تحریر:منظور الحق…لندن پشتو اکیڈمی پشاور میں ’’پشتو زبان کی ترویج میں تراجم کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں عربی، فارسی، انگریزی، روسی اور اُردو زبانوں سے پشتو میں کئے گئے تراجم پر تفصیلی مقا لے پڑھے گئے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ دوسری زبانوں کی مشہور و مقبول کتابوں کے تراجم پشتو میں ہونے چاہئیں، اس سے زبان کی ترویج میں مدد ملتی ہے۔ پشتو زبان میں عربی ترجمے کی ابتدا قرآن مجید، احادیث اور مذہبی کتب سے ہوئی۔ پشتو کی پہلی معلوم کتاب خیرالبیان جو بایزید انصاری نے چار سو سال پہلے لکھی تھی پشتو، عربی اور فارسی میں ہے۔ فارسی تراجم زیادہ تر اَدبی کتابوں کے ہوئے جن نے پشتو اَدب پر گہرے اثرات چھوڑے۔ انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ہوئے۔ ایک بڑی تعداد میں روسی زبان کے اَدب بالخصوص ناولوں کا ترجمہ بھی پشتو میں ہوا۔ سویت یونین کے زمانے میں روسی زبان کی اَدبی تخلیقات کو دنیا کی دوسرے زبانوں میں منتقل کرنے کا ذمہ ریاست نے اُٹھایا اور خوب نبھایا۔ سویت یونین کے زمانے میں ماسکو کے اشاعتی ادارے ’’پروگریس‘‘ نے دنیا کی مختلف زبانوں میں جتنی کتابیں شائع کیں شاید ہی کسی اور ادارے نے کی ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کتابیں اتنی کم قیمت پر دستیاب تھیں کہ یقین نہیں آئے گا۔ ہمارے ایک یا دو روپے میں ناول اور چار یا پانچ روپے میں لغات ملتی تھیں۔ کمیونزم کا زمانہ گزر گیا تو پروگریس ’’ڈالر شاپ‘‘ میں بدل گیا۔ کمیونزم سے سرمایہ داری تک کے سفر میں جو دکانیں ذاتی ملکیت میں چلی جاتیں اُن کو ڈالر شاپ کہتے تھے۔ پشتو ایک قدیم زبان ہے، مشہور محقق، شاعر اور اَدیب سعد اللہ جان برق کے مطابق یہ زبان پہلے پراکرت تھی۔ ’پرا‘ کا مطلب علیحدہ، پرانا اور عوامی ہے اور ’کرت‘ پشتو زبان کا ’کڑت‘ ہے جس کی معنی ’’باتیں‘‘ ہے۔ آج بھی زیادہ باتیں کرنے والے کو پشتو میں ’’کڑتو‘‘ کہا جاتا ہے۔ صوابی میں پیدا ہونے والے سنسکرت کے عہد قدیم کے عالم پانینی نے اس عوامی زبان پہ کام کیا اور اس کے قواعد وضع کئے اور اسے ’سم‘ یعنی صحیح اور ’کڑت‘ یعنی زبان سے سمکڑٹ (صحیح زبان) کا نام دیا جو وقت کے ساتھ ساتھ سمکڑت سے سمسکڑٹ اور پھر سنسکرت بن گئی۔ یہ نظریہ صحیح ہے یا نہیں اس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ پشتو ہزاروں سال پرانی زبان ہے۔ آج یہ اپنی ترویج کے لئے دوسرے زبانوں کے تراجم کی مرہون منت ہے۔ یہی حال کئی علاقائی زبانوں کا بھی ہے۔ پشتو زبان کی بقا اور ترویج کے سلسلے میں کئی مشکلات حائل ہیں جس کے زیادہ تر ذمہ دار اس زبان کے بولنے والے ہیں۔ اکثر پشتون پشتو میں دوسرے زبانوں کے الفاظ جیسے ’چونکہ، چنانچہ، اگرچہ، مگر چہ، ہر گز، خاص کر، کم از کم، البتہ، مثلاً، غالباً، خصوصاً، یقیناً‘ وغیرہ کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ دوسری زبانیں سیکھنا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا اَچھی بات ہے اور دوسری زبانوں کے الفاظ اپنانا ایک زندہ زبان کے لئے ضروری بھی ہے لیکن اس کے اُصول اور قاعدے ہیں تاہم فیشن کے طور پر دوسری زبانوں کی غیر ضروری اور غیر فطری ملاوٹ سے کسی بھی زبان کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ ایک اور مسئلہ جو آج پشتو کے لکھنے والوں اور قاری دونوں کو درپیش ہے وہ رسم الخط (املا) کا ہے۔ عہدِ قدیم میں پشتو دیو ناگری رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ جب اس کے لئے عربی رسم الخط کا انتخاب کیا گیا تو 40آوازوں کو 29حروف میں لکھنے سے کئی مشکلات نے جنم لیا۔ اسی طرح ایک بڑی تعداد میں لکھنے والے آج پشتو میں فارسی کی طرز پر بڑی ’’ے‘‘ نہیں لکھتے۔ اس کی جگہ چھوٹی ی کے نیچے دو عمودی نقطے ڈالتے ہیں۔ مشہور اَدیب اور محقق قلندر مومند ایک آنکھ والی ’’ہ‘‘ قطعاً نہیں لکھتے اور دو آنکھ والی ’’ھ‘‘ سے کام چلاتے ہیں۔ اکثریت پشتو خط نسخ میں لکھتے ہیں اور مشہور اَدیب، شاعر او ر محقق سعد اللہ جان برق اسے نستعلیق میں لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا اِستدلال یہ بھی ہے کہ خوشحال خان خٹک کے اپنے ہاتھ سے نستعلیق میں لکھی شاعری ملتی ہے اور خیرالبیان بھی نستعلین میں لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں لکھنے والے الفاظ کی املا پشتو میں بدل کر لکھتے ہیں جب کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لکھنے والے لفظ کے ماخذ کو قائم رکھتے ہوئے اِسے لکھتے ہیں۔ جیسے افغانستان میں ’ کَلا‘ اور پاکستان میں ’قلعہ‘ لکھا جاتا ہے۔ وہاں ’خلک‘ اوریہاں ’خلق‘ لکھا جاتا ہے اسی طرح پشتو زبان میں کسی اور زبان کا لفظ اپنانے کیلئے مختلف اُصول وضع کئے گئے ہیں جس پر اختلاف ہے۔ اس وجہ سے جب ممتاز ادیب، شاعر اور دانشور یار محمد مغموم اپنا مقالہ ’’اقبال کی شاعری کا پشتو تراجم‘‘ پیش کرنے آیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ وہ لفظ ’’ژباڑہ‘‘ جو کانفرنس کے موضوع پر پشتو زبان میں لکھا گیا تھا، کی جگہ ’’ترجمہ‘‘ کہیں گے جسے عوام کہتے اور سمجھتے ہیں۔ ان اختلافات کیوجہ سے پشتو لکھنے اور پڑھنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ زبانوں کے ارتقاء میں پہلے مرحلے میں دوسری زبانوں کے تراجم ان کی ترویج کے باعث بنتے ہیں اور دوسرے مرحلے میں اُس زبان کی اَدب اور اُس میں لکھی گئی کتب دوسری زبانوں میں ترجمہ کی جاتی ہیں۔ لیکن اُس کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ زبان میں اَچھی اور معیاری اَدب تخلیق ہو اور اس کے علاوہ ایسی کتابیں لکھی جائیں جن کی دوسرے زبانوں کو ضرورت ہو۔ مثال کے طور پر سائنسی کتابیں۔ اگرچہ پشتو کی کتابیں دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں جیسے عبدالرحمٰن بابا، خوشحال خان خٹک اور غنی خان کی شاعری لیکن ایسے تراجم کی تعداد کم ہے۔ شاید پشتو میں اس طرح کا اَدب کم لکھا جا رہا ہے جس کی دوسری زبانوں کو ضرورت پیش آئے۔ ایک بنیادی پیغام کانفرنس کا یہ تھا کہ پشتو درس و تدریس کی زبان بنا دی جائے۔ یہ مطالبہ کافی حد تک جائز بھی ہے اس لئے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنے کا حق اقوام متحدہ (یونیسکو) بھی تسلیم کرتی ہے۔ ایک پیغام یہ بھی تھا کہ دوسری زبانوں کے علوم و فنون ترجمہ کے ذریعے پشتو میں منتقل کئے جائیں۔ تو یہ کون کرے؟ یہ تو پشتونوں کو خود کرنا چاہئے۔ پھر وہی مسئلہ درپیش ہے کہ اگر پشتو پڑھنے والے نہیں ہیں تو پشتو لکھے گا کون؟ ایک بنیادی مسئلہ جو پشتونوں کا ہے یہ ہے کہ وہ پڑھتے نہیں، کتاب نہیں خریدتے، اگر ان کی یہ عادت نہ بدلی جائے تو پھر ایسی کسی بھی کانفرنس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔