• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اولاد کیلئے حفاظتی ٹیکوں سے بہتر تحفہ کوئی نہیں ہوسکتا

عکاسی: اسرائیل انصاری

عالمی ادارئہ صحت کی جانب سے ہر سال دُنیا بَھر میں اپریل کا آخری ہفتہ (24تا 30اپریل) ’’امیونائزیشن ویک‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ امسال کا تھیم "Protected Together: Vaccines Work" ہے۔ یہ تھیم کیوں منتخب کیا گیا، ویکسی نیشن کیا ہے، حفاظتی ٹیکے مختلف امراض سے کیسے محفوظ رکھتے ہیں، ہمارے مُلک میں اس حوالے سے کیا کام ہورہا ہے؟ فوائد، نقصانات، حفاظتی ٹیکوں میں نسل کُشی کی ادویہ کی ملاوٹ اور پولیو کے حفاظتی قطروں سے متعلق منفی پروپیگنڈے جیسی باتوں کی حقیقت کیا ہے؟ یہی سب کچھ جاننے کے لیے ہم نےمعروف ماہرِ امراضِ اطفال، آغا خان یونی ورسٹی اسپتال، کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کی سیکشن ہیڈ، اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر فائزہ جہاں سے تفصیلی بات چیت کی۔

ڈاکٹر فائزہ جہاں نے 2001ء میں بقائی میڈیکل کالج، کراچی سے طب کی ڈگری حاصل کی، جب کہ کالج آف فزیشنز سرجنز سے پیڈیاٹرکس میں 2007ء میں ایم سی پی ایس اور 2009ء میں ایف سی پی ایس کیا۔ 2011ء میں آغا خان یونی ورسٹی سے فیلوشپ پیڈیاٹرک انفیکشس ڈیزیزز (Fellowship Pediatric Infectious Diseases)اور ایم ایس سی ایپی ڈیمولوجی اینڈ بائیو اسٹیٹٹکس (Msc Epidemiology And Biostatistics) میں کیا۔ آغا خان یونی ورسٹی اسپتال کے ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ سے ملازمت کا آغاز کیا اور اب اسی شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر اور سیکشن ہیڈ تعینات ہیں، جب کہ امیونائزیشن سب کمیٹی آغا خان اسپتال کی چیئرپرسن، کلینیکل پاتھ ویز، چلڈرن اسپتال، آغا خان یونی ورسٹی کی ڈائریکٹر، انڈر گریجویٹ میڈیکل ایجوکیشن، ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کی ڈائریکٹر، ایتھکس ریویو بورڈ(اے کے یو) اور عالمی ادارئہ صحت کے گائیڈ لائن ریویو گروپ کی بھی ممبر ہیں۔کئی ایوارڈز بھی حاصل کرچُکی ہیں۔ ڈاکٹر فائزہ جہاں سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

اولاد کیلئے حفاظتی ٹیکوں سے بہتر تحفہ کوئی نہیں ہوسکتا
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س:حفاظتی ٹیکے کیا ہیں، یہ مختلف امراض کے خلاف کیسے جنگ کرتے ہیں؟

ج:جان لیوا یا معذور کردینے والے متعدد امراض سےتحفّظ کے لیے قوّتِ مدافعت کا مضبوط ہونا ناگزیرہے۔ چوں کہ کم زور مدافعتی نظام مختلف وائرسز، بیکٹریا وغیرہ سے جلد متاثر ہوجاتا ہے، تو انسانی جسم کی مدافعت بڑھانے کے لیے ان ہی وائرسز، بیکٹریا اور کچھ دوسرے اجزاء سےمختلف حفاظتی ٹیکے تیار کیے جاتے ہیں، جو مختلف انفیکشنز اور متعدی عوارض کے خلاف ڈھال کا کام کرتے ہیں۔ یہ حفاظتی ٹیکے انتہائی مفید ہیں، جس کی اہم مثال دُنیا بَھر سے چیچک اور طاعون کا خاتمہ ہے۔

س:امیونائزیشن مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے، ان کی اقسام، نیز سب سے عام طریقۂ کار کیا ہے؟

ج:امیونائزیشن کے طریقوں میں اورل (مُنہ کے ذریعے دی جانے والی)ادویہ، انجیکشنز اور اب دَورِ جدید میں اسپرے (ناک کے ذریعے )وغیرہ شامل ہیں۔ انجیکشنز بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو گوشت میں اور دوسرا کھال کے نیچے لگایا جاتا ہے۔ تاہم، ناک کا اسپرے ماڈرن ویکسین کہلاتی ہے، جو پاکستان میں کہیں بھی دستیاب نہیں۔ جب کہ عموماً حفاظتی ٹیکوں میں انجیکشن کا استعمال عام طریقۂ کار ہے۔

س:ایکٹیو (Active) اور پیسو (Passive) امیونائزیشن کیا ہے؟

ج:دیکھیں، ایکٹیو امیونائزیشن میں ویکسین انسانی جسم میں داخل کی جاتی ہے، تاکہ ہمارا جسم بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لیے ایکٹیو یعنی سرگرم کردار ادا کرسکے۔ زیادہ تر ویکسینزایکٹیو امیون ہی کے تحت کام کرتی ہیں، جب کہ پیسو امیونائزیشن میں تیار اینٹی باڈیز دی جاتی ہیں، جو بروقت اور جلد اثرکرتی ہیں۔ جیسے ٹیٹنس اور کتے کے کاٹنے کے بعد دی جانی والی ویکسین وغیرہ۔

س:عالمی ادارئہ صحت کی جانب سے ’’امیونائزیشن ویک‘‘ منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ج: چوں کہ ویکسینز کے استعمال کی بدولت مختلف امراض کے کیسز زیادہ تعداد میں سامنے نہیں آرہے تھے، تو عوام الناس میںحفاظتی ٹیکوں کی اہمیت کم ہونے لگی یا یوں کہہ لیں کہ بیماریوں کی روک تھام کے لیے حفاظتی ٹیکے لگوانے میں کمی آنے لگی، لہٰذا عالمی ادارئہ صحت نے یہ صورتِ حال بھانپتے ہوئے 2012ء میں باقاعدہ طور پر’’ویکسی نیشن ویک‘‘ منانے کا آغاز کیا ،تاکہ حفاظتی ٹیکوں کی افادیت و اہمیت بَھرپور انداز سے اجاگر کی جاسکے۔

س:امسال کےلیے "Protected Together: Vaccines Work" تھیم منتخب کیا گیا ہے، تو اس کے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج:اصل میں سوشل میڈیا پر ایک مخصوص گروپ کا کہنا ہے کہ ویکسینز کام نہیں کرتیں اور یہ پروپیگنڈا اس قدر کیا گیا کہ ترقّی یافتہ مُمالک میں بھی ویکسین کی اہمیت کم ہونے لگی،تو اس تھیم کے ذریعے عالمی ادارئہ صحت ہر سطح تک یہ پیغام عام کرنا چاہتا ہے کہ "Vaccines do Work"۔یعنی ویکسینز مرض کے خلاف کام کرتی ہیں اور تب ہی مؤثر ثابت ہوں گی، جب ویکسی نیشن درست اور بروقت کروائی جائے گی۔

س:پاکستان میں 1978ء سے متعدّی بیماریوں سے بچائو کی ویکسی نیشن جاری ہے، تو اس کے شیڈول کے حوالے سے بھی بتائیں؟

ج: 1978ء میں چند امراض سے بچائو کے ٹیکے میّسر تھے، لیکن اب دس جان لیوا بیماریوں سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیںاورعن قریب ہی ہر قسم کے ٹائی فائیڈ سے بچائو کی ویکسین بھی آنے والی ہے۔ رہی بات شیڈول کی، تو ای پی آئی کے جاری کردہ حفاظتی ٹیکا جات کے شیڈول کے مطابق پیدایش کے فوری بعد بی سی جی کی ویکسین جِلد میں لگائی جاتی ہے، جو تپِ دق سے بچائو کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیو سے محفوظ رکھنے کے لیے دو قطرے بھی پلائے جاتے ہیں۔ دوسری، تیسری اور چوتھی ویکسین، چھٹے، دسویں اور 14ویں ہفتے میں کی جاتی ہے، جس میں اوپی وی (Oral Polio Vaccine)، نیوموکوکل (Pneumococcal)، روٹا وائرس اور پینٹا ویلنٹ (Pentavalent) کی ویکسین دی جاتی ہے، جب کہ 14ویں ہفتے میں ان سب کے ساتھ آئی پی وی (Inactivated Polio Vaccine) ویکسین بھی دی جاتی ہے۔ پانچویں اور چھٹی ویکسین، جو 9اور 15ماہ کی عُمر میںدی جاتی ہے، خسرے سے بچائو کی ہے۔ ان حفاظتی ٹیکوں کی بدولت بچہ تپِ دق، پولیو، خنّاق، نمونیا، کالی کھانسی، کالا یرقان، گردن توڑ بخار، اسہال، تشنج اور خسرے سے محفوظ رہتا ہے۔ علاوہ ازیں، 2سال کی عُمر میں ٹائی فائیڈ سے بچاؤ کی ویکسین انجکیشن کی صورت گوشت میں لگائی جاتی ہے۔ آغا خان اسپتال میںبچّوں کو کئی اضافی ویکسینز بھی دی جاتی ہیں۔ ان میں ایک ایچ پی وی (Human Papilloma Virus) ہے، جس کی ایک خاصیت سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس ویکسین کا ایک ٹیکا کم ازکم آٹھ ہزار روپے کا ہے،جو 12سال کی عُمر کے بعد لڑکیوں کو لگایا جاتاہے۔ایچ پی وی ہر لڑکی کی ہونی چاہیے، مگر بدقسمتی سے مائیں اپنی بیٹیوں کو مہنگے سے مہنگا سوٹ تو دلوا دیتی ہیں، مگر ’’ویکسین بہت مہنگی ہے ‘‘ کہہ کر ٹال دیتی ہیں۔

س:کون سے ایسے امراض ہیں ،جن کا ویکسی نیشن کے ذریعے خاتمہ یا شرح میں بہت حد تک کمی ممکن ہے؟

ج: اس میں تو کوئی شک نہیں کہ دُنیا بَھر میں جتنی بھی بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگائے جارہے ہیں، ان کا شرحِ تناسب روز بروز کم ہورہا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے، تو یہاں گردن توڑ بخار، دو سال سے کم عُمر بچّوں میں انتہائی شدید قسم کے ڈائریا اور نمونیا جیسے خطرناک عوارض کی شرح میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔تاہم، پولیو کا خاتمہ نہ ہونے کی کئی وجوہ میں ایک وجہ مختلف علاقوں میں ویکسین دستیاب نہ ہونا بھی ہے۔ جیسے کراچی کے بعض علاقوں میںپولیو وائرس موجود ہے،لیکن وہاں کسی بھی سبب ویکسین دستیاب نہیں۔جب ان علاقوں کے رہایشی دوسری جگہ جاتے ہیں، تو یہ وائرس وہاں منتقل ہوجاتا ہے، تو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

س:حفاظتی ٹیکوں کے ضمنی اثرات معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں، جو جلد ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں، کیا کسی کیس میں اثرات شدید ہوسکتے ہیں؟

ج: جی، یہ اثرات شدید ہوسکتے ہیں، لیکن ان کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سو ملین بچّوں میں سے کوئی ایک بچّہ شدید مضراثرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ جیسے"Anaphylaxis"۔ اس میں بچّے کا بلڈ پریشر زیرو ہوکرزندگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔اسی طرح کالی کھانسی کے ٹیکے سے جھٹکے لگ سکتے ہیں۔تاہم، اس علامت پر قابو پایا جاسکتا ہے اور ایسے بچّوں کو دوبارہ یہ ٹیکا نہیں لگایا جاتا۔ واضح رہے کہ مِرگی کے شکار چاہے بچّے ہوں یا بڑے، اگر انہیں کالی کھانسی کا ٹیکا لگایا جائے،تو اس کے کوئی مضراثرات مرتّب نہیں ہوتے۔

س:ہمارے یہاں ویکسی نیشن کی سہولتوں کی کیا صورتِ حال ہے، ماہرین کی تسلّی بخش تعداد موجود ہے؟

ج:مُلک بَھر میں ویکسین کی کوئی کمی نہیں ، لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب والدین بچّے کی ویکسین کروانے کے لیے سینٹر جاتے ہیں، تو عموماً یہ جملہ سُننے کو ملتا ہے کہ ’’ویکسین موجود نہیں ہے‘‘۔ اصل میں جو فرد ویکسی نیشن کررہا ہے، اس کے ذمّے ویکسین کرنا ہی نہیں، بلکہ اس حوالے سے کئی اضافی کام ہوتے ہیں، جن کا اُسے کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔ حتیٰ کہ ویکسین لانے کے لیے سواری تو دُور کی بات، فیول کی مَد میں رقم بھی نہیں دی جاتی، تو اگر کسی سینٹر میں ویکسین دستیاب نہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے مُلک میں ویکسین موجود نہیں، بلکہ وہ کئی وجوہ کی بنا پر بروقت پہنچ نہیں پاتی۔ پھر دَورِ جدید میں ہمارا ایکسپینڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن یعنی ای پی آئی کمپیوٹر کی بجائے مینول طریقے (یعنی رجسٹر میں اندراج کرنا)سے کام کررہا ہے۔ اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ سسٹم غلط ہے۔ اصل میں اس نظام میں وقت کے ساتھ جدّت نہیں لائی گئی ہے۔ بحیثیت پاکستانی میرےلیے یہ قابلِ فخر بات ہے کہ پاکستان کا ہیلتھ کیئر سسٹم دُنیا کا نمبر وَن سسٹم مانا جاتاہے اور کئی مُمالک جیسے ترکی وغیرہ نے اسے فالو بھی کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے پاس یہ کاغذات کی حد تک محدود ہے، جب کہ ان مُمالک نے اس پر عمل کر دکھایا ہے۔علاوہ ازیں، پاکستان میں ’’عالمی ادارئہ صحت‘‘ اور ’’گاوی‘‘ یعنی گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ امیونائزیشنز (GAVI:Global Alliance for Vaccines and Immunization)) حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے خاصا کام کررہے ہیں۔گاوی نےدیگر مُمالک کی طرح پاکستان کے ساتھ بھی پارٹنر شپ کی ہے، جس کے مطابق حکومت ویکسی نیشن کی مَد میں جس قدر رقم خرچ کرے گی، گاوی اس سے دگنا فنڈ فراہم کرے گی۔ اگرچہ پاکستان اس معاہدے پر پورا نہیں اُتر رہا ہے، اس کے باوجود فنڈ فراہم کیا جارہا ہے۔ رہی بات ماہرین کی، تو بڑے شہروں میں 15سے 20ہزار بچّوں کےلیے ایک ڈاکٹر ہے، مگر گائوں، دیہات وغیرہ میں ماہرِ امراضِ اطفال کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہے۔

س:حکومت کاویکسی نیشن پروگرام کس حد تک مؤثر ہے، کیا ہم اپنے اہداف حاصل کر پا رہے ہیں؟

ج:دیکھیں، عالمی ادارئہ صحت کے میلینیم ڈیولپمنٹ گولزہم حاصل نہیں کرسکے۔ پھر 2025ء کا بھی ہدف حاصل ہوتا نظر نہیں آرہا ،کیوں کہ ایک تو نظام ِ صحت پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا جاتا، دوسرا بدقسمتی سےشعبۂ صحت ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا۔ حالاں کہ ہمارے پاس کئی بین الاقوامی ایجنسیز مثلاً یوایس ایڈ، امن اور ہینڈز وغیرہ ویکسی نیشن کے حوالے سے کام کررہی ہیں، لیکن جب تک حکومت مکمل طور پر اپنا کردار ادا نہیں کرے گی، ہر کوشش بے سود ہی رہے گی۔

س:حفاظتی ٹیکے اگر بچّوں کو مقررہ عُمر میں نہ لگ سکیں یا پھر ان کا کورس ادھورا رہ جائے، تو ایسی صورتِ حال میں والدین کو کیا کرنا چاہیے؟

ج: ای پی آئی کے شیڈول کے تحت ایک خاص عُمر تک کے بچّوں کی ویکسین کی جاتی ہے۔ اگر کوئی بچّہ عُمر کی یہ حدیں پار کرچُکا ہے، تو حکومت کی جانب سے ایسے بچّوں کے لیے ویکسین کی کوئی سہولت میسّر نہیں۔ تاہم، والدین ذاتی طور پر تجربہ کار ماہرِ امراضِ اطفال سے فوری رابطہ کرکے اس کے مشورے پر عمل کریں، تاکہ عُمر کی مناسبت سے ویکسین کروائی جاسکے۔

س:حکومتِ سندھ کی جانب سے ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ سے بچائو کے لیے بچّوں، بڑوں کی ویکسی نیشن مہم کا اعلان کیا گیا، مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی؟

ج: بات یہ ہے، جب بھی مُلک میں کوئی نئی دوا یا ویکسین آتی ہے، تو وہ کئی مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے اور سب سے بڑھ کر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی منظوری ضروری ہے۔ یہ ایک پورا سسٹم ہے اور ہمارا حکومتی نظام خاصا سُست ہے۔ اِن شاء اللہ جلد ہی یہ ویکسین مُلک بَھر میں دستیاب ہوگی۔بعض نجی اسپتالوں میں ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ ویکسین دی جارہی ہے، مگر وہ مرض سےمحض 60فی صد تحفّظ ہی فراہم کرتی ہے۔ اس کے برعکس سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی ویکسین 80فی صد تحفّظ فراہم کرے گی، لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ والدین تھوڑا انتظار کرلیں ،تو بہتر ہے۔

س: پولیو کے حفاظتی قطروں سے متعلق اب بھی بہت منفی پروپیگنڈا ہورہا ہے ،یہاں تک کہ کئی پولیو ورکرز کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے، حقائق کیا ہیں؟

ج: سیاسی پہلوئوں پر بات کیے بغیر صرف طبّی ماہر کی حیثیت سے یہی کہوں گی کہ پولیو کے قطرے مفید ہیں، مضر نہیں۔ اگر ہر سطح تک مثبت کوششیں جاری رکھی جائیں، تو بھارت کی طرح پاکستان بھی ’’پولیو فری مُلک‘‘ کہلائے گا۔ ہمارے پولیو ورکرز کسی طوربھی ہماری فورسز (پاک فوج )سے کم نہیں کہ انہوں نے اپنی زندگیاں دائو پر لگارکھی ہیں، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ انہیں تحفّظ فراہم کرنے کے لیےٹھوس اقدامات کرے۔

س:اب بھی نیم خواندہ افراد،اپنےبچّوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے میں خوف محسوس کرتے ہیں، تو انہیں ویکسی نیشن کی طرف راغب کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟

ج: مَیں سمجھتی ہوں کہ پاکستان میں خوف سے کہیں زیادہ ذاتی خصوصاً معاشی مسائل آڑے آجاتے ہیں، جن کے باعث والدین اپنے بچّوں کی ویکسی نیشن نہیں کروا پاتے۔اس ضمن میں کوئی ایسی پالیسی ترتیب دی جائے، جس کے تحت گھر گھر ویکسین کی سہولت میسّر آسکے۔

س:حفاظتی ٹیکوں، مختلف قسم کی ویکسینز سے متعلق ایک تصوّر عام ہے کہ ان میں فیملی پلاننگ کی ادویہ کی ملاوٹ کے سبب نسل کُشی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس میں کتنی حقیقت ہے؟

ج: ہمارے مُلک میں 1978ء سے ویکسی نیشن ہورہی ہے، اس کے باوجود پاکستان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے، تو یہ محض افواہ ہی ہے، جس کا حقیقت سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔

س:ہمارے یہاں حکومت سے منظور شدہ جس ویکسی نیشن پروگرام پر عمل درآمد ہورہا ہے، کیا عالمی پیمانہ بھی یہی ہے یا اس میں کچھ مزید امراض کی ویکسی نیشنز کا اضافہ ناگزیر ہے؟

ج: بلاشبہ ماضی کی نسبت اب حالات بہتر ہورہے ہیں، مگر مَیں سمجھتی ہوں کہ نئی ویکسینز کے اضافے سے کہیں زیادہ جو حفاظتی ٹیکے دستیاب ہیں،اُن کی ہر ایک تک رسائی ممکن بنائی جائے ۔ تاہم، سرکاری طور پر ٹائی فائیڈ، چکن پاکس، ہیپاٹائٹس اے اور ایچ پی وی کی ویکسینز کا اضافہ ضروری ہے۔

س: ویکسی نیشنز کے لیے آپ کیا تجویز کریں گی، سرکاری اسپتال بہتر ہیں یا نجی طور پر لگوانا مؤثر رہتا ہے؟

ج: مَیں تو یہی کہوں گی کہ سرکاری اسپتالوں میں فراہم کی جانے والی ویکسین کو فوقیت دی جائے، کیوں کہ ان کی کولڈ چین کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ کولڈ چین سے مُراد ویکسین بنانے کے عمل سے لے کر لگوائے جانے تک اس کا درجۂ حرارت برقرار رکھنا ہے۔ نیز جو نجی اسپتال بھی اس کولڈ چین کا خیال رکھتےہوں، وہاںسے بھی ویکسین کروانے میں کوئی حرج نہیں،البتہ عام کلینکس یا میڈیکل اسٹورز سے ویکسین خرید کرلگواناہرگز مناسب نہیں۔ اب یہی دیکھ لیں چکن پاکس کی ویکسین سرکاری طور پر دستیاب نہیں ، اس کے باوجود بعض کلینکس، نجی اسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز پر باآسانی مل رہی ہے،جو غیر قانونی طور پر مُلک میں لائی گئی ہےاوراس کی کولڈ چین کی کوئی گارنٹی نہیں۔ غیر قانونی طور پر دستیاب ویکسینزکے مضر اثرات تومرتّب نہیں ہوں گے، مگر یہ فائدہ مند بھی نہیں ہیں۔

س:کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: والدین کی آنکھوں میں اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے کئی خواب سجے ہوتے ہیں، جو اُسی صُورت پورے ہوسکتے ہیں کہ جب بچّہ ذہنی و جسمانی طور پر صحت مندہو اور کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار نہ ہو۔تو یاد رکھیے، ان حفاظتی ٹیکا جات کے استعمال سے آپ کا بچّہ جان لیوا امراض اور عُمر بَھر کی معذوری سے بچ سکتا ہے، لہٰذا اپنے بچّوں سے عملی محبّت کا اظہار ان کی ویکسین کروا کےکریں۔ میرا تو ماننا ہے کہ اولاد کے لیے والدین کی طرف سے جو سب سے بہتر تحفہ ہوسکتا ہے، وہ حفاظتی ٹیکے ہی ہیں۔

تازہ ترین