• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورت کے لئے ایک اور چیلنج اعلیٰ تعلیم میں عدم توازن

عابدہ فرحین

درج ذیل مضمون میں ہم اعلی تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحان میں مردوں اور عورتوں کے تناسب میں عدم توازن،اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان,اس نقصان سے معاشرے کو بچانے کی تدابیراور اس میں اپنے کردار پر بات کریں گے

پاکستان کی ستّر سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ترقی کی راہ میں جو رکاوٹیں نظر آتی ہیں ان میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہمارے معاشرے کا افراط وتفریط کا شکار ہونا بھی ہے۔ جب تک ہم ایک ذمہ دار قوم کی طرح بغیر کسی دباؤ کے اپنی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق فیصلے اور طرزِ عمل نہیں اختیار کریں گے اس وقت تک ترقی کا سفر طے کرنا مشکل ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارے معاشرے میں عورت (جو کسی بھی معاشرے کا کلیدی کردار ہے) کے متعلق مختلف تصوّرات پائے جاتے ہیں، تاہم گذشتہ دو دہائیوں سے اس رجحان میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ اگرچہ دیہات میں صورتحال کافی گھمبیر ہے، لیکن شہروں میں تعلیم کے باعث اور کچھ گلوبل ایجنڈے پر عمل درآمد کے دباؤ کی وجہ سے کافی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب پہلے کی نسبت عورت کو نہ صرف جلد انصاف ملنے لگا بلکہ اس کے حقوق کا شعور بھی بیدار ہوا ہے، اس کے مسائل کو اہمیت ملنے لگی اور اس کے لئے تعلیم اور روزگار کے مواقعوں میں بھی کشادگی پیدا ہوئی ہے۔

الحمداللّہ یہ سب کچھ خوش آئند ہے لیکن اہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا معاشرہ عورت کو ایک استحصال سے نکال کر دوسرے استحصال کی طرف دھکیل دے،مستقبل کے منظر نامے پر نظر ڈال کرسوچنا چاہئے کہ ہم کیا کریں کہ عدم توازن کا شکار ہوئے بغیر ترقی کا سفر باآسانی طے کیاجاسکے اور اس کے لئے ہم خودبھی بحیثیت فرد یا گروہ اپنافعال کرداراداکرسکیں، ریا ستی سطح پراب اعلی تعلیم کے میدان میں طلبہ و طالبات کو یکسا ں موا قع حا صل ہیں ۔اس وقت ملک میں بشمو ل کشمیر اور گلگت اعلیٰ تعلیم کے لئے 187 یونیورسٹیاں کا م کر رہی ہیں بلکہ خوا تین کی 10علیحدہ یو نیو ر سٹیا ں ہو نے کے با عث ان کو مزید موا قع حا صل ہیں۔یہ نظر یہ اب کسی حد تک پر انا ہو چکا ہے جب کہا جا تا تھا کہ، لڑ کیو ں کو پڑھ لکھ کر کیا کر ناہے۔ معا شرے کو اعلیٰ تعلیم یا فتہ خوا تین کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اعلی تعلیم یافتہ مردوں کی۔ اعلیٰ تعلیم فر د کے علم و ہنر،وسیع النظری اور کا م کر نے کی استعداد میں اضا فہ کر تی ہے اور خوا تین خوا ہ وہ گھر کی ذمہ دا ریا ں سنبھا لیں،بچو ں کی نگہدا شت کر یں یا با ہر نکل کر کو ئی کا م کر یں ہر جگہ یہ صفا ت ان کی صلاحیتوں میں چا ر چاند لگا دیتی ہیں، نہ صرف گھر یا تعلیم اور طب جیسے میدا نو ں میں ہی خوا تین کی ضرورت ہے بلکہ خا تو ن صحا فی۔خا تو ن قا نون دان خاتون ما ہر نفسیا ت۔ حتی کہ فو رسس اور سکیورٹی، ریسرچ،سائنس سو شل سا ئنس اور اس جیسے اور بہت سے شعبو ں میں خوا تین کی مو جو د گی کے بغیر گزا رہ ممکن نہیں۔ آج تقریباََ تما م ہی میدا نو ں میں جس طر ح خوا تین کا کر دار ابھر کر سا منے آیا ہے اس سے امید کی جا تی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مسائل پرقابو پالیں گی بلکہ معاشرے کی تعمیر وترقی میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں گی۔

اس حو صلہ افز اء پہلو کے سا تھ ساتھ ایک گھمبیر مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے جومستقبل کے منظر نا مے کی ایک خو فنا ک تصویر کشی کرتا ہے،وہ یہ کہ ہما رے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبا ء و طالبات کا تنا سب ،عدم توا زن کا شکا ر ہے۔ہما رے ہا ں لڑکیو ں میں محنت،احسا س ذمہ داری اور آگے بڑ ھنے کا جذبہ نسبتاََ زیا دہ پا یا جا رہا ہے جبکہ دوسری جا نب افسو س نا ک صورتحا ل یہ ہے کہ مردوں کے آگے بڑھنے کے را ستے میں کو ئی طبعی رکا وٹ مو جو د نہیں ہے مگر اس کے با وجو داعلیٰ تعلیم میں ان کا گرا ف تیزی سے نیچے گر رہا ہے جس کا اندا زہ امتحا نی نتا ئج اور اعلی تعلیمی اداروں کے دا خلو ں میں لڑکوں کے پیچھے رہ جا نے سے ہو تا ہے ۔

اعلی تعلیم میں مردوں اور عورتوں کا عدم تناسب ، زیا دہ تر یو نیورسٹیوں میں لڑکیو ں کی تعداد 70 فی صد تک پہنچ چکی ہے اور میڈیکل یونیورسٹیوں میں اس سے بھی زیادہ، جبکہ خوا تین یونیورسٹیو ں میں پڑ ھنے والی طالبا ت کی تعداد اس کے علا وہ ہے ،مزیداندا زہ درج ذیل شوا ہدسے بخو بی کیا جا سکتا ہے۔2013 اور2014میں کرا چی یو نیورسٹی میں لڑ کیو ں کی تعداد 73 فیصد جبکہ اس کے مقا بلے میں لڑکوں کاتناسب 27فیصدتھا اسی طرح این ای ڈی یو نیورسٹی میں 50,50فیصد کا تناسب تھا۔پنجا ب یونیورسٹی میں زیا دہ تر شعبو ں میں نما یا ں طو ر پر طا لبا ت کی بر تری دو تہا ئی سے زیا دہ رہی، اسی طر ح آغا خا ن میڈیکل کا لج میں مردوں اور عورتو ں کا تنا سب 50,50 فیصدپا یا گیا جبکہ سندھ میڈیکل یو نیورسٹی اور ڈاؤ میڈیکل یو نیورسٹی میں طا لبات کا تنا سب 70 اور71 فیصدرہا۔2017کے اعداد و شمار کے مطابق قاعداعظم یونیورسٹی میں ایم ایس سی میں طالبات کی تعداد1735 جبکہ طلبہ 1474 تھی ایم فل میں بھی طالبات کی تعداد زیادہ رہی۔پاکستان میڈیکل اینڈڈینٹل کونسل کے مطابق خواتین کا تناسب80 فیصد جبکہ مردوں کا20 فیصد ہے،جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق میڈیکل کی تعلیم میں طالبات کا تناسب 70فیصد ہے ہرسال طالبات کے تناسب میں اضافہ ہی ہورہاہے۔

مستقبل کے امکانات ، گویا کہ مستقبل کا نقشہ کچھ یوںنظر آرہا ہے کہ اچھے اور ذمہ دارانہ عہدوں پہ مردوں اور عورتوں کا تناسب عدم توازن کا شکار ہوگا مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد کافی زیادہ ہوگی، حتی کہ مردوں کے علاج کے لئے بھی عمومی طور پہ زیادہ تر خواتین ڈاکٹرمیسر ہوںگی، نیز گھریلو نظام چلانے کے لئے بھی عورت کی معاشی استعدادمرد سے زیادہ ہوگی،گویاکہ مستقبل میں معا شرے کا نقشہ الٹ پلٹ ہو تا نظر آتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ لڑکیو ں کی اعلی تعلیم کو تشویش کی نظر سے دیکھا جا ئے بلکہ اس کی تو حو صلہ افز ائی بہت ضروری ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑ کوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے حصو ل اور پیشہ ورا نہ تر بیت کے موا قعو ں میں اضا فہ کیا جا ئے۔ بصو رت دیگر تمام ملا ز متو ں پر با لخصو ص اعلیٰ عہدو ں پر ملا زمت کے معیار کو ذیا دہ تر خوا تین ہی پو ر ا کر یں گی اس طر ح معا شی ذمہ داریو ں کا بو جھ مرد کے کا ندھو ں سے کم ہو تا ہو ا عورت کے کا ندھو ں پر بڑھنا شروع ہو جا ئیگا،با لعموم دیکھا یہ گیا ہے کی ہما ری سو سائٹی میں لڑکیوں کو تو کسی حد تک یہ سکھایا جاتا ہے کہ ان کو دوسرے گھر جانا ہے۔ ان کو دوسروں کو اپنی زندگی میں جگہ دینے کی استعداد پیدا کرنی چاہئے، جبکہ لڑکو ں کی تربیت اپنی عملی زندگی اور با لخصو ص عا ئلی زندگی کے بارے میں نہ ہو نے کے برابرہوتی ہے۔ہماری سما جی اٹھا ن اور مردوں کی بیرون خانہ مصروفیات کے باعث معاشرتی ذمہ داریا ں عموما عورت ہی کے کاندھوںپہ ہوتیں ہیں اب جبکہ صورت حال یہ ہو کہ لڑکے تعلیم اور ہنر کے میدان میں پیچھے ہونے کے باعث معاشی میدان میں بھی پیچھے ہوں تو مستقبل میں عورت کے کاندھے پر سے بچو ں کو پیدا کر نے، پا لنے انکی تر بیت کر نے، گھرو ں اورخاندان کے نظا م کو چلا نے اور شو ہراور سسرال والوں کی خدمت وغیر ہ جیسے کام تو کہیں کم ہو تے نظر نہیں آرہے کجا کہ معا ش کی ذ مہ داری ریو ں کا بو جھ بھی اس کے کا ندھو ں پر بڑھنا شروع ہو جا ئے اور جو صنف نا زک بظا ہر تر قی کر تی نظر آرہی ہے دراصل وہ چکی کے دونو ں پاٹوں میں پس رہی ہو گی، گویاکہ وہ ایسی موم بتی کی مانندہوگی جو اپنے دونوں سروں سے جل رہی ہواور اس طرح وہ ایک اور استحصال کا شکار ہوجائے گی۔بر عکس اس کے ہما را دین تو مرد کو قوام کہتا ہے ۔یہ قوامیت اس بنیاد پرہے کہ وہ اپنے خاندان کا معاشی اور معاشرتی بوجھ اٹھانے کا ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے ،لہذا باوجود اس کے کہ عورت بھی اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ خدا کی بتائی گئی حدود میں رہتے ہو ئےبشمول معاشی میدان کے کسی بھی میدان کارمیں کام کر سکتی ہے اور باوجود اس کے کہ عورت کتنا بھی کماکر لا رہی ہو تب بھی مرد اپنی اس معاشی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔

کیر ئیر گا ئیڈنس کافقدان، ہما را دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ نہ صرف تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم تک بھی کسی کیر ئیر گا ئیڈنس اور کیر ئیر کو نسلنگ کا انتظا م نہیں ہے، جس کے با عث بلاتخصیض مردوزن اپنے دا ئرکا ر کو مدّنظر رکھے بغیر تقر یباََ سب ہی اندھا دھند صرف بھیڑ چا ل کا شکا ر ہوجاتے ہیں، اپنے میدان کا ر کے انتخا ب کے وقت دور اندیشی سے نہ یہ خود سو چتے ہیں اور نہ انہیں سجھا یا جا تا ہے کہ کو ن سے میدا ن کا ا نتخا ب ان کی فطری ذمہ داریو ں سے میل کھا تا ہے اور کو ن سا نہیں، اکثر خوا تین ان مضا مین کا انتخا ب کر لیتی ہیں جن کے اوقا ت کا ر ایسے ہو تے ہیں جو ان کی فطری اور لازمی ذمہ داری سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ا س طر ح یا تو وہ اپنی اس تعلیم کا استعما ل نہیں کر پا تیں اور اس پہ صرف کیا جانے والا وقت اور سرمایہ ضائع ہوتا ہے یاپھر دوہری محنت کے با وجو د بھی دونوں جانب حق ادا نہیں کر پا تیں اس دوہرے بوجھ سے نہ صرف طبعی اور نفسیاتی دبا ؤ کا شکا ر ہو تی ہیں بلکہ انکے بچے بھی مطلو بہ نگہدا شت سے محروم رہتے ہیں۔

درپیش چیلنج اور تقاضے،متذکر ہ با لا صو رتحا ل میں سر کا ری اور نجی شعبوں میں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کچھ فوری اور ایمرجنسی بنیادپراور کچھ دوررس نتائج کے حامل اقدامات اٹھا نے کی ضروت ہے

لڑکو ں کے لئے بھی متوازی ادارے کھولے جائیں۔

گرچہ یہ خوش آئندامر ہے کہ ہما رے ہا ں ویمن ڈیولپمنٹ کا شعو ر پچھلی دو دھا ئیو ں میں بہت اچھی طر ح اجا گر ہواہے ،حتی کہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں ویمن ڈویلپمنٹ کے باقائدہ شعبے بھی کھلے ہیں، مگرسا تھ میں مین ڈیو یلپمنٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اعلی تعلیمی اداروں میں مذید اضافہ بھی ضروری ہے تا کہ تمام اہل طلبا ء و طلبا ت کے لئے دا خلوں کا حصول ممکن ہوسکے۔ اگرچہ کہ خوا تین یو نیورسٹیو ں میں بھی اضا فے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ تناسب کے باوجود بھی اعلی تعلیم کی خواہش مند تمام طالبات داخلے حاصل نہیں کرپاتی ہیں لیکن خواتین یو نیورسٹیوں کے متوازی طلبہ کے لئے بھی یو نیورسٹیاں کھو لنا بہت ضروری ہیں تا کہ مقابلتا پیچھے رہ جانے کے باعث کوئی بھی طالبعلم اعلی تعلیم سے محرو م نہ رہے اورہر اہل طالبعلم کے لئے اعلی تعلیم کا حصول ممکن ہوسکے اور معا شرے کی گاڑی کسی عدم توازن کا شکا ر ہوئے بغیر آگے بڑ ھتی رہے۔حکومت اور پرائیویٹ سیکٹرمیں جو گروہ افراد اور ادارے اس میدان میں کا م کررہے ہیں ان کو ضرور اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ خصوصی طور پہ لڑکو ں کے لئے بھی متوازی ادارے کھولے جائیں۔

لڑکوں کی تعلیم میں عدم دلچسپی کی وجوہات ڈھونڈنے کی ضرورت

ہمارے ہاں تسلسل سے یہ عمومی شکائت پائی جارہی ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے تعلیم اور لکھنے پڑھنے میں بہت کم دلچپی لیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ نتائج میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں لہذا اس مسئلے کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہمارے شعبہء تعلیم کے ذمہ داروں کو بھی اور تعلیم سے متعلق تحقیقی اداروں کو بھی اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماراتعلیمی نظام لڑکوں کی توجہ مطلوبہ درجے میں اپنی جانب مبذول نہیں کرا پاتااوران کی بہت بڑی تعداد اس سے بیزار نظر آتی ہے۔

کیرئیرکونسلنگ کی ضرورت

اصولاًتواس رہنمائی کو ہمارے نظام تعلیم میں اوراسکولوں کی سطح سے ہی ہونا چاہئے،مگر جب تک ایسا نہیں اس وقت تک تعلیمی ،تربیتی اورتحقیقی کام کرنے والے اداروں کورضاکارانہ طور پرریفریشر کورسز تیار کرنے چاہئیںجن میں طالبعلموں کو نہ صرف ان کے رجحان،استعداداور ان کی معاشرتی ذمہ داری کے متعلق بھی آگاہی دی جائے تاکہ خاندان اور معاشرے میں ان کو اپنے کردار کا فہم ان کو اعلی تعلیم کے حصول کے وقت مضامین کے انتخاب میں مدد دے سکے۔

خواتین کے لئے لچک دار اوقات کار کی ضرورت

ملا زمت پیشہ خوا تین کی سہو لت اور تحفظ کے حوا لے سے جو قوا نین مو جو د ہیں ان پر عمل درآمد کو یقینی بنا یا جا ئے۔حکومتی اور نجی اداروں کی سطح پہ خوا تین کے لئے لچک دار اوقات کارکو ممکن بنا یا جا ئے تاکہ جو تعلیم یا فتہ خوا تین معا شی عمل میں اپنا حصہ ڈالنا چا ہتی ہیں وہ اپنے گھر اور با لخصو ص بچو ں کی نگہدا شت کے سا تھ اپنے کا م کو انجام دے سکیں۔

گھر سے کام کی سہو لیات فراہم کی جائیں

گھرسے کام کا تصور خصو صاََ خوا تین کے لئے بہت پر کشش ہے اور بہت سے تر قی یا فتہ ملکو ں میں یہ را ئج بھی ہے ہما رے ہاں معدودے چند ہی اداروں نے اس کو اپنایاہے لیکن اگر دیگر ادارے بھی اس کو ممکن بنا ئیں توخا ندا ن اور گھرا نے ٹوٹ پھو ٹ کا شکا ر ہو نے سے بچ سکیں گے۔

نئی نسل کی تعلیم و تربیت کو معاشرے کے سب سے عظیم کام کے طور پہ منوایا جائے

جو اعلی تعلیم یافتہ خواتین چھوٹے بچوں کی پرورش اور نگہداشت اور گھریلوذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہیں ان کے کام کو بھی ہمارے معاشرے میں ایک لائق تحسین کام کے طور پر تسلیم کرنا چاہئے اور ان کو یہ اعتماد دینا چاہئے کہ نئی نسل کی آبیاری کا جو کام وہ کررہی ہیں وہ دنیا کے ہر کام سے بڑاکام ہے۔

تعلیم برائے معاش کے بجائے حقیقی تصور تعلیم کو اجاگر کیا جائے

تعلیم کے اس تصور کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے کہ اعلی تعلیمی ڈگری کا استعمال صرف کوئی اچھی ملازمت،اعلی عہدہ یاکوئی بھرپور بزنس ہی ہو سکتا ہے۔اگر اعلی تعلیم یافتہ خاتون کی معاشی ضروریات بغیر ملازمت کئے پوری ہورہی ہیں توان کو اپنا وقت تعلیم اور صلاحیت معاشرے کی تعمیر و ترقی اور بھلائی کے کاموں میں راضاکارانہ صرف کرنا چاہئے کے تصور سے بالاترہوکرکسی سوشل نیٹ ورک اور کسی تھنک ٹینک کا حصہ بننا چاہئے اس حوالے سے ہمارا معاشرہ بہت پیاسا ہے یہاں ایسے افراد کی بہت ضرورت ہے جو کسی بھی ذاتی مفاداور معاشی فائدے سے بالاترہوکر اس قوم کی بھلائی اور بہتری کے لئے کا م کریں۔

تعلیمی وظائف میں اضافے کی ضرورت

اعلیٰ تعلیم کے حصول میں اہلیت(merit)اور ضرورت کی بنیادپہ وظا ئف میں اضافہ کیا جا ئے تاکہ جو افراداپنی معا شی ذمہ دا ری یامعاشی کمزو ری کے با عث میرٹ پہ ہوتے ہوئے ا علیٰ تعلیم نہ حا صل کر سکتے ہو ں ان کو بھی یہ موا قع میسر آسکیں

ترجیحات متعین کرنے کی ضرورت

شعبہء تعلیم کے تھنک ٹینک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنیے اعلی تعلیم کے شعبوں بلخصوص پیشہ و ارانہ تعلیم میں اپنی قومی ترجیحات کا جائزہ لے کر اس کے مطابق نشستوں کا تعین کرے نہ کہ جبری کوٹہ سسٹم کے ذریعے کسی ایک طبقے میں احساس محرومی اور ردعمل کا جواز پیدا ہو

اگر ہم نے آج اپنے معاشرے کی اس بدلتی ڈگر اوراس عدم تناسب کے نتیجے میں پیداہونے والے عدم توازن کا ادرا ک نہ کیا اور اس کے سد باب کی کوشش نہ کی تونہ صرف مرد نقصان میں رہیں گے بلکہ سب سے زیادہ عورت استحصال کا شکارہوجائے گی بہت دور نہیں بلکہ چند ہی سالوں میں معاشرے میں ترجیحات کاتوازن بگڑ چکاہوگاایسی صورت حال میں نہ صحت مند معاشرہ پیدا ہوسکتا ہے نہ کوئی قوم ترقی کے منازل طے کرسکتی ہے

اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کومتوازن اور صحت مند معاشرہ منتقل کرنا چاہتے ہیں تو ہم اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور اگر ہم کسی ادارے یا کسی گروہ کے ذمہ دار ہیں تو اس حیثیت میں بھی مستقبل میں درپیش چیلنجز کا آج ہی ادراک کریں اور اپنے معاشرے کی ترجیحات اور اقدارکو الٹ پلٹ ہونے سے بچانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائیں یہ نہ صرف قومی فریضہ ہے بلکہ دینی ذمہ داری بھی ہے اگر ہم اس مسئلے کو نظر انداز کر گئے تو آئندہ آنے والوں کے بس میں نہ ہوگا کہ وہ اسے درست کرسکیں ۔

تازہ ترین