• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پختونخوا اسمبلی: اپوزیشن کا حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ

سلطان صدیقی، پشاور

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے عمل کاآغاز کر دیا ہے ۔ گزشتہ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے وقفہ سوالات میں بلین ٹری سونامی منصوبے سے متعلق اے این پی کی خاتون رکن شگفتہ ملک کے ایک سوال پر ایوان کی پارلیمانی کمیٹی کے قیام پر حکومت کو مجبور کیا تھا جبکہ رواں اجلاس کے دوران مسلم لیگ(ن) کی خاتون رکن ثوبیہ شاہد اور جماعت اسلامی کے صوبائی نائب امیر رکن اسمبلی عنایت اللہ خان کے پشاور میٹرو بس (بی آر ٹی) کے حوالے سے سوالات پر اپوزیشن نے اس جاری منصوبے میں مبینہ گھپلوں ، کرپشن اور بے قاعدگیوں کاجائزہ لینے کے لئے بھی ایوان کی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر حکومت کو مجبور کر دیا ہے ۔ اپوزیشن نے ایوان میں وزیراعلیٰ محمود خان کی عدم دلچسپی اور اکثر و بیشتر اوقات غیر موجودگی سمیت اجلاس طلب کردہ وقت کی بجائے تاخیر سے شروع کرنے کا بھی نوٹس لیتے ہوئے اسے ایوان میں سخت تنقید کانشانہ بنایا ہے ۔

اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کااس سلسلےمیں کہنا تھا کہ اجلاس صبح 9 بجے طلب کرنا اور بارہ بجے شروع کرنا ارکان کی توہین اور اپوزیشن کو دیگر صوبوں اور قومی اسمبلی میں روا رکھنے والے رویے کو اختیار کرنے پر مجبور کرنا ہے ۔ حالانکہ خیبر پختونخوا اسمبلی روایات پر چلنے والی اور ایک دوسرے کو باہمی عزت و احترام دینے والی منتخب جرگہ ہے ۔ان کے مطابق اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کا اگر یہ رویہ رہا تو جس دن حکومت اپنے طلب کردہ اجلاس کو ختم کر ے گی اپوزیشن اسی رز اجلاس کے انعقاد کے لئے ریکوزیشن جمع کرائے گی۔ا پوزیشن لیڈراکرم خان درانی کے مطابق وزیر اعلیٰ صوبائی اسمبلی کے اس مقدس ایوان کے قائد اور وہ حزب اختلاف کے قائد ہیں لیکن گزشتہ تین ماہ سے وہ قائد ایوان سے رابطے کی کوشش کررہے ہیں اور رابطہ نہیں ہور ہا ۔ کیا اس طرح حکومت اور اسمبلیاں چلائی جاتی ہیں؟ ۔ اپوزیشن نے حالیہ اجلاس کے دوران حکومت جاپان کے تعاون سے چلنے والی جائیکا کے ترقیاتی کاموں پر بھی ایوان میں سخت احتجاج کیا اور اس میں اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز کرنے پر اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے اور جاپانی سفیر سے ملاقاتوں کی دھمکیاں دیں ۔ اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے کہاکہ جائیکا پروگرام کے تحت دور دراز کے پسماندہ اور دیہی علاقوں میں ایک ، ایک ، دو ، دو کلو میٹر سے پانچ کلو میٹر تک کے روڈز بنائے جاتے ہیں لیکن ایک وزیر کے حلقے میں اس پراجیکٹ کے تحت 94 کلو میٹر روڈز تعمیر کئے گئے جو سراسر ناانصافی ہے ، ان کے مطابق یہ بات اپنی جگہ کہ حکومتی ارکان اور وزراء کو ترقیاتی عمل میں زیادہ حصہ دیا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن کو سرے سے نظر انداز کیا جائے۔ ان کے مطابق ماضی میں بھی یہ پراجیکٹ چلتا رہاہے۔ انہوںنے یہ مطالبہ بھی کیا کہ سا بقہ تینوں ادوار کاجائزئہ ایوان میں پیش کیاجائے کہ اس پراجیکٹ کے تحت کس دور میں کہاں کہاں کیا منصوےب مکمل ہوئے۔ جائیکا کے ترقیاتی منصوبںاور فنڈز کے حوالے سے بھی صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات اکبر ایوب خان کو ایوان میں یقین دھانی کرانی پڑی کہ اس پراجیکٹ میں اپوزیشن کو شامل کیا جائے گا اور ان کے حلقوں کے منصوبے بھی اس پراجیکٹ کے تحت کئے جائیں گے۔ اپوزیشن رکن سابق سنیئر وزیر عنایت اللہ خان خان کی پیش کردہ ایک قرار داد ایوان نے اتفاق رائے سے منظور کی ہے جس پر ان کے علاوہ اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک ، حاجی بہادر خان ، پی پی پی کے صاحبزادہ ثناءاللہ اور ملک بادشاہ صالح سمیت دیگر ارکان کے دستخط تھے جس میں وفاقی حکومت سے ملاکنڈ ڈوژن کے اضلاع کے لئے پیسکو کی طرز کی الگ پاور کمپنی کے قیام کا مطالبہ کیا گیاہے ۔پچھلے اجلاس میں اس طرح کامطالبہ ہزارہ ڈویژن کے اضلاع کے لئے بھی کیا گیا تھا۔عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ ملاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن کے اضلاع میں واپڈا کی ریکوری 90 فیصد سے زیادہ ہے اور یہ باقی صوبے کے دیگر علاقوں کی نسبت سب سے زیادہ ہے ، اس ریکوری کا تقاضا ہے کہ ان علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ ہو مگر پھر بھی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے ، اسی طرح ان اضلاع کی آبادی اور وسعت بھی بہت زیادہ ہے جبکہ ان علاقوں میں ہائیڈرو پاور جنریشن کے مواقع بھی بہت زیادہ ہیں یہاں تک کہ اگر انہی علاقوں کے توانائی کے منصوبوں پر توجہ دی جائے تو نہ صرف پورے صوبے بلکہ ملک بھر کی توانائی کی ضرورتیں پوری کی جا سکتی ہیں ایسے میں ان علاقوں کی الگ پاور کمپنی کے قیام سے ان تمام امور پر بخوبی توجہ دی جا سکے گی ۔ یقیناً جس طرح دیگر صوبوں میں ایک سے زیادہ پاور کمپنیاں اگر ہو سکتی ہیں تو خیبر پختونخوا میں بھی ہونی چاہیے ۔خصوصاً ان علاقوں پر مشتمل ڈویژنز میں جہاں دریائوں اور ندی نالوں کے قدرتی پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے بے انتہا مواقع موجود ہیں وہاں تو ضرور اپنی پاور کمپنی قائم کی جانی چاہیے ساتھ ہی ان کمپنیوں کو پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے بھی بااختیار کیا جانا چاہیے ۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے اسپیکر مشتاق احمد غنی کے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہونے اور آبپاشی سے متعلق ایوان کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین شپ سے اپوزیشن کے رکن سابق ڈپٹی اسپیکر اے این پی کے خوش دل خان کو ہٹانے کے اسپیکر کے اقدام کے خلاف احتجاج و تنقید کے جواب میں سینئر صوبائی وزیر عاطف خان کی جانب سے یہ اظہار خیال کہ اپوزیشن کے ساتھ کئے گئے کمٹمنٹ کو پورا کرنا چاہیے باالخصوص جس میٹنگ میں وہ موجود ہوں اور اس میں جو بھی کمٹمنٹ کی جائے اسے من وعن پورا کیا جائے یا بصورت دیگر انہیں ایسی میٹنگز میں نہ بٹھایا کرے۔ان کے ان ریمارکس اور کئے ہوئے کمٹمنٹ پر عمل درآمد کی یقین دہانی نے نہ صرف اپوزیشن کے دل جیت لئے ہیں بلکہ ان کے قد کاٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔عاطف خان کے علاوہ بلدیات کے صوبائی وزیر شاہرام خان ترہ کئی بھی ایوان میں سیدھی اور سچی بات کرنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں اور کبھی ایسی کمٹمنٹ نہیں کرتے جسے کل پورا نہ کر سکیں ۔دوسرے وزراء کو بھی ان کی طرح سچا اور کھرا ہونا چاہیے تاکہ دوسرے محکموں کے معاملات میں بھی بہتری اور شفافیت آئے اور اپوزیشن کو بھی ان کے حلقوں کے لئے ترقیاتی فنڈز اور منصوبے ملتے رہے تاکہ وہ غیر ضروری کاموں اور ایشوز میں اپنی توانائی ضائع کرنے کی بجائے صوبے کے بنیادی ایشوز اور حقوق میں جدوجہد کے حوالے سے معاون و مدد گار ثابت ہوں اور صوبے کے عوام کے مجموعی مفاد میں اضافہ ہو۔

تازہ ترین
تازہ ترین