• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹنڈو آدم سندھ سے باغات کی بستی ٹنڈو الہ یار جاتے ہوئے میرے میزبان ڈاکٹر شریف کھوسو کا ڈرائیور مجھے بتا رہا ہے کہ سندھ میں جتنے سیل فون ہیں وہ پورے ملک میں کہیں بھی نہیں، یہاں تو بکریاں چرانے والے کے پاس بھی سیل فون ہے۔ میں دل ہی دل میں یہ سوچ کر مسکرایا کہ عجیب بات یہ ہے کہ سندھ میں کوئی بھی عجیب بات نہیں ہے وہاں بھی پنجاب کی طرح چرواہوں تک کے پاس سیل فون ہیں۔ قطع نظر حکومت کی نااہلی کے سندھ کا سماج بھی ویسے ہی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے جیسے پنجاب کا۔ مزید بر آں تھر دیپ جیسی تنظیمیں جس قسم کے تجربات تھرپارکر کے صحرا میں کر رہی ہیں ان کی مثال پنجاب میں بھی ملنا ناممکن ہے۔ اگر سندھ اور پنجاب میں بقول ہمارے دوست کھٹاوٴمل کے سیل فون کلچر اسی طرح بڑھتا رہا تو یہ قومی ریاست میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے قوم پرستی اور علیحدگی پسندی کو مزید حاشیوں سے باہر کر دے گا۔سندھ کے برق رفتاری سے بڑھتے ہوئے درمیانے طبقے کا جلد یابدیر سیاست کی نئی جہت متعین کرنا ناگزیر ہے۔ اس کا مطلب ہے روایتی جاگیرداری سیاست کا خاتمہ اور طبقوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا۔سندھ کے اکثر شہروں میں ر نگ رنگ کے رکشے تانگوں کو معدوم کر چکے ہیں۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کی بھرمار سے صوبے کے چھوٹے شہروں کی سڑکیں بھی اٹی پڑی ہی۔ کھیتی باڑی میں بھی ٹریکٹر ٹرالی لکڑی کے ہل اور گڈے کی جگہ لے چکے ہیں۔ نت نئی اشیائے صرف کی آندھی ہر پرانے دھندے کو روندتی نظر آرہی ہیں۔ المختصر سندھی معاشرہ مکمل طور پر پنجاب کی طرح تبدیل ہو رہا ہے، ہو چکا ہے۔ یہ معاشی و سماجی انقلاب کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کرنے کا عمل ناگزیر ہے یعنی سندھ میں پیدا ہونے والے نئے طبقات روایتی جاگیردارانہ سیاست کی حد بندیوں میں نہیں سما سکتے۔ تھردیپ کے سربراہ ظفر جونیجو نے لوکل گورنمنٹ پیپلز سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک انگریزی ماہنامے میں لکھا ہے کہ یہ روایتی احتجاج کرنے والا ہجوم نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو جم غفیر کی شکل میں لہر در لہر چھوٹے بڑے شہروں میں منتقل ہوئے ہیں اور کچی آبادیوں کے ساکن بن چکے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ نئے شہری مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جونیجو صاحب کی تنظیم درمیانے طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے تھر کے صحرا کو ہرا بھرا کرنے کے لئے بہت بینظیر سولر تجربات کرنے کے ساتھ ساتھ مائیکرو کریڈٹ کے تحت لوگوں کی مدد کر رہی ہے اور درمیانے طبقے کو وسعت دے رہی ہے۔
دوسری طرف سندھ کے دانشور حلقوں میں یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ سندھ میں آصف علی زرداری کی رہنمائی میں ایک نیا جاگیردار طبقہ پیدا ہوا ہے۔ یہ لوگ ہیں جو روایتی جاگیردار نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جنہوں نے پیپلزپارٹی یا دوسری حکومتوں کے زمانے میں اربوں روپے کمائے، ان سے زمینیں خریدیں یا دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے شوگر و دیگر ملوں میں بھی لوٹی ہوئی دولت سے سرمایہ کاری کی۔ غلط یا صحیح ان میں زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ذوالفقار مرزا جیسے درجنوں لوگوں کا نام لیا جاتا ہے۔یہ وہ نیا جاگیردارطبقہ ہے جس میں بہت سے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے علاقے سے ہمیشہ غیر حاضر رہتے ہیں انہیں عوام سے کچھ لینا دینا نہیں لہٰذا صوبے بھر میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا ہے۔حیدرآباد کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں پیپلز پارٹی کی کارکردگی اور اس کے تنزل کا منہ بولا ثبوت ہیں۔ پروفیسر امر سندھو کہتی ہیں کہ یہ کہنا غلط ہے کہ سندھی عوام کا پیپلز پارٹی کے ساتھ عشق یکطرفہ تھا۔ان کاکہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا سندھی عوام کے ساتھ جذباتی اور خیر خواہانہ رشتہ تھا جوکہ زرداری اور ان کے صاحبزادے کا نہیں ہے۔ باالفاظ دیگر پیپلز پارٹی کو سندھی عوام سے جوڑنے والی بھٹو زنجیر ٹوٹ چکی ہے۔اب پیپلز پارٹی کی ڈرائنگ روم سیاست نئے جاگیردار طبقے کی باندی ہے۔ امر سندھو کہتی ہیں کہ اب سندھی عوام کی پیپلز پارٹی سے دوری بڑھ رہی ہے۔ اگر ان کا یہ کہنا درست ہے کہ بھٹوز کے ساتھ سندھیوں کا عشق یکطرفہ نہیں تھا تو پھر ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ آنے والے الیکشن میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتیں اس کے مقابلے میں آئیں گی اور اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک پیپلزپارٹی اس لئے بھی من مانی کرتے ہوئے سندھی ووٹروں کو مال مفت سمجھتی رہی ہے کہ اس کے مخالف کوئی موثر سیاسی پارٹی نہیں تھی، اب یہ صورتحال تبدیل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
سندھ میں الیکشن کی آمد آمد کے عنوان ہر جگہ ظاہر ہیں۔ کراچی سے بھٹ شاہ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی پر ہونے والی سالانہ کانفرنس پر جاتے ہوئے ہر کھمبے پر مختلف پارٹیوں کے پوسٹر اور بل بورڈ چسپاں نظر آئے۔ بلاول بھٹو کی لانچنگ پر صرف کراچی میں ہزاروں نہیں لاکھوں اشتہار چسپاں ہیں اور جگہ جگہ بل بورڈوں پر نئے لیڈر کو شہید بھٹوؤں کے درمیان گھرا دکھایا گیا ہے۔ کراچی سے نکلتے ہی سپر ہائی وے سے فنکشنل مسلم لیگ کے نئے عوامی پیر پگارا کے شاہانہ تاج سے مزین پوسٹر بینر اور بل بورڈ پیپلز پارٹی کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ فنکشنل لیگ کی خوش بختی ہے کہ بہت سے روشن خیال بھی اسے ووٹ دیتے نظر آرہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے پوسٹر وغیرہ کافی کم ہیں البتہ ٹنڈو الہ یار کے پنجابی اکثریت کے علاقے میں صرف ان کی ہی اشتہار بازی نظر آئی۔ سندھی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کافی پنجابی علاقے ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔سندھ میں کچھ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ فنکشنل لیگ کی سربراہی میں ایک بڑا اتحاد بن سکتا ہے جو پیپلز پارٹی سے بیس سے چالیس فیصد سیٹیں چھین سکتا ہے۔ اس اتحاد میں قوم پرست جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ بہرحال یہ کافی حد تک واضح نظر آرہا ہے کہ اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی سندھ سے بہت سی سیٹیں ہار کر مرکز میں حکومت بنانے کے قابل نہیں ہوگی۔ یہ تاثر خود پیپلز پارٹی سے باہر وڈیروں کو مخالف محاذ کی طرف لے جا رہا ہے۔ المختصر سندھ میں پیپلز پارٹی کا ستارہ گردش میں ہے۔ پنجاب میں اس کا تقریباً صفایا ہو چکا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ زرداری اپنی پارٹی کو کس طرح اس گرداب سے نکالتے ہیں۔
تازہ ترین