• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک زوروں پر ہے، بھارتی حکومت بھارتی فوج کے ظلم و ستم کے باوجود اس قدر بے بس ہے کہ وہاں ریاستی اسمبلی کے الیکشن ہی نہیں ہو رہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگ جموں و کشمیر کی اسمبلی کے لئے اپنے نمائندے منتخب نہیں کر سکیں گے۔ جموں و کشمیر کی اسمبلی کے 87حلقے نمائندگی سے محروم رہیں گے، ان 87حلقوں میں وادیٔ کشمیر کے 46، جموں ریجن کے 37اور لداخ کے چار حلقے شامل ہیں۔ کشمیریوں کو کشمیر اسمبلی سے محروم رکھنے والی بھارتی سرکار اب وہاں سے صرف لوک سبھا کے اراکین دیکھنا چاہتی ہے تاکہ مرکزی حکومت آرام سے بن سکے اور بھارتی میڈیا یہ کہنے کے قابل ہو سکے کہ مرکزی اسمبلی یعنی لوک سبھا میں کشمیر کی نمائندگی موجود ہے۔ 2014ء کے جنرل الیکشن میں بھی یہ نام نہاد نمائندگی موجود تھی مگر یہ نمائندگی کشمیریوں کو رام نہ کر سکی۔ 2014ء میں سری نگر سے جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ منتخب ہوئے تھے جس میں سری نگر کے علاوہ گاندربل، حضرت بل اور بڈگام شامل ہیں، اسی طرح بارہ مولہ سے جموں و کشمیر پیپلز ڈیمو کریٹک پاکستان کے مظفر حسین بیگ جیتے تھے۔ مظفر حسین بیگ کے حلقے میں بارہ مولہ کے علاوہ کپواڑہ، ہندواڑہ، اوڑی، باندی پورہ اور گل مرگ شامل ہیں۔ اننت ناگ (اسلام آباد) کی سیٹ سے جموں و کشمیر پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی جیتی تھیں، ان کے حلقے میں اننت ناگ سمیت پلوامہ، شوپیاں، پامپور، کولگام اور پہلگام شامل ہیں۔ 2014ء کے الیکشن میں جموں و کشمیر سے جیتنے والے دو ممبران ایسے ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں، فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی، دونوں ہی اپنے اپنے وقت میں بھارت کی مرکزی سرکار کے منظورِ نظر رہے ہیں مگر آج دونوں ہی پچھتا رہے ہیں کیونکہ یہ جن حلقوں سے منتخب ہوتے رہے ہیں ان حلقوں میں بھارتی فوج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ آج محبوبہ مفتی بھارتی سرکار کی مذمت کرتی نظر آ رہی ہیں۔ آج انہیں حریت رہنمائوں کی گرفتاری پر دکھ ہو رہا ہے حالانکہ یہ گرفتاریاں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں مگر آج کشمیر کی فضا ایسی ہے کہ وہاں کوئی محبوبہ مفتی بھارتی سرکار کو سراہنے کے قابل نہیں رہی۔ فاروق عبداللہ کے والد شیخ عبداللہ نے قائداعظم سے اختلاف کیا تھا، شیخ عبداللہ بھی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ رہے، پھر ان کے صاحبزادے فاروق عبداللہ بھی وزیراعلیٰ رہے، آج فاروق عبداللہ کو قائداعظم کی یاد ستا رہی ہے، اب جب کشمیر میں ہر طرف پاکستانی پرچموں کی بہار ہے، ہر طرف پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں، ہر چھوٹے بڑے شہر میں فضا پکار رہی ہے کہ

ہم پاکستانی ہیں

پاکستان ہمارا ہے

اس فضا کا مقابلہ کرنا نہ بھارتی فوج کے بس کی بات ہے اور نہ ہی فاروق عبداللہ جیسا کوئی کٹھ پتلی اس حریت بھری فضا کا سامنا کر سکتا ہے۔ اسی لئے فاروق عبداللہ کہہ رہا ہے کہ ’’قائداعظم کا پاکستان بنانے کا فیصلہ درست تھا، ان کی بھارتیوں پر اعتبار نہ کرنے والی بات آج درست ثابت ہو رہی ہے، آج جو ہو رہا ہے اس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا‘‘ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ جواہر لعل نہرو سمیت کئی اہم رہنمائوں کے سامنے مہاتما گاندھی نے قائداعظم کو مشترکہ ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی تھی مگر قائداعظم نے اس پیشکش کو بڑے آرام سے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ’’آپ بے اعتبارے لوگ ہیں، جو بات آج آپ کر رہے ہیں، کل کو اکثریت کے بل بوتے پر آپ اس سے مکر جائیں گے لہٰذا میں پاکستان بنانے کو ترجیح دیتا ہوں‘‘۔ قائداعظم نے ورغلائے گئے سکھوں اور کچھ مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس وقت تمام سکھ اور کچھ مسلمان ہندوئوں کی سازش کے جال میں پھنس چکے تھے، سکھوں کو تو بہت جلد اندازہ ہو گیا تھا کہ ماسٹر تارا سنگھ ایک جعلی سکھ تھا، چکوال کے ایک ہندو کو جعلی سکھ بنا کر سکھوں کا لیڈر بنا دیا گیا تھا، سکھ بعد میں بہت پچھتائے۔ قائداعظم کی بات نہ ماننے والے ہندوستانی مسلمانوں کے گھروں سے آج جب گائے کا گوشت برآمد کیا جاتا ہے پھر اس گوشت کے نام پر ان پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے تو انہیں قائداعظم کی یاد بہت ستاتی ہے۔ آج وہ کہتے ہیں کہ کاش! ان کے باپ دادا، قائداعظم کی بات مان لیتے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی 1928ء سے 1953ء تک شیخ عبداللہ کے جادو میں گرفتار رہے پھر ان کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔ آج شیخ عبداللہ کی اولاد بھی بھارتی ظلم و ستم کے خلاف بول رہی ہے۔

وقت نے قائداعظم محمد علی جناح کو سچا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو جھوٹا ثابت کیا ہے۔ قائداعظم کے کردار نے ثابت کیا کہ وہ بہت بڑے لیڈر تھے جبکہ ان کے مخالفین نے اپنے کردار سے خود کو چھوٹا ثابت کیا۔ واضح رہے کہ بعض مذہبی رہنما بھی قائداعظم کی مخالفت کرتے تھے، آج ہندوستان میں جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے وہاں کے لوگوں کو قائداعظم کی یاد ستا رہی ہے۔

آج سکھ خالصتان بنانے کے لئے بے چین ہیں، وہ خالصتان اور کشمیر کی آزادی کے لئے نعرے بلند کر رہے ہیں، اسی طرح میزو رام، آسام، تری پورہ سمیت کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، ہندوئوں کے ظلم کے شکار لوگ ہندوستان سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں، جدوجہد کی ان گھڑیوں میں انہیں قائداعظم کی یاد بہت آتی ہے۔ آج کشمیر کی ایک بیٹی فرینڈز آف کشمیر کی چیئر پرسن غزالہ حبیب خان پکار پکا کر کہہ رہی ہے کہ؎

ہماری آخری جنگ ہے

ہمیں بزدل نہیں سمجھو

ہمیں کمزور مت جانو

ہمارا حق ہے آزادی

جو تم سے چھین لیں گے ہم

عَلم ہوں گے بلند اپنے

تمہارے سر نگوں ہوں گے

تازہ ترین