• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر ملک ظہور احمد،وائس پرنسپل، کیڈٹ کالج ،گڈاپ

فیض احمد فیض کےآبائو اجداد کا تعلق سیالکوٹ کی تحصیل ،نارووال کے ایک چھوٹے سے قصبے ـــــ،’’کالا قادِر‘‘(موجودہ فیض نگر)سے تھا۔اُن کے دادا کا نام صاحب زادہ خان تھا، جو ایک کسان تھے۔فیض احمد فیض ـکے والد، سلطان محمد خان، بچپن میں چرواہے تھے ،مگر اُن میں حصولِ علم کا شوق و جنون اس قدر زیادہ تھا کہ ایک دِن بکریوں کو کھیتوںہی میں چھوڑ کر ،گائوں کے اسکول پہنچ گئے اورجاتے ہی ماسٹر صاحب سے کہا کہ ’’میںتعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں‘‘اور یوںاُن کے تعلیمی سفر کا آغاز ہوا۔سلطان محمد خان نے اپنے شوق کو اِس طرح دَوام بخشا کہ وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی ،فارسی اور عربی زبانوں پربھی دست رَس حاصل کی اور اُن کی قابلیّت ہی کی بنیاد پر انہیںاُس وقت کے امیرِافغانستان ،امیرعبد الرحمٰن خان کا میر منشی(چیف سیکرٹری) مقرر کیاگیا۔ بعد ازاں، سلطان محمّد خان نے امیرِ افغانستان کی سَر گُزشت بھی تحریر و شائع کی۔

فیض احمد فیض، سلطان محمّد خان کی آخری اور سب سے چھوٹی بیوی فاطمہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔اُن کی تاریخ ِپیدائش اسکول کی دستاویزات میں 7جنوری 1911ء،جب کہ بلدیہ ،سیالکوٹ کے کا غذات میں 13فروری 1911ء درج ہے۔فیض صاحب نے جس وقت سیالکوٹ کی ادَبی فضا میں آنکھ کھولی، اُس وقت ان کے والد کا ستارہ عروج پر تھا۔ روپے پیسے کی ریل پیل تھی،گویا فیض صاحب منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے تھے، جس سے اُن کی طبیعت میں ایک طرح کا نازاورجذبۂ پِندار پیدا ہوگیا۔تاہم،سیالکوٹ کی اَدَبی فضااور گھر کے علِمی و ادبی ماحول نے فیض صاحب کی ذہنی اور فِکری تربیت میںنمایاں کردار ادا کیا۔اُنہوں نے اپنے بچپن کے دِنوں کا ذِکر کچھ اس طرح سےکیا ہے۔’’فجرکی اَذان کے ساتھ ہی ہم اُٹھ بیٹھتے۔ابّا کے ساتھ مسجد جاکر،نماز ادا کرتے اور گھنٹہ ،ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی سے (جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے)درسِ قرآن سنتے۔‘‘فیض صاحب نےمیٹرک کا امتحان ،اسکاچ مشن اسکول، سیالکوٹ سے پاس کیا،جہاںاُنہیں شمس العلماء ،مولوی میر حسن اور ابراہیم سیالکوٹی جیسے نام وَر اساتذہ سے کسبِ ِفیض کا موقع ملا۔میٹرک کے بعد فیض صاحب نےمَرے کالج ،سیالکوٹ میں داخلہ لیا ،اِسی کالج کے ادبی ماحول نے اُن کی تخلیقی شخصیت کو جِلا بخشی ،فیض کی شاعری کے اِبتدائی نقوش بھی مرے کالج ہی میںملتے ہیں۔فیض صاحب نے اپنی تخلیقی کوششوں سے کالج کی فضا میںقوس ِقزح کے رنگ بھر دئیے تھے،یہی وجہ تھی کہ کالج کے مشاعرے اُن کے بغیر ادُھورے اور بے معانی لگتے۔1929ءمیں انٹر کے بعد فیض صاحب نے گورنمنٹ کالج ،لاہور کا رُخ کیا، جس میں داخلے کے لیے علّامہ اِقبال نے فیض احمد فیض کو،کالج کے پرنسپل ،پروفیسر قاضی فضل ِحق کے نام ایک خط لکھ کر دیا، یوں نو جوان فیض کو گورنمنٹ کالج ،لاہور کی ادب خیز زمین میں اپنے ادبی ذوق و شوق کی آب یاری کا موقع مل گیا۔ فیض صاحب کووہاں، صوفی تبسم ،ڈاکٹر تاثیر،پطرس بخاری،پروفیسر لینگ ہارون، پروفیسر چِٹر جی اور ڈاکٹر صدر الدّین جیسے شفیق و حلیم اساتذہ کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا۔اِسی ماحول میں فیض احمد فیض نے باقاعدہ شاعری کا بھی آغاز کیا۔فیض صاحب کی شاعری کا خمیر ،جو اجزائے غالب لطافت،ملائمت اور مٹھاس پر مشتمل تھا،صوفی تبسّم،ڈاکٹر تاثیراور پطرس بخاری جیسے اساتذہ نے اصلاح کے ذریعےاِس میں پیار ،حُسن پرستی ، رومان کے رنگ برنگے پھولوں کا رَس بھی شامل کر دیا۔ چناں چہ، جب1941ء میں فیض احمد فیض کی شاعری کا پہلا مجموعہ’’ ـ نقش ِفریادی‘‘ شائع ہوا، تو اُس میں رومان اور حُسن پرستی کے رنگ غالب تھے۔ نقش ِفریادی کے پہلے حصّے میں ایک ایسے نوجوان کا عکس نظر آیا، جسے حسن و عشق کے علاوہ دنیا کے باقی تمام مشاغل اور حقائق رائیگانی نظر آتے ہیں۔؎رنگینئ دُنیا سے مایوس سا ہو جانا… دُکھتا ہوا دِل لے کرتنہائی میں کھو جانا۔ مگر ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے بعد فیض احمد فیض کی شاعری کا ایک نیا دَور شروع ہوا ،’’غم ِجاناں‘‘ نے ’’غم ِدوراں‘‘ کی شکل اختیار کر لی ۔ فیض احمد فیض جب اپنے داخل کی دنیا سے نکل کر خارج کی دنیا میں آئے، تو انہیں احساس ہوا کہ حُسن و عشق کسی ایک نقطے کے پابند نہیں ہوتے، اِس مقام پر پہنچ کر فیض کو اپنی ذات کا دُکھ بہت حقیر نظر آیا ،جس کے بعد انہوں نےساری زندگی ،غم ِجہاں اپنا کر اسے اپنی محبت کے رُوپ میں دیکھا۔؎کیوں نہ جہاں کا غم اپنا لیں …بعد میں سب تدبیریں سوچیں …بعد میں سُکھ کے سپنے دیکھیں…سپنوں کی تعبیریں سوچیں۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے بعد اُنہیںیہ احساس ہوا کہ انگریز سامراج کی توپیں، مظلوم ہندوستانیوں کی زندگی میں ظلم و جبر کا زہر گھول رہی ہیں ،چناں چہ اپنی شاعری کے اِبتدائی دَور ہی میں فیض، کاروانِ آزادی کے عَلم بردار بن گئے۔فیض اُس اوّلین قافلے میں شامل تھے، جس نے گورنمنٹ کالج، لاہور میں ’’مسلم اسٹو ڈینٹس فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور آگے چل کر آزادی کے قافلے کاحوصلہ بڑھاتے رہے۔؎ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے …بول زباں اب تک تیری ہے …تیرا ستواں جسم ہے تیرا…بول کہ جاں اب تک تیری ہے۔فیض احمد فیض کی شاعری میں آزادی کے نغمے محض جَذباتی یاسیاسی نعرےبازی نہیںتھے،بلکہ اُن میںحقیقی معنوں میں آزادی کی تڑپ کا احساس مِلتا ہے ۔گرچہ دوسرے ترقّی پسند شاعروں کی طرح فیض نے بھی رومان سے انقلاب کی طرف قدم بڑھایا ،مگر دوسروں کی نسبت اُن کے ہاں قوم و وطن کی طرف سفر،حقیقت کے قریب ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فیض صاحب نے قوم و وطن کو اپنی ذات کا حصّہ بنا لیاتھا ۔فیض صاحب کی شاعری کا بڑا کرشمہ یہ ہے کہ انہوں نے جب غم ِجاناں کو چھوڑ کر غم ِجہاں کو اپنا موضوع بنایا، تب بھی داخلیت پسندی اُن کی شاعری کا ایک نمایاں عُنصر رہی۔ حالاں کہ خارج نے محبوب کی جگہ ضرور لے لی، مگراحساسات اور جذبات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ دَرحقیقت محنت کے لطیف درد نے فیض کو غریبوں ،مزدوروں اور کسانوں سے محبت کرنا سکھائی ، لیکن دَرد کا احساس ،عشق و محبت کی کَسک ہی نے پیدا کیا۔فیض صاحب کے حسّاس دِل نے دُنیا بھر کی سِسکتی انسانیت کے کرب کو محسوس کیا۔ یہ احساس اپنے وطن کی سرحدوں سے باہر نکلا، تو اُنہیں فلسطین کے بِلکتے ہوئے بچّے بھی یاد آئے اور افریقا میں تڑپتی ہوئی انسانیت کے غم میں بھی اُن کی آنکھیںبرستی رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فیض صاحب کی شاعری میں حقیقی زندگی کا ٹھاٹیں مارتاسمندر دِکھائی دیتا ہے۔ اِس سمندر میں غربت و ہلاکت کی جُنوں خیزیاں بھی ہیں،غلامی و محکومی کی زنجیریں اور آزادی و حریّت کی شمشیریں بھی۔ لیکن مشکلات چاہےجیسی ہوں ، احساسِ محرومی کے باوجود بھی فیض احمد فیض ، نہ خود مایوس ہوئےاور نہ ہی دوسروں کو مایوس ہونے دیا۔اُن کی شاعری میں اُمّید اور یقین کی یہ کیفیت زندگی اور شاعری کے تمام دُکھوں پر ایک خُوب صُورت ہالا بنائے رکھتی ہے۔؎یہ غم جو اس رات نے دیا ہے…یہ غم سَحرکا یقیں بنا ہے…یقیں جو غم سے کریم تر ہے…سَحر جو شب سے عظیم تر ہے۔

فیض صاحب دَر حقیقت ،انسانی معاشرے میں ایک مثبت انقلاب کے داعی تھے،کیوں کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے، جس کی بنیاد عدل و انصاف ، مساوات، انسان کی عظمت اور وَقار پر ہو۔اُنہیں سامراجی نظام سے شدید نفرت تھی ،وہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام سے بھی بے زارتھے۔انہوں نے عملی طور پر ایک مزدور رہنما کی حیثیت سے ایسے معاشرے کی تعمیر کی کوشش بھی کی، جہاں آقا اور غلام کا کوئی فرق نہ ہو، جہاں کسان اور مزدور کو بھی اُتنا ہی باوقار سمجھا جاتا ہو ،جتنا کہ حکم رانوں کو۔فیض کا تصوّرِ آزادی ایسے ہی نظریات کا مرہُون ِمِنّت تھا۔سو، اِسی خواب کی تعبیر کی حسرت میں اُنہوںنے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ،مگر اُن کی استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی، بلکہ فیض نے اُن صعوبتوں کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ گلے لگایا۔؎ اِس عِشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل …ہر داغ ہے ،اس دل میں بجز داغ ندامت۔فیض صاحب نے اپنی زندگی کے آخری چار برس خود ساختہ جِلا وطنی میں گزارے ، اِس دوران اُن کا زیادہ تر وقت بیروت میں گزرا۔آخر کار چار سال بعد، جب فیض صاحب ،واپس پاکستان آئے، تو وہ ایک سال ہی زندہ سکے۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عمر کے آخری حصّے میں فیض صاحب کے ہاں موت کا تصوّر ہی بدل گیاتھا،وہ موت کو کچھ کھو دینے کے بہ جائے بہت کچھ پانے کی بشارت سمجھنے لگے تھے۔؎جو کچھ پایا کھو جائے گا…جو مِل نہ سکا وہ پائیں گے۔

فیض صاحب کی زندگی کے آخری اَیّا م،اِس اعتبار سے اطمینان بخش اور پُر سکون تھے کہ بالآخر اُن کے ناقدین اور مخالفین نے بھی انہیں ایک بڑا شاعر اور بڑا انسان تسلیم کر لیا تھا، مگر معاشی ابتری کے باعث انہیں اور اُن کی شریکِ حیات، ایلس فیض کوخاصےمشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔1912ء میں فیض صاحب کوروس کاسب سے بڑا امن ایوارڈ،’’لینن پرائز‘‘ دیا گیا، جب کہ انتقال سے کچھ روز پہلے اُنہیں اَدبی خدمات کے اعتراف میں’’ نوبیل‘‘ ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیاتھا۔ فیض احمد فیض، 19نومبر 1984ء کو لاہور میں حرکتِ قَلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔؎جو رُکے تو کوہ ِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے …رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا۔

تازہ ترین