نہیں ہو سکتا ۔ صاحبزادوں نے مرحوم کی یہ وصیت پڑھ کر سنائی ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ مرحوم کی آخری خواہش پوری کرنی چاہیے ، کچھ نے کہا کہ یہ وصیت غیر اسلامی ہے اس لیے نہیں پوری کی جاسکتی ۔ صاحبزادوں کا اصرار اور کچھ مرحوم کے دوستوں کا کہنا تھا کہ وصیت ہر حال میں پوری کی جائے جبکہ دیگر افراد کا کہنا تھا کہ یہ ہو نہیں سکتا۔ بات تکرار سے بھی جھگڑے کی شکل اختیار کرنے لگی تو سب سے چھوٹے بیٹے نے کہا کہ ابا جان نے مجھے بھی ایک خط دیا تھا کہ اگر ان کی وصیت پر عمل نہ ہو سکے تو اس خط کو پڑھ کر سب کے سامنے کھول کر سنا دینا ۔ چنانچہ جب خط کو کھولا گیا تو اس میں لکھا تھا کہ میرے بچو ! جب تم کو دنیا والے خود تمہارا بے کار ترین مال ایک موزہ جو کسی کے کام کا بھی نہیں ہوتا، قبر میں ساتھ لے جانے کی بھی اجازت نہیں دے سکتے تو تم دنیا کے قیمتی مال ہضم کر کے کیا کرو گے ۔ خبردار اس حرام مال سے بچنا کیونکہ یہ یہیں چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ قرآن مجید میں بھی ایسا ہی کہا گیا ہے کاش لوگ سمجھیں ۔اتفاق سے راقم آج کل لندن میں اپنی بیٹی کے گھر بچوں کی چھٹیوں کی وجہ سے اور ہمارے ملک میں بھی سال کے آخری دنوں کی سالانہ چھٹیوں کو گزارنے یہاں کی سیر کرنے آیا ہے ۔تو ایک طرف ہمارے ملک میں خصوصاً کراچی میں دہشت گردی ، قتل و غارت گری اپنے عروج پر ہے ۔ مسلمان، مسلمان کا گلا کاٹنے میں لگا ہوا ہے اور یہاں لندن میں مسلمان عیسائیوں کے ملک میں بالکل محفوظ زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا تہوار کرسمس اور نئے سال کی خوشیوں میں مگن ہیں ۔ ہر طرف سستے مال کی سیل لگی ہوئی ہے ۔ اتنی سستی کہ 70فیصد تک سیل لگا کر ہر کسی کو اس موقع سے فائدہ پہنچانا یہاں کا دستور ہے ۔ ایک ہم مسلمان ہیں کہ جو اپنے تہواروں پر دگنے اور تگنے دام بڑھا کر عوام کو لوٹتے ہیں ۔ حتیٰ کہ رمضان المبارک جیسے مہینے میں مہنگائی کر کے روزہ داروں کی بد دعائیں لیتے ہیں ۔ تمام عیسائی ممالک بشمول امریکہ ، کینیڈا ، یورپ سب ممالک اپنے اپنے تہواروں پر خصوصی سیل کا اہتمام صدیوں سے کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں مگر خوش قسمتی سے راقم کو زندگی میں پہلی مرتبہ اس دورے میں ایک مسلمان بنگلہ دیشی ریسٹورنٹ کے مالک سے واسطہ پڑا ۔ ہم لندن سے 400میل دور اسکاٹ لینڈ پہنچے ، میرے ساتھ میری بیگم ، داماد ، بیٹی اور ان کے دو بچے بھی تھے ۔ رات 10بج چکے تھے ۔ ہوٹل میں سامان رکھ کر اس چھوٹے سے گاؤں جس کا نام ”گریٹنا “تھا ۔ حلال کھانے کی تلاش میں نکلے ۔ شدید بارش میں ایک ریسٹورنٹ کی لائٹ کھلی ہوئی تھی ۔ ہم پہنچے تو ریسٹورنٹ بند ہو چکا تھا ۔ وہ صفائی کر رہے تھے ۔ ہم نے کہا کھانا مل سکتا ہے ؟ اس کے نوکر نے کہا کہ ریسٹورنٹ بند ہو چکا ہے ۔ اتنے میں اس کا مالک جس کا نام عبدالباری تھا کچن سے باہر آیا ۔ اس نے جب ہماری فیملی کو دیکھا تو نوکر سے کہنے لگا کہ یہ ہمارے بھائی ہیں ان کو کھانا دو ۔ ہم نے بھوک کی وجہ سے بہت زیادہ آرڈر دے دیا ۔ اس نے آ کر کھانا کم کروا دیا کہ آپ آرام سے کھائیں ہماری ڈشیں لندن کی طرح کم نہیں ہوتیں بھرپور بھری ہوتی ہیں اور واقعی ہم نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا وہ بھی آدھی ڈشیں کافی تھیں ۔ ایک ایک روٹی دو دو روٹیوں کے برابر تھیں ۔ بہت دلچسپ آدمی تھا ۔ اس نے کہا کہ وہ صرف 5گھنٹے ریسٹورنٹ کھولتا ہے ۔ شام 5بجے سے صرف 10بجے تک ریسٹورنٹ کھلتا ہے ۔ 11بجے تک صفائی کر کے رات بھر وہ مطالعہ کرتا ہے اور صبح کی نماز پڑھ کر سوتا ہے اور پھر دوپہر ظہر کے وقت اُٹھتا ہے ، نماز پڑھتا ہے ، فیملی کے ساتھ شام کو پھر ریسٹورنٹ کھولتا ہے ۔ اس کو دولت جمع کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے ۔ صرف اتنا کمانا چاہتا ہے جس سے اس کی فیملی آرام سے زندگی گزار لے ۔ آج کے دور میں بھلا ایسا صبر والا انسان کہاں ملتا ہے وہ بھی یورپ میں ۔ کاش ہم مسلمان بھی اس سے سبق سیکھیں۔
تازہ ترین