• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بَھر میں ہر سال ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا کے زیرِاہتمام،17اپریل کو ’’ہیموفیلیا کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔ رواں برس مذکورہ فیڈریشن کی جانب سے جس تھیم کا اجراء کیا گیا ہے، وہ "Reaching out: the first step to Care" ہے۔ یعنی مریضوں تک رسائی ہی تحفّظ و علاج کی جانب پہلا قدم، پہلی پیش رفت ہے۔ بدقسمتی سے دُنیا بَھر میں خون کے عوارض، خصوصاً ہیموفیلیا میں مبتلا ایسے لاتعداد مریض موجود ہیں، جو علاج معالجہ تو دُور، تشخیص کی سہولت تک سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے سارا فوکس مرض اور مریض تک رسائی پر رکھا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر پانچ ہزار بچّوں میں سے ایک ہیموفیلیا کا شکار ہے۔ یہ دراصل خون کا ایک ایسا عارضہ ہے، جس میں خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ عمومی طور پر اگر کوئی خراش آئے یا معمولی نوعیت کی چوٹ لگ جائے، تو خون کارسائو محض چند سیکنڈز میں آپ ہی آپ بند ہوجاتا ہے، جب کہ اگر کوئی زخم یا چوٹ گہری ہو، تو اس مقام پر خون کا ایک لوتھڑا سا بن جاتا ہے، جو خون کے مزید بہائو کو روک دیتا ہے، لیکن اس مرض میں مبتلا مریضوں کا خون نہ صرف بیرونی چوٹوں اور زخموں کی صورت بہتا رہتا ہے، بلکہ جسم کے اندر بھی خون بہنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایسے مریضوں کا اگر کسی سبب آپریشن ہو، تو خون روکنا دشوار گزار ترین کام ہوتا ہے۔ قدرتی طورپر ہمارے خون میں کلوٹنگ فیکٹرز (Clotting Factors) پائے جاتے ہیں، جن کی تعداد بارہ ہے۔ اگر ان فیکٹرز میں سے کوئی ایک خصوصاً فیکٹر 8یا 9کم ہو، تو خون جمنے کا عمل نامکمل رہ جاتا ہے اور معمولی سا حادثہ بھی، محض خون بہنے کے سبب جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس مرض کو دو اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم ہیموفیلیا اے کہلاتی ہے، جو خون جمانے والے عنصر8کی کمی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے، جب کہ فیکٹر9کی کمی ہیموفیلیا بی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک صحت مند فرد میں فیکٹر 8اور 9کی نارمل مقدار 50تا 200آئی یو/ایم ایل( international units per ml of blood)ہوتی ہے اور اگر کوئی فرد ہیموفیلیا کا شکار ہو تو اس مقدار ہی کی بنیاد پر مرض کی شدّت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اگر خون میں کلوٹنگ فیکٹر کی مقدار ایک فی صد سے کم ہوگی تو یہ شدید ہیموفیلیا (severe hemophilia) کہلائے گا۔ مقدار کی ایک تا پانچ فی صد کمی درمیانہ درجہ (Moderate hemophillia)شمار کی جاتی ہے، جب کہ پانچ فی صد سے زائد مقدار کم درجے کے ہیموفیلیا (Mild hemophillia)کو ظاہر کرتی ہے۔

ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہوتا ہے اور تاحیات لاحق رہتا ہے۔ قدرتی طور پر خواتین ہیموفیلیا سے زیادہ متاثر نہیں ہوتیں۔ موروثی مرض کے اگلی نسل تک منتقل ہونے کا بھی ایک مخصوص طریقۂ کار ہے، جس کے مطابق ماں بیٹے میں اور باپ بیٹی میں مرض منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ چوں کہ مرض کی واضح علامت خون کا مسلسل بہنا ہے، تو عموماً مرض کی ابتدائی تشخیص اُسی وقت ہوجاتی ہے، جب پیدایش کے وقت نومولود کی ناف کاٹنے یا ختنے کے بعد خون کافی دیر بہتا رہے۔ اس عارضے کے شکار مریضوں کے جوڑ یا پٹّھے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور جوڑوں یا پٹّھوں کے اندر اگر خون کا یہ رساؤ جاری رہے تو وہ متوّرم ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً مریض کو چلنے پھرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیموفیلیا کی حتمی تشخیص کے لیے خون کا معائنہ، مرض کی قسم اور شدّت کا تعین کیا جاتا ہے اور علاج کی بات کی جائے، تو ترقّی یافتہ مُمالک میں فوری طورپر خون جمانے والے وہ فیکٹرز انجیکشن کی صورت دیئے جاتے ہیں، جن کی مریض کے جسم میں کمی واقع ہو۔ یہ ایک محفوظ اور مؤثر طریقۂ علاج ہے، لیکن بے حد مہنگا بھی ہے۔ اس لیے "Fresh Frozen Plasma"یا "Cryoprecipitate"کا طریقۂ علاج مستعمل ہے۔ تاہم، یہ دونوں طریقۂ علاج مؤثر ہیں، مگر اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ کہیں مریض انتقالِ خون سے ہونے والے عوارض مثلاً ہیپاٹائٹس بی، سی یا پھر ایڈز وغیرہ کا شکار نہ ہوجائے۔ اگر خاندان میں یہ مرض پایا جاتا ہے، تو خاص احتیاط برتنی چاہیے۔ مرض تشخیص ہونے کے بعد صرف ماہرِامراضِ خون ہی سے علاج کروایا جائے۔ مریض کے بازو یا گلے میں ایسا بیج یا کارڈ پہنا دیں، جس پرمرض اور اس کی شدّت سےمتعلق تمام معلومات درج ہوں، تاکہ کسی ایمرجینسی کی صورت میں وقت ضایع کیے بغیر فوری طبّی امداد مہیا کی جاسکے۔ مریض ایسے کھیل کھیلنے یا مشاغل اختیار کرنے سے گریز کریں، جن میں چوٹ لگنے کا خطرہ ہو۔ مثلاً کشتی، گھڑ سواری وغیرہ۔ اگر کبھی معمولی نوعیت کی سرجری کی بھی ضرورت پیش آئے۔ مثلاً دانت نکلواناہو، تو اپنے معالج کو مرض سے لازماً آگاہ کیا جائے۔ نیز، مریض کے اہلِ خانہ پر بھی یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ہیمو فیلک مریض کا خاص خیال رکھیں اور اسے بہت ہمّت اور حوصلے سے مرض کا مقابلہ کرنا سکھائیں۔

(مضمون نگار، کنسلٹنٹ ہیموٹولوجسٹ/اونکالوجسٹ ہیں اور آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہی ہیں،جب کہ اسی اسپتال کےشعبہ ہیموٹولوجی اونکالوجی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر بھی وابستہ ہیں)

تازہ ترین