• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز ایک ایسی تقریب سے خطاب کیا جسے بجا طور پر ٹیکس دینے والوں کے احترام کی تقریب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ محصولات کی ادائیگی کے حجم کے اعتبار سے 50نمایاں افراد کے اعزاز میں وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ تقریب میں تعریفی سرٹیفکیٹ بھی دیئے گئے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے مختلف ملکوں میں ٹیکس ادائیگی میں آبادی کی بڑی تعداد کی شمولیت اور ٹیکسوں کی شرح کے حوالوں سے جو کچھ کہا، اس کا لب لباب یہ ہے کہ کئی خوشحال ملکوں کے پاس سمندر اور دیگر قدرتی وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود ان ملکوں کے ترقی و خوشحالی کا راز وہاں عوام میں ٹیکس کلچر کی موجودگی اور حکمرانوں کی اس احتیاط میں مضمر ہے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے قومی خزانے میں آنے والی رقوم اللے تللوں پر نہیں بلکہ ملکی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں اور عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکسوں کی شرح بڑھائے بغیر ان کی ادائیگی کو آسان بناتے ہوئے ہمیں اپنا ٹیکس نیٹ وسیع کرنا ہو گا۔ ان کے بیان کے مطابق 21کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف 17لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں جن میں سے 72ہزار افراد نے اپنی آمدنی دو لاکھ روپے سے زائد ظاہر کی ہے۔ ان کےخیال میں اس رویے کی ایک وجہ عمومی سطح پر پائی جانے والی یہ سوچ ہے کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم معاشرے کے نچلے طبقے کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کی جاتیں۔ وزیراعظم کے بیان سے ماہرین معیشت کی عشروں سے دہرائی جانے والی اس رائے سے اتفاق کا پہلو نکلتا ہے کہ معاشرے کے با وسیلہ طبقے سے براہ راست ٹیکسوں کی وصولی سے اجتناب یا غفلت برتتے ہوئے بالواسطہ ٹیکسوں کا جو راستہ اختیار کیا گیا وہ غریبوں کے استحصال کے بدترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ عمران خان نے اس بات کو ناانصافی قرار دیا کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے طریقے کے باعث ملک کا وزیراعظم بھی پٹرول اور ڈیزل وغیرہ پر وہی ٹیکس ادا کر رہا ہے جتنا ٹیکس قلیل یومیہ آمدنی پر گزارا کرنے والے مزدور کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر ٹیکس ادائیگی سے اجتناب برتنے والوں کی سوچ میں آج تبدیلی نہ آئی تو ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ وطن عزیز میں ریاست مدینہ کے اس خاص پہلو کے جدید طریقے اختیار کرنے پر سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی کہ امیروں سے زکوۃ وصول کی جائے اور غریبوں پر خرچ کی جائے۔ وزیر اعظم نے اس امر کو اپنا مشن قرار دیا کہ جن لوگوں کا طرز زندگی ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کے مقابلے میں زیادہ عیش و عشرت پر مبنی نظر آتا ہے وہ ان سے ٹیکس وصول کریں گے۔ پاکستانی معیشت کی صورتحال کو بہتر بنانا اس وقت قومی بقا کے تقاضوں کا حصہ کہا جا سکتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی کہ معیشت کے برتن میں پائے جانے والے گردشی قرضوں اور دیگر خساروں کی صورت میں نظر آنے والے چھید جلد از جلد پر کئے جائیں، کرپشن اور منی لانڈرنگ کا سدباب کیا جائے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے۔ غریب اور متوسط طبقے کے افراد سمیت ملکی آبادی کا بڑا حصہ جہاں یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ اس کے خون پسینے کی کمائی اس کی اپنی فلاح پر خرچ ہو وہاں اسے ٹیکس جمع کرانے کے ایسے طریقےکی ضمانت بھی درکار ہے جو رشوت خوری سے پاک اور آسان ہو اور جس میں بار بار چکر لگوا کر اس کی تذلیل نہ کی جائے۔ حکومت ٹیکس دینے کی ترغیبات کے ساتھ ایف بی آر کے طریق کار، قوانین اور گوشواروں میں اس نوع کی اصلاحات جلد لاسکی تو وطن عزیز میں کم آمدنی والوں سمیت بہت سے لوگوں کو محصولات کی ادائیگی میں پیش پیش پائے گی۔ جہاں تک عادی ٹیکس چوروں کا تعلق ہے، اس باب میں ترقی یافتہ ملکوں کے ٹیکس نظام کو سامنے رکھ کر قانون سازی و اقدامات ناگزیر ہوں گے۔

تازہ ترین