• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ان دنوں انقلاب کے نام کو بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ استعمال وہ لوگ کر رہے ہیں جو دولتوں کے ڈھیر لگائے بیٹھے ہیں۔ انقلاب شعوری جدوجہد کا نام ہے جو دور و نزدیک کے سب ہی ممالک کی سیاسی، معاشی، تہذیبی اور سماجی زندگی کی ”کایا“ پلٹ دیتا ہے۔ یہ معیاری تبدیلی ہے جس میں منصفانہ دولت کی تقسیم اولین شرط ہوتی ہے۔ جیسے انقلاب فرانس نے قرون وسطیٰ کے تین استحصالی ستون ملوکیت، جاگیریت اور کلیسائیت ڈھا دیئے تھے۔ اس انقلاب کی لازمی شرط سماج کے ابھرتے ہوئے عناصر میں انقلابی شعور کی تربیت ہے۔ آج جو انقلاب کا نعرہ جمود کے حامی لگا رہے ہیں، ان کی گفتگو کا اسلوب اتنا عامیانہ ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان بند دماغوں نے عوام کو صرف بے وقوف بنا کر اپنی دولت کے انبار میں اضافہ کرنا ہے۔ کوئی سیاسی لیڈر ایسا نہیں جو کتاب دوست ہو اسی لئے کوئی انسان دوست بھی نہیں۔ انقلاب فرانس کی پشت پر بڑے بڑے ادباء، مصوّر اور دانشور تھے جن کی تحریروں نے لوگوں میں نظام بدلنے کی امید جگائی۔ ژاں، ژاک، روسو فرانس کے اہم دانشور تھے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ”سول سوسائٹی کا حقیقی بانی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے ایک زمین کے ٹکڑے کو چاروں طرف سے گھیرا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ زمین میری ہے۔ اگر کسی شخص نے اس گھیرے کو توڑ دیا ہوتا اور لوگوں کوخبردار کیا ہوتا کہ دیکھو اس فریب کی باتوں میں ہرگز نہ آنا کیونکہ زمین کسی ایک فرد کی نہیں ہے بلکہ زمین کا پھل سب کا ہے تو نسل انسانی کتنی جنگوں، کتنے قتل، کتنے سانحات، کتنی بربادیوں سے بچ گئی ہوتی“ لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ عصر حاضر میں پاکستانی معاشرے میں کتاب سے اس قدر دوری ہو گئی ہے جس سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ نئی نسل ربوٹ نہ بن جائے۔ حالت یہ ہے ہزاروں روپے کا کھانا کھا لیا جاتا ہے لیکن کتاب خریدنے میں لوگ دشواری محسوس کرتے ہیں۔
ظاہر ہے جو قوم مہنگے جوتے خریدنے میں فخر اور سستی کتاب خریدنے میں دقت محسوس کرے اس قوم کو کتابوں سے زیادہ جوتوں کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود یہ بات باعث طمانیت ہے کہ دنیا بھر کی99فیصد آبادی یہ سمجھتی ہے کہ جنگ برائیوں میں سب سے بڑی برائی ہے لیکن اسے تسلیم کر لینے سے جنگ کا خاتمہ تو نہیں ہو سکتا۔ اس طرح دنیا کی 95فیصد آبادی یہ تسلیم کرتی ہے کہ غیر منصفانہ دولت کی تقسیم بھی جنگ جتنی گھناؤنی برائی ہے لیکن دنیا بھر کے خوشحال طبقے ہی حکمران ہیں جو نظام بدلنے کی راہ میں حائل ہیں۔ جنگ ان تمام انسانوں کیلئے ایک چیلنج ہے جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے تاہم زندگی کے تلخ حقائق بہت سے عام کتابی علم کو بھی نابینا کر دیتے ہیں لیکن یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ بصیرت افروز بند آنکھوں سے وہ دیکھ سکتے ہیں جو جہالت میں ڈوبے ہوئے حلقے یا مفاد پرست کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ دنیا پر صدیوں سے ایک ایسا نظام مسلط ہے جو بنی نوع انسان کو ہلاکت خیزی اور تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ تو پھر دیکھنا ہو گا کہ غلطی کہاں ہے؟ جب تک ہم کوئی ایسا راستہ تلاش نہیں کرتے جس میں مستقبل کی جنگوں کا ہونا ممکن نہ ہو تو پھر ہم امن کا آغاز کر سکتے ہیں۔ برطانیہ کے عظیم فلاسفر برٹرینڈرسل اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ”جنگ ابلیسی درخت کا آخری پھول ہے“۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مروجہ نظام میں محنت کش انسان امن میں بھی روزگار شکم کیلئے دن رات ایک کرتا ہے لیکن وہ انسانوں کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ نابرابری کے نظام میں انسانوں کی اکثریت اکتا دینے والی محنت کرتی ہے لیکن اپنی آنے والی نسل کو بھوک، بیماری اور بے علمی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی تو پھر جنگ ابلیسی درخت کا آخری پھول ہی ٹھہری جس کی ہلاکت خیزیوں پر تشکیل نو اور بربادیوں دونوں پر خوب منافع کمایا جاتا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ جدید غلامی کے تحت تیسری دنیا کی محنت کش خواتین اکتا دینے والی محنت کرتے نہیں تھکتیں، انہیں یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب جوانی کی خوشیاں ان کے پاس سے گزر گئیں۔ دنیا بھر کے نوجوان جو جہالت اور دہشت گردی کے ماحول میں پرورش پا رہے ہیں ان کے لئے امن کی دنیا کو پانا ناگزیر بنا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب مٹھی بھر اہل ثروت کو یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ بنی نوع انسان کی اکثریت جاگ نہ جائے لہٰذا وہ مختلف ہتھکنڈوں سے ان کے اذہان کو توہم پرستی سے آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ انسان تمام زندگی معاشی جدوجہد میں مصروف رہتا ہے تاکہ جو اس کا حصّہ ہے، اسے ملے لیکن جو جن کا حصّہ نہیں ہے وہ سب کچھ ہڑپ کر رہے ہیں۔ مادّی اشیاء کو قبضے میں لینے کی خواہش بالادست طبقوں کی سوچوں پر حاوی رہتی ہے تاہم انسان میں کشادہ دلی اور تخلیقی قوت محرکہ بھی پائی جاتی ہے لیکن انسانی ہوس اس قوت پر مسلط رہی ہے جس نے بھیڑ کو بھیڑیا بنا دیا۔ چنانچہ انسان جنگ و جدل اور لوٹ مار کی طرف مائل رہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے ہارورڈ یونیورسٹی کے کتابی نابینا فلسفیوں نے اس پر زور دیا ہے کہ ”ہوس مثبت رویّہ ہے“ جب 2008ء میں عالمی مالیاتی انہدام ہوا تو نیوز ویک نے سرورق پر سرخی جمائی ”ہوس کی قیمت“ سوال یہ پیدا ہوتا ہے دنیا میں کوئی ایسی تحریک موجود ہے جو ہوس گیری کے نظام کے خلاف کام کر رہی ہو کیونکہ مزاحمتی تحریک کے بغیر عالمی امن قائم نہیں ہو سکتا اسی لئے کتابی امن سچّائی کو نابینا کر دیتا ہے۔ مزاحمتی تحریک ہی سے امن کے راستے اجاگر ہو سکتے ہیں جہاں سے منصفانہ نظام کی ازسرنو تشکیل ہو سکتی ہے لیکن عالمی اسلحہ کے بیوپاری ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ عالمی مزاحمتی تحریک بہت کمزور ہے اور یہ انسان کی کاہلی ہے لیکن انسان طبعاً کاہل اور کام چور واقع نہیں ہوا۔ انسان میں کام نہ کرنے کی تحریک دراصل نکمّے، دولت مندوں کو دیکھ کر ہوتی ہے جو خود ہل کر پانی نہیں پیتے، البتہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کے لئے اپنا خون، پسینہ ایک کرتے رہیں۔ یہ طبقے دنیا کو خون میں تر بہ تر دیکھنے میں اپنی دولت کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اسی لئے عظیم ناول نگار طلسطائی نے اپنا ناول ”وار اینڈ پیس“ لکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ ”انسانوں کی انسانوں پر فتح پانے کی ازلی خواہش ہے لیکن اس خواہش نے انسان پر انسان کی بالادستی سے جنم لیا ہے“۔ اگر ہر ایک کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ ملے اور طبقاتی نظام ختم ہو تو پھر جنگ کی ضرورت نہیں رہتی لیکن توہم پرست، تعصب اور نفرت کی بنیاد پر انسانوں کو جنگوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ ہزاروں سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنگوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا لیکن عالمی اجارہ دار ان جنگوں سے سرمایہ داری نظام کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ انسان اتنا باشعور کب ہو گا جب وہ جنگ سے نفرت کرے گا اور امن کے پھولوں کی مہک سے اس دنیا میں خوشحالی لائے گا۔ اس وقت تو یہ عالم ہے کہ بھوکا ہتھیاروں کو دیکھ کر رقص کرتا ہے۔اسی موضوع پر اپنی ایک نظم کی چند سطریں پیش خدمت ہیں:
کہہ رہے ہو کہ افلاس نے اس قدر مار ڈالا
کہ خالی پڑا ہے تنور
اور ہنڈیا میں کچھ بھی نہیں
پھر بھی یہ غم نہیں، رقص کرتے ہو کیوں
جوہر ی کالے ہتھیاروں کو دیکھ کر
یہ بھی کہتے ہو تم کہ ہیضے سے بیٹی میری گزشتہ برس چل بسی
نہیں تھا یہ بس میں کہ تم ڈاکٹر لے کر آتے شکستہ مکاں پر
بچا نہ سکے اپنی معصوم کو
پھر بھی یہ غم نہیں
رقص کرتے ہو کیوں؟ جوہری کالے ہتھیاروں کو دیکھ کر
تازہ ترین