• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے یکم جنوری کو شائع ہونے والے کالم میں تحریر کیا تھا کہ اگر 2013ء میں ملکی معاملات کو چلانے کی کیفیت جوں کی توں رہی تو پاکستان کے معاشی زوال کی رفتار میں اضافہ ہونے کا امکان ہے اور تمام علامتیں اسی بات کی عکاس ہیں کہ پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری آتی نظر نہیں آتی۔ مگر ملکی سیاست کے ماحول میں تیز رفتار تبدیلی نے مجھے سال رواں میں وطن عزیز کی معیشت کے بدلتے ہوئے منظر نامے پر مزید قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی نومبر2008ء کی ’ریکوئسٹ فار اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ نامی دستاویز میں تحریر کیا ہے کہ ’2000ء کے آغاز سے2007ء کے وسط تک پاکستان کی میکرو اکنامکس کارکردگی جاندار تھی‘۔2007ء کے وسط میں سیاسی عدم استحکام کے ظہور اور اس کے بعد تیل اور غذا کی قیمتوں کے اعتبار سے لگنے والے بیرونی دھچکوں، سیکورٹی کی خراب صورتحال اور عالمی اقتصادی بحران نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ ان دھچکوں نے نئی حکومت کو اقتدار کی منتقلی اور2007-08ء کے بڑھتے ہوئے مالی خسارے کو پُر کرنے کے لئے مرکزی بنک کی عظیم فنانسنگ کے دوران پالیسی اقدامات کی عدم موجودگی کے ساتھ مل کر سست رفتار معاشی نمو، اونچی افراط زر اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں شدید ترین تنزلی کی راہ ہموار کی۔ اسی وجہ سے2008ء کو پاکستان کی معاشی تاریخ میں سب سے دشوار سال قرار دیا جا سکتا ہے مگر شدید ترین دشواریوں کے باوجود پاکستان کی معیشت دو وجوہات کی بنا پر غیر معمولی داخلی اور بیرونی دھچکوں کو جھیل گئی۔ اول 2008ء سے قبل معیشت نہایت استحکام کے ساتھ نمو پا رہی تھی اور اسی وجہ سے وہ دھچکوں کی چوٹ کو جذب کر سکتی تھی اور دوم عالمی مالیاتی ادارے نے2000-2007ء کی شاندار معاشی کارکردگی کے تناظر میں7.6بلین ڈالر کی نہایت غیر معمولی امداد فراہم کی۔2008ء میں مسند اقتدار پر فائز ہونے والی حکومت سے توقع تھی کہ وہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کا حل تلاش کرے گی مگر اس کے بجائے نئی حکومت معاشی مسائل سے نمٹنے میں قطعی نااہل ثابت ہوئی۔ جس دوران تمام دنیا اصلاحاتی اقدامات کر رہی تھی اور غذا اور تیل کی اونچی قیمتوں کو ایڈجسٹ کیا جا رہا تھا، پاکستان ایک بحران سے دوسرے بحران کی جانب ڈول رہا تھا اور جن کے ہاتھوں میں قوم کی پتوار تھی انہیں نہ منزل کا پتہ تھا اور وہ نہ ہی سمت کی شعور سے بہرہ ور تھے۔ شدید ترین معاشی بدنظمی اور اس کے ساتھ معاشی ٹیم میں بار بار کی جانے والی تبدیلیاں موجودہ حکومت کے طریق کار کا طرہ امتیاز بن گئیں۔ معاشی ماہرین حکومت کو بڑھتی ہوئی مالی بدنظمی، میکرو اکنامک کی خراب پالیسیوں اور خراب طرز حکومت کے نتیجے میں ناگزیر معاشی تباہی کے خطرے سے مسلسل آگاہ کرتے رہے مگر موجودہ حکومت ملکی تاریخ میں وہ پہلی حکومت تھی جس نے معیشت کے میدان میں جان بوجھ کر اور لاپروائی کے ساتھ ماہرین کے دانشمندانہ مشوروں کو نظر انداز کیا۔ موجودہ حکومت کی معاشی بدنظمی کے پانچ سالوں نے معیشت کی شکل کو ناقابل شناخت حد تک مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس بارے میں بیرونی اور داخلی آراء باہم متفق ہیں کہ پاکستان کی معیشت آج سے قبل کبھی بھی اتنے بُرے حالات کا شکار نہیں ہوئی اور یہ کہ ریاست کی رٹ تقریباً غائب ہو چکی ہے۔ یہ2012ء کے اختتام پر پاکستان کی حالت تھی۔ 2013ء کے ابتدائی دنوں میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں پاکستان کی معیشت درج ذیل اسباب کی وجہ سے مزید خطرناک تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اول ڈاکٹر فرخ سلیم…6جنوری…کے مطابق اسٹیٹس کو کے حامیوں اور اصلاح پسندوں کے مابین جنگ کی لکیر کھینچی جا چکی ہے اور کسی بھی وقت متوقع سیاسی ڈرون حملہ ناگزیر ہے۔ ان تبدیلیوں سے سیاسی عدم استحکام کی آتش مزید بھڑک اٹھے گی جو معاشی خوشحالی کے لئے سم قاتل ہے۔ دوم گزشتہ پانچ سالوں کے دوران معیشت کبھی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ موجودہ زیر عمل سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے ناگزیر ہے کہ حکومت، سیاسی قیادت اور پاکستان کے عوام معیشت پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی جنگ میں شمولیت کو ترجیح دیں گے۔ سوم انتخابات ’جیتنے‘ کی خاطر ریاستی وسائل کی بری طرح بندر بانٹ جاری ہے جس کے ملکی معیشت پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔ چہارم قرضوں کی ادائیگیوں کے ایک سنگین بحران نے اس وقت سر اٹھایا ہے جب ملک میں سیاسی جنگ کی بساط بچھ چکی ہے اور معیشت کو ایک طرف ڈال دیا گیا ہے۔ 2008ء میں خراب کیفیت کے باوجود ملکی معیشت غیر معمولی جھٹکوں کو برداشت کرنے کے قابل تھی مگر سال رواں میں پاکستانی معیشت مکمل طور پر تباہ حال ہے اور اس میں اب قطعی استعداد باقی نہیں کہ وہ سیاسی ہارا کاری (خودکشی) کی مزید کوششیں جھیل پائے۔ حکمراں اتحاد، حزب اختلاف اور پارلیمان میں فی الوقت غیر موجود تمام جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔ مگر انتخابات کس لئے ہو رہے ہیں؟ آج اس ملک کی معیشت میں سوائے ان کرنسی نوٹوں کے کچھ بھی نہیں بچا ہے جو مرکزی بنک کے پرنٹنگ پریس میں ہیں۔ سیاسی قائدین کو اس بات کا قطعی اندازہ نہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے کے بعد انہیں کس طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔ کیا وہ آئی ایم ایف کی سپورٹ کے بغیر ملک چلا سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا وہ آئی ایم ایف سے امداد کی درخواست کرنے کو تیار ہیں؟ اگر ہاں، تو کیا وہ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد مشکل ترین فیصلے کرنے پر آمادہ ہیں؟ داخلی محصولات کی گردش میں اضافہ حکومتی قائدین کے لئے سب سے اہم چیلنج ہو گا۔ کیا وہ زرعی آمدنی کو براہ راست ٹیکس کے دائرے میں لانے، ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ، ود ہولڈنگ ٹیکس نظام کو بہتر بنانے، متعدد سروسز کو ٹیکس کے دائرے میں شامل کرنے، صوبائی ٹیکس میں بہتری لانے اور بہترین اقتصادی نظم و نسق کے لئے نئے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لئے تیار ہیں؟ کیا وہ اخراجات کو کنٹرول کرنے اور گردشی قرضے، دم توڑتے پی ایس ایز اور توانائی کے بحرانات وغیرہ کے مسائل کو نمٹانے کے لئے تیار ہیں؟ سب سے بڑھ کر کیا وہ مالی نظم و نسق برقرار رکھنے کے لئے آمادہ ہیں؟ کیا وہ اپنا ہوم ورک کر چکے ہیں؟ کیا ان کے پاس ایک اہل معاشی ٹیم ہے یا وہ نام نہاد معاشی منتظمین پر انحصار کریں گے؟ یہ سب سوال حقیقی ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ چند ایک کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت نے ملک کی کرچی کرچی معیشت کو بحال کرنے کے لئے ہوم ورک نہیں کیا ہے۔ وہ سب معیشت کی حالت سے بے خبر سیاست کی بازیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اس طرح قوی امکان یہی ہے کہ2013ء میں بھی معیشت کو ترجیح نہیں دی جائے گی اور معیشت کی رگوں سے خون مزید رفتار کے ساتھ بہتا رہے گا۔ کوئی بھی واحد جماعت تنہا حکومت بنانے کے قابل دکھائی نہیں دیتی اور اسی وجہ سے ایک اتحادی حکومت کی تشکیل ناگزیر حقیقت ہے۔ چونکہ ایک اتحادی حکومت میں معاشی نظم و نسق کا تصور محال ہوتا ہے اس لئے معیشت کو بدستور مہلک نتائج کا سامنا رہے گا۔ 2013ء پاکستان کی معیشت کے لئے 2008ء سے مختلف ہو سکتا ہے۔ خدا کرے اس ملک کو اپنی نجات کے لئے دیانتدار، پُرعزم اور محب وطن رہنما میسر آ جائیں!
تازہ ترین