• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیگی دور کی چوری، مس مینجمنٹ موجودہ حکومت میں بڑھ چکی، تجزیہ کار

کراچی(جنگ نیوز)معاشی تجزیہ کار فرخ سلیم نے کہا ہے کہ حکومت نے معاشی پالیسی اور اینٹی کرپشن کو مکس کر دیا ہے،بہت سے سیکٹرز میں لگی ہوئی آگ ن لیگ لگا کر گئی تھی، ن لیگ کے دور کی چوریاں اور مس مینجمنٹ موجودہ حکومت میں بڑھ گئی ہے،حکومت سیاسی نیت رکھتی ہے لیکن قابلیت کا شدید فقدان ہے، موجودہ حکومت میں مفادات کا تضاد بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سینئر صحافی مہتاب حیدر اور رانا شہباز بھی شریک تھے۔مہتاب حیدر نے کہا کہ مس مینجمنٹ کرپشن سے بڑا ایشو ہے احتساب کریں، نشانہ نہ بنائیں ورنہ پیسہ باہر چلا جائے گا،ملک کو اسٹیٹس کو سے نہیں چلایا جاسکتا ہے، وفاقی حکومت نے اٹھارہویں ترمیم کے باوجود ڈپلیکیٹ وزارتیں کیوں رکھی ہوئی ہیں۔شہباز رانا نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی اور ماضی کے مسائل مل کر اتنا بڑا مسئلہ بن گئے ہیں کہ کسی ایکشن کا نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے،حکومت اب ماضی کا ڈھنڈورا پیٹ کر آگے نہیں چل سکتی ہے، حکومت نے بیوروکریسی میں پختون اور پنجابی کی تقسیم پیدا کر کے بڑی غلطی کی ہے، ن لیگ کے ساتھ کام کرنے والے قابل بیوروکریٹس کو سائڈ پر کر دیا گیا، چیئرمین ایف بی آر اس عہدے کیلئے درست انتخاب نہیں ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ ستمبر اکتوبر میں ہی معاہدہ کرلینا چاہئے تھا۔ فرخ سلیم نے مزید کہا کہ عام آدمی صرف بیروزگاری اور مہنگائی سے سروکار رکھتا ہے، پی ٹی آئی حکومت کے نو مہینے میں گیارہ لاکھ نوکریاں ضائع ہوئیں جبکہ مہنگائی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، مہنگائی کی وجہ سے 41لاکھ مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آگئے ہیں، سرمایہ دار کو اتنا ڈرایا کہ وہ پیسہ لے کر بھاگ گیا، اینٹی کرپشن مہم نیب، ایف آئی اے اور کسی حد تک سپریم کورٹ نے چلانی تھی جبکہ معاشی پالیسی وزارت خزانہ نے بنانی تھی،معیشت سے متعلق پیچیدہ سوالات کا سادہ ذہنیت سے جواب دیا جاتا ہے، ڈالر کے ذخائر گرنے کا سوال ہو تو کہتے کہ پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر باہر سے لے آئیں گے یہ حکومت آئی تو 9 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر موجود تھے 9 ارب ڈالر قرضہ بھی لیا گیا، یہ ذخائر 18ارب ڈالر ہونے چاہئے تھے جو صرف 10.4ارب ڈالر ہیں، ایک عام گھرانے کیلئے اب پچاس ہزار روپے ماہانہ بھی ناکافی ہیں، بہت سے ایسے لوگوں کو ایسی جگہوں پر رکھ لیا گیا جبکہ ان کا اپنا کاروبار بھی وہی ہے، گردشی قرضہ جات کا علاج نکالنے کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس میں موجود لوگوں کا مفاد ہے کہ علاج نہ نکلے۔مہتاب حیدر نے کہا کہ معیشت کے سلوڈاؤن کے دوران نیب اور ایف بی آر کی کارروائیوں سے خوف پیدا ہورہا ہے، تمام بڑے کاروباری گروپوں کیخلاف انکوائریاں چل رہی ہیں ،کرپشن ایک ایشو ہے لیکن مس مینجمنٹ اس سے بڑا ایشو ہے، احتساب ضروری ہے لیکن ایسے کام نہ کریں جس سے معیشت کا پہیہ رک جائے بحیثیت قوم ہم سب کو ایکسپورٹس بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی۔شہباز رانا نے کہا کہ لوگوں کو احتساب کے نام پر ڈرایا جارہا ہے، 1992ء سے لے کر آج تک لوگوں کو معیشت میں قانونی طریقے سے بلیک منی پیدا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء کے تحت فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولا جاسکتا ہے جس میں کہیں سے بھی پیسہ ڈالا جائے یا دنیا کے کسی حصے میں پیسہ لے جائیں کوئی ادارہ سوال نہیں کرسکتا ہے۔شہباز رانا کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ کالا دھن ریئل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں جارہا ہے۔

تازہ ترین