• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات سے پہلے عمران خان نے کرپشن کا جو بیانیہ عوام کے سامنے رکھا وہ بہت حدتک کامیاب رہا لیکن یہ گولی سب کو ہضم نہیں ہوئی۔ بہت سے لوگ اِس بیانیے سے اختلاف کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ انتخابات میں بے ضابطگیوں کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے ہیں، بہت سے لوگ نواز شریف کے بیانیے یعنی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کیلئےآواز بلند کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی آواز کو سننے کے لئے اب مین اسٹریم میڈیا پر کوئی فورم باقی نہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے لئے سوشل میڈیا کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اس کے پیش نظر سوشل میڈیا کے والنٹیئرز نے ازخود تیئس مارچ کو نواز شریف کے ساتھ یک جہتی کی خاطر کوٹ لکھ پت جیل کے باہر جمع ہونے کا فیصلہ کیا۔

اِس قصے کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب مریم نواز نے ایک طویل عرصے کے بعد وقتاً فوقتاً اپنے ٹویٹ کے ذریعے نواز شریف کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ نواز شریف سے محبت کرنے والے، ایک ایک ٹویٹ سے فکر مند ہوتے رہے۔ انکی تشویش میں اضافے کی وجہ یہ بھی تھی کہ کسی بھی پریس کانفرنس، قومی اسمبلی یا سینیٹ کی کارروائی میں نواز شریف کی صحت کے حوالے سے اِس شدت سے سوال نہیں اٹھایا گیا جس شدت کی تشویش کا اظہار مریم نواز کی ٹویٹس سے ہو رہا تھا۔ اِس بات سے سوشل میڈیا کے کارکن اپنی اپنی منتخب کردہ قیادت سے نہ صرف بد ظن بلکہ طعنہ زن بھی ہوئے۔ انہی عوامل کی بنا پر سوشل میڈیا پر #23MarchWithNawazSharif کے ہیش ٹیگ کا آغاز ہوا اور چند گھنٹوں میں یہ پاکستان کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ سوشل میڈیا کے والنٹیئرز گزشتہ چند دنوں میں جب چاہتے اس ہیش ٹیگ کو ٹاپ ٹرینڈ بنا دیتے۔ اِس مہم میں شریک ہونے والے افراد کا تعلق دنیا بھر اور ہر طبقہ فکر سے رہا۔ کوئی اس یک جہتی مارچ کے لئے فنڈز بھیجنے کو تیار تھا، کوئی اپنے علاقے سے بھر بھر کر بسیں لانے کا وعدہ کر رہا تھا، کسی نے لائوڈ اسپیکر کا انتظام کرنا تھا اور کوئی انسانی ہاتھوں کی طویل ترین زنجیر بنانے کا دعویٰ کر رہا تھا۔ یہ تمام لوگ اس تحریک میں رضاکارانہ طور پر شریک ہوئے اور روز بروز یہ قافلہ بڑھتا گیا۔ اس تحریکِ یک جہتی مارچ کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے کسی بھی لیڈر نے اسکی حمایت یا مخالفت میں کھل کر بات نہیں کی۔ نہ ہی اس مارچ کا ذکر پارٹی کی کسی پریس بریفنگ میں آیا حتیٰ کہ مریم نواز نے بھی کھل کر اپنے کسی ٹویٹ میں اِس مارچ کی حمایت نہیں کی لیکن چونکہ مسلم لیگ (ن) میں سوشل میڈیا کو سنجیدگی سے صرف مریم نواز نے ہی استعمال کیا ہے، اِس لئے بہت سے لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ مریم نواز ہی اس مارچ کی روح رواں ہیں لیکن اس بات کا عندیہ نہ کبھی انکی کسی ٹویٹ سے ملا، نہ کسی صحافی نے کبھی اس بات کی تصدیق کی۔ یہ عجیب تحریک تھی جو کارکنوں کے ذریعے اپنی قیادت سے اپنے لیڈر کی خاطر آواز بلند کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔

شنید یہ ہے کہ درون خانہ پارٹی کی رائے بھی اس یک جہتی مارچ کے بارے میں منقسم رہی۔ ایک طبقے کی رائے کے مطابق نواز شریف کی ضمانت اب کسی بھی پیشی پر ہو سکتی ہے، اس لئے اس مارچ سے گریز کیا جائے کیونکہ اگر اس یک جہتی مارچ کے دن کارکنوں کی متوقع تعداد حد سے بڑھ گئی، کوئی غلط نعرہ لگ گیا تو ذرا سی بدمزگی سے بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ دوسرے گروپ کی رائے کے مطابق عمران خان کی حکومت کی راہ میں کسی قسم کے روڑے اٹکانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کی بدانتظامی اور معاشی منصوبہ بندی کا جو ابتر حال ہے اس کی وجہ سے یہ حکومت خود ہی کسی دن دھڑام سے گر پڑے گی۔ اس حکومت سے انتقام کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں حکومت کرنے دی جائے تاکہ جب وزیر خزانہ کے حسب خواہش ’’عوام کی چیخیں‘‘ نکلنا شروع ہو جائیں تب احتجاج کیا جائے، اِس سے پہلے کی ہوئی کوئی بھی کارروائی حکومت کو ’’سیاسی شہید‘‘ بنانے کے مترادف ہو گی۔ چند لوگ دبے لفظوں میں اس سوچ کے بھی حامل رہے کہ نواز شریف کسی طرح بھی جلد بازی میں ’’ڈیل‘‘ کر لیں تاکہ اقتدار میں ایک دفعہ پھر انکا حصہ بن سکے۔ اور اس ’’مبینہ ڈیل‘‘ کی راہ میں یہ مارچ حائل ہو سکتا ہے۔ ابھی بحث کا بازار گرم ہی تھا کہ اچانک ٹی وی اسکرینوں پر نواز شریف کا بیان جگمگانے لگا جس میں تیئس مارچ کے ’’یک جہتی مارچ‘‘ سے کارکنوں کو منع کر دیا گیا، جس کے ساتھ ہی ’’یک جہتی مارچ‘‘ کا جنون جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اس صورت حال سے چند بڑے واضح نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا سوشل میڈیا مریم نواز کی راجدھانی ہے۔ وہ جب چاہیں اسے متحرک کر سکتی ہیں۔ دوسرا حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن بھی اب انکی تباہی کے راستے میں حائل نہیں ہونا چاہتی، تیسرا( ن) لیگ کے لیڈران کی رائے مختلف ہو سکتی ہے مگر نوازشریف کا ساتھ چھوڑنے کو ابھی بھی کوئی تیار نہیں اور چوتھا یہ کہ تمام تر اختلافات، الزامات اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود پارٹی میں ابھی بھی حتمی اور اٹل رائے نواز شریف کی ہی ہے۔

تازہ ترین