• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افروزہ

آج معاشرے کا ہر فرد مہنگائی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ گویا، اس نے ایک آسیب کی طرح سب کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہو۔ لیکن کیا کبھی ہم میں سے کسی نے سوچا کہ مہنگائی تو دن بدن بڑھتی ہی جائے گی، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا اقدامات کریں۔ ایک خاتون خانہ کی یہ بھی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سلیقے اور سمجھداری سے اس مسئلے کا ڈٹ کر مقابلہ کرے، خواتین اپنی آمدنی کے حساب سے گھر کا بجٹ بنائیں اور کوشش کریں کہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچت ضرور کریں۔خوراک انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے لیکن اس پر بھی سوچ کر خرچ کریں، اگر ایک وقت گوشت یا مچھلی کا استعمال کر رہی ہیں، تو دوسرے وقت دال، سبزی پکا لیں،اکثر خواتین کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہمارے بچے سبزی نہیں کھاتے، اگر انہیں بچپن سے سبزیاں کھانے کی عادت ڈالیں تو یقیناً اس پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ بچوں کو اسکول ،لنچ باکس کے لیے اپنے ہاتھ سے بنے برگر، کباب وغیرہ دیں، جو باہر سے خریدی گئی اشیاء کی نسبت کم خرچ بلکہ صاف ستھرے بھی ہوتے ہیں۔ امیرخواتین تو امیر اب تو متوسط طبقے کی خواتین کو بھی دیکھا ہے کہ مہینے میں پانچ چھ مرتبہ افراد خانہ کے ساتھ تفریح کے لیے نکلتی ہیں اور رات کا کھانا کسی ریستوران میں کھا کر آتی ہیں۔اس شوق کو اگر ختم نہیں تو کم کر دیںایسا کر کے کچھ نہ کچھ ضرور بچا سکتی ہیں۔

ایک طرف تو خواتین مہنگائی کا رونا روتی رہتی ہیں، تو دوسری طرف گھر کے تقریباً تمام کام ماسیوںکے سپرد ہوتےہیں۔اگر تھوڑا بہت کام خود بھی کر لیا کریں، تو کچھ بچت یہاں سے بھی ہو جائے۔

نمود و نمائش کا یہ حال ہے کہ ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں لگا رہتا ہے، جس کی وجہ سے بہت سی رقم فضول کاموں پر خرچ ہوتی ہے۔ اکثر گھرانوں میں بچوں کے ہاتھوں میں ہر دو تین ماہ بعد ایک نیا موبائل ہوتا ہے۔ اور والدین ڈھٹائی سے یہ بات کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ظاہر ہے ہم کماتے ہی ان کے لیے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ انہیں کسی قسم کا کوئی احساس کمتری ہو۔ اپنے بچوں کو ہر نت نئے فیشن کے کپڑے، کھلونے اور اشیاء فراہم کرنا والدین نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے، یہ غلط ہے ، اس سے اجتناب کریں۔

اکثر مائیں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بچوں کو ٹیوشن پڑھنے بھیجتی ہیں یا گھر پرٹیوٹر کاانتظام کرتی ہیں، اگر وہ اپنی کچھ غیر ضروری سرگرمیاں محدود کر لیں اور یہ وقت بچوں کی تعلیم و تربیت پر وقف کریں تو اس سے نہ صرف پیسے کی بچت ہو گی بلکہ بچوں کی تربیت میں بھی خاصی بہتری آئے گی۔

عید، تہوار کی آمد پر اگر تمام افراد خانہ کے کپڑے ایک ہی مہینے میں خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو عید سے دو تین ماہ پہلے سے اپنی بچت میں سے کبھی بچوں کے تو کبھی اپنے اور میاں کے اور کبھی دیگر افراد خانہ کے کپڑے بنوا لیں۔ اس طرح عید آنے تک تمام افراد خانہ کی عید کی تیاری بہ آسانی مکمل ہو جائے گی۔ جب تک چادر دیکھ کر پائوں پھیلاتی رہیں گی ،ہرگز تنگ دستی و مفلسی کا شکار نہیں ہو ںگی، نہ ہی ہر وقت مہنگائی ،مہنگائی کا راگ الاپنا پڑے گا ۔

تازہ ترین