• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان کے بعد جب کراچی پاکستان کا دارالخلافہ قرار پایا تو اس وقت جامعہ سندھ شہرمیں فعال تھی۔ اس موقع پر ضرورت محسوس کی گئی کہ جامعہ سندھ کو حیدرآباد منتقل کردیاجائے اور کراچی میں ایک وفاقی جامعہ قائم کی جائے۔ اس طرح23جون 1951ء کو جامعہ کراچی کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا، جو اُس زمانے میں بندر روڈ سے متصل پرنسس اسٹریٹ کے قرب و جوار میں تین مختلف عمارتوں میں واقع تھی۔ جامعہ کراچی کے پہلے شیخ الجامعہ (Vice Chancellor) پروفیسر اے بی اے حلیم صاحب تھے۔

اپنے قیام کے چند سال کے بعد جامعہ کراچی کی باقاعدہ تعمیر کے لیے حکومتِ وقت کی جانب سے دو ممکنہ قطعۂ اراضی کی پیشکش کی گئی، جن میں سے ایک ساحلِ سمندر کے قریب (موجودہ حبیب پبلک اسکول کے جنوب میں) اور دوسرا کنٹری کلب روڈ (حالیہ یونیورسٹی روڈ)پر واقع تھا۔ سمندری ہوا اور رطوبت کے پیشِ نظر جامعہ کراچی کے لیے کنٹری کلب روڈ پر جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ اس طرح 1279ایکڑ اراضی پر محیط موجودہ کیمپس کا قیام1959ءمیں عمل میں آیا۔ جامعہ کراچی کا یہ مقام شہر کے وسط یعنی گرومندر سے (جو اس وقت کراچی کا زیرو پوائنٹ تھا) 12میل دور تھا۔ اس نئے مقام پر جامعہ کی منتقلی کے بعد 60ء کی دہائی کے آخر میں ایک نظم بہت مقبول ہوئی، جس کا مصرعہ ’’شہر سے بارہ میل پرے ہے اک البیلی بستی‘‘ زبان زدِ عام تھا۔ اخبارات میں جامعہ کے حوالے سے کالم بھی’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے جاتے تھے۔

آپ کو شاید یہ بات جان کر حیرت ہو کہ اس زمانے میں پاکستان کے معاشی حالات اتنے بہتر تھے کہ جامعہ کراچی کی تعمیر کے لیے آرکیٹیکٹ کا انتخاب کرنے ایک وفد یورپ کے دورے پر گیا اور عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی آرکیٹیکٹ مائیکل ایکوشاخ کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہ عظیم ماہرِ تعمیرات تھے، جنھوں نے دنیا کے کئی ممالک میں جامعات اور دیگر پروجیکٹس بنائے۔ 1985ء میں مائیکل ایکوشاخ کے وصال کے بعد ان کے تعمیراتی کام کو بین الاقوامی ورثہ قرار دیا گیا۔

جامعہ کراچی کے دوسرے شیخ الجامعہ جناب پروفیسر بشیر احمد ہاشمی جامعہ کراچی کی تعمیر کے لیے بہت فعال رہے۔ انہوں نے شہر سے 12میل پرے ویرانے میں پڑاؤ ڈالا اور اپنی ذاتی نگرانی میں تعمیراتی کام شروع کروایا۔ بالآخر18جنوری 1960ء کو جامعہ کراچی کنٹری کلب روڈ (یونیورسٹی روڈ) پر منتقل ہوگئی۔ شیخ الجامعہ، اساتذہ، ملازمین، طلبا و طالبات، عمائدین شہر اور حفاظِ کرام کنٹری کلب روڈ سے جامعہ کراچی کی مرکزی انتظامی عمارت تک ایک قافلے کی صورت میں تشریف لائے اور اس مختصر سے سفر میں 30حفاظِ کرام نے قرآن کریم کی تلاوت مکمل کی۔ جامعہ کراچی کا یہ نیا مقام جامعہ نگر کہلایا۔

جامعہ کراچی کے تیسرے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب مقرر ہوئے، جو دس سال اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے دور میں جامعہ کراچی نے اس لحاظ سے بڑی ترقی کی کہ متعدد نئے شعبہ جات کی بنیاد رکھی گئی اور اسی تناسب سے تدریسی عملے کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا۔ اسی طرح کلیات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا اور تعمیراتی کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ ملک کی اس عظیم جامعہ میں ایک شاندار لائبریری کی بنیاد کو خاطر خواہ توسیع دی گئی۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے دور میں 1965ء کی جنگ بھی آئی اور جامعہ کراچی کے لیے مالی مشکلات کا آغاز ہوا۔ دارالخلافہ کی اسلام آباد منتقلی کے باعث جامعہ کراچی کی وفاقی حیثیت بھی متاثر ہونا شروع ہوگئی اور بالآخر 1973ء کے یونیورسٹی ایکٹ کے بعد جامعہ کراچی ایک صوبائی یونیورسٹی کے طورپر سامنے آئی۔

جامعہ کراچی میں اس وقت نو کلیہ جات ہیں اور صبح وشام کے پروگرامز میں ریگولر طلباوطالبات کی تعداد تقریباً42ہزا رہے۔ جامعہ کراچی میں کل54شعبہ جات اور24سینٹرزوانسٹیٹیوٹ ہیں جبکہ چیئرز اس کے علاوہ ہیں۔ علاوہ ازیں جامعہ کراچی سے الحاق شدہ کالجزاور پرائیوٹ بی اے، بی کام اور ایم اے کرنے والے طلباوطالبات کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔

جامعہ کراچی کا شمار ملک کی عظیم درس گاہوں میں ہوتا ہے۔ جامعہ اس وقت مندرجہ ذیل فیکلٹیز میں تدریس کی سہولتیں فراہم کر رہی ہے:

٭فیکلٹی آف ایجوکیشن

٭فیکلٹی آف انجینئرنگ

٭فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز

٭فیکلٹی آف لاء

٭فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنس

٭فیکلٹی آف میڈیسن

٭فیکلٹی آف فارمیسی

٭فیکلٹی آف سائنس

٭فیکلٹی آف سوشل سائنسز

حال ہی میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے داخلہ نظام کو بھی آن لائن کیا گیا ہے، جس سے طلبہ کو لمبی قطاروں سے نجات مل گئی ہے اور وہ اب باعزت طورپرگھر بیٹھے اپنے فارمز جمع کرواتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف طلبہ کو سہولت میسر آئی ہے بلکہ آن لائن نظام ہونے سے صرف میرٹ پر پورے اُترنے والے طلبہ ہی داخلہ حاصل کررہے ہیں۔ 

تازہ ترین