• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا شماردنیا کے اہم زرعی ممالک میں ہوتا ہے، جو خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہے۔ وطنِ عزیز کو قدرت نے چاروں موسموں، صحرا، سمندر، پہاڑوں اور میدانی علاقوں سے نوازا ہے۔ پاکستان کی 25فی صد افرادی قوت زراعت و کاشت کاری کے شعبے سے وابستہ ہے۔ پنجاب و سندھ میں گندم، چاول ،کپاس اورآم کی سب سے زیادہ پیداوارہوتی ہے۔ پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے، جہاں آم وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جبکہ پھلوں کے معاملے میں خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان خود کفیل ہیں۔

اس صورتحال میں صحت بخش غذائوں کے حصول کے لئے غذائی سائنسدان (Food Scientist) کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے دیہات زرعی پیداوار کے لحاظ سے ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ جدید ساز و سامان پر مبنی زراعت سازی اور تحقیق کے لئے کئی زرعی دانش گاہیں موجود ہیں، جو آئے دن چاول، گندم، کپاس، آم، سیب اور دیگر پھلوں کی وسیع ورائٹی پیدا کرتی رہتی ہیں۔ تاہم دیہات میں عوام کی صنعت و خدمات کے شعبوں میں ملازمت کیلئے بڑھتی دلچسپی ہماری زرعی زمینوں کو ویران بناکر کلرکوں اور مزدوروں کی فوج پیدا کر رہی ہے۔ ہمارے خوبصورت سرسبز و کشادہ دیہات اور قصبے ویران ہو رہے ہیں۔ اس پریشان کن صورتحال میں غذائی سائنسدان ہمیں غذائی پیداوار کے دانشمندانہ استعمال کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔

آپ نے زرعی ماہرین تو بہت سنے ہوں گے لیکن جب معیاری و صحت بخش غذائوں اور پھلوں کے استعمال کی بات آتی ہے تو وہاں آپ کو غذائی سائنسدان کی ضرورت پڑتی ہے، جو آلودگی و جینیاتی غذائوں کے مضر اثرات کانبض شناس ہوتا ہے۔ قدرتی ماحول کے مطابق صحت بخش پیداوار کا سوال ہو تو غذائی سائنسدان غذا کی شکل اور زمین کی ادا دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ یہ زمین بارآور ہے یا پھر جعلی کھاد اور جینیاتی فصلوں سے بانجھ ہوگئی ہے۔

پاکستان میں غذائی سائنسدان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ وہ وفاقی و صوبائی زرعی محکموں، ریسرچ آرگنائزیشنز، ملٹی نیشنل اور مقامی فوڈ انڈسٹریز، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر فود ٹیسٹنگ لیبارٹریز، فوڈ ریگولیٹری اور سرٹیفکیٹ آرگنائزیشنز، فوڈ اتھارٹیز، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تحقیقی شعبے، اسمال بزنس ڈیویلپمنٹ ایجنسیاں، ڈیری ڈیویلپمنٹ سیکٹرز، ہوٹل انڈسٹریز، فوڈ اِنگریڈینٹ اور کنسلٹینسی فرمز کا لازمی و ناگزیر حصہ ہوتے ہیں اور ان کے لیے اسامیاں ہروقت موجود ہوتی ہیں۔ پاکستان میں فوڈ ٹیکنالوجی کا اِسکوپ ہو یا پھر دنیا بھر میں مذکورہ بالا جاب مارکیٹس، ہر جگہ غذائی سائنسدان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ غذائی سائنسدان صحت بخش غذائوں کی معتدل مقدار بناکر انسانیت کو بیماری سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ غذائی سائنسدان کی تجویز کردہ صحت بخش غذائیں مریض کو زہر خورانی کے اثرات سے بچا کر توانائی بحال کر کے اسے شفایاب کرتی ہیں۔

فوڈ کوالٹی کنٹرول میں پاکستان کے غذائی ماہرین کسانوں کے ساتھ مل کر صحت بخش غذا کو یقینی بناتے ہیں۔ پاکستان میں فوڈ ٹیکنالوجی کی ترویج سے غذائی سائنسدان کی اہمیت مسلم ہو گئی ہے۔ شیف جہاں مسالہ جات کی آمیزش سے کھانے کو ذائقہ دار بناتا ہے، وہیں غذائی سائنسدان خوراک کے اندر صحت بخش کیمیائی اجزا کی شمولیت سے نئی فوڈ پراڈکٹس سامنے لاتا ہے۔

ہماری خوراک کیمیکلز، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، فیٹس، مالیکیولز اور امینوایسڈز سے بنتی ہے۔ غذائی سائنسدان فوڈ کیمسٹری کا مطالعہ کرکے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ کتنے غذائی اجزاء کی شمولیت سے صحت بخش فوڈ پراڈکٹ کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔ وہ فطری و مصنوعی اجزاء پر کام کرتے ہوئے غذائوں کو صحت بخش اور ذائقہ دار بناتے ہیں۔ غذائی سائنسدان بننے کیلئے تسلیم شدہ کالج یا یونیورسٹی سے بیچلر ڈگری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ وہ کیمسٹری، مائیکرو بائیولوجی اور انجینئرنگ کا استعمال کرتے ہوئے غذا کی بوسیدگی کو روکتے ہوئے وٹامن، پروٹین، شکر اور فیٹ کنٹینٹ ملا کر صحت بخش فوڈ پراڈکٹ بناتے ہیں۔ غذائوں کی نفسیات اور جوہر کو جاننے کیلئے آپ ڈاکٹریٹ ڈگری بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ غذائی ماہر ہیں اور خوش قسمتی سے کاشتکاری کا بھی شغف رکھتے ہیں تو آپ اپنے کھیت اور لیبارٹری کے درمیان تعلق قائم کرکے نئی اصلاحات اور جدت کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو فیضیاب کرسکتے ہیں۔ کیریئر بلڈنگ کے حوالے سے پاکستان میں زراعت و صحت کی بہتر ہوتی صورتحال کے باعث اب ہمارے ہاں بھی فوڈ سائنٹسٹ گریجویٹ ہوکر نکل رہے ہیں، تاہم ابھی ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں کو اس ضمن میں عوامی شعور اُجاگر کرنے کے لئے اپنا کردار نبھانا ہو گا۔

تازہ ترین