• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2016ء میں Yoshi Nori نامی جاپانی سائنس دان کو کینسر کے علاج میں ایک انقلابی پیش رفت پر نوبل پرائز دیا گیا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ اس سائنس دان نے کینسر کے علاج کے لیے کوئی نئی دوا ایجاد نہیں کی، بلکہ ایک ایسی دریافت کی، جس سے کینسر کو روکا جاسکتا ہے اور اگر مرض لاحق ہو، تو اس کی بڑھوتری میں بہت حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ یوشی نوری، ٹوکیو کی یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی میں پروفیسر ہیں۔ اُن کی دریافت کو سیدھے سادے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان زیادہ دیر تک بھوکا رہتا یا فاقہ(Fasting)کرتا ہے، تو جسم کے خلیوں میں پُراسرار تبدیلیاں رُونما ہونے لگتی ہیں ۔ جب ان خلیوں کو باہر سے کوئی خوراک نہیں ملتی، تو وہ خود ہی ایسے خلیوں کو کھانا شروع کردیتے ہیں، جو گلے سڑے، خراب اور جسم کے لیے خطرے کا باعث ہوں۔ اسے عام فہم زبان میں (self eating)کہتے ہیں اور سائنسی اصطلاح میں یہ عمل ’’Autophagy‘‘ کہلاتا ہے۔ جاپانی سائنس دان کے مطابق، اگر انسان سال میں ایک مرتبہ 20سے27 دن تک 12سے 16گھنٹے بھوکا رہے، تو کینسر کا موجب بننے والے، گلے سڑے اور ناکارہ خلیے خود بہ خود ختم ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح صحت مند انسانوں میں کینسر کے امکانات، جب کہ کینسر کے مریضوں میں مرض کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل بیلجیئم کے ایک سائنس دان کو بھی 1974ء میں اسی شعبے میں انعام مل چُکا ہے، لیکن یوشی نوری کا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اس موضوع پر لیبارٹریز میں ٹھوس شواہد اکٹھے کیے اور 3ہزار سے زائد تحقیقی مقالے لکھے۔ اُنہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ جسم کا یہ ناکارہ سیلز کا کاٹھ کباڑ، کس طرح اور کیسے ٹھکانے لگتا ہے اور نئے سیلز کیسے وجود میں آتے ہیں۔

’’فاسٹنگ‘‘ ماضی سے حال تک

اگرچہ جاپانی سائنس دان کی اس دریافت نے طب کی دنیا میں ایک نئی سمت متعیّن کردی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس نظریے نے دنیا بھر کے ان مذاہب کے ماننے والوں میں بھی خوش گوار سی ہل چل پیدا کی ہے، جو صدیوں سے فاسٹنگ کرتے یا روزے رکھتے چلے آرہے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو، روزہ یا فاسٹنگ اس کی تعلیمات کا ایک لازمی جزو ہے اور عہدِ جدید کی سائنسی تحقیق اور پیچیدہ تجربات نے اس کی افادیت پر مُہرِ تصدیق ثبت کردی ہے، تو ان کا اظہارِ مسرّت ایک فطری بات تھی، بالخصوص اسلامی دنیا میں اس ریسرچ کا خوش دِلی سے خیرمقدم کیا گیا، جو 14سو سال سے ’’ماہِ صیام‘‘ جیسی نعمت سے سرفراز ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جاپانی سائنس دان کی یہ تحقیق کہ سال میں 20 سے26،27 دن تک فاسٹنگ (روزے رکھنا) بہت سی بیماریوں سے فطری شفایابی کا ایک بہترین وسیلہ ہے، اسلام کی زرّیں تعلیمات کی افادیت اور حقّانیت کی بہترین مثال ہے۔ دنیا بھر میں مخصوص وقت کے لیے کھانے پینے سے احتراز کو بالعموم فاسٹنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ اسلامی تعلیمات میں یہ’’روزے‘‘ سے موسوم ہے۔

عالم گیر روایات اور تعلیمات

’’فاسٹنگ‘‘ یا کھانے پینے سے رضاکارانہ احتراز تاریخِ انسانی میں شفایابی یا روحانیت کے حصول کا قدیم ترین وسیلہ اور دنیا کے ہر مذہب اور کلچر کا جزو ہے۔ یونانی فلاسفر، بقراط (370۔460ق۔م)کو جدید طب کا’’ باوا آدم‘‘ کہا جاتا ہے۔اُس کے علاج کا ایک اہم حصّہ فاسٹنگ اور سیب کا سرکہ تھا۔ وہ ایک جگہ لکھتا ہے’’بیماری کے عالم میں کھانا، بیماری بڑھانے کے مترادف ہے۔‘‘ افلاطون اور ارسطو بھی فاسٹنگ کے قائل تھے۔ اُن کے خیال میں فاسٹنگ ایک ایسا معالج ہے، جو ہر شخص کے جسم کے اندر موجود ہے۔ اکثر جانور جب بیمار ہوتے ہیں، تو وہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ یونانی فلاسفر یہ بھی کہتے تھے کہ’’ ذرا سوچیں !مقوّی غذائیں اور پیٹ بھر کھانا، آپ کو چاق چوبند کرتا ہے یا اس سے سُستی اور کاہلی طاری ہونے لگتی ہے۔‘‘یونانی فلسفیوں کے بعد آنے والے طبّی ماہرین نے کھانے سے محرومیStarvationاور Fastingمیں فرق بھی بیان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خوراک اور غذا سے محرومی میں اگر ایسے عوامل شامل ہوں، جن پر آپ کا بس نہ چلتا ہو، تو یہ خوراک سے محرومی کے زمرے میں آئے گا، جیسا کہ قحط زدہ مُلکوں میں ہوتا ہے، لیکن فاسٹنگ یہ ہے کہ آپ دانستہ طور پر، اپنی مرضی سے کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو کھانے سے محروم رکھتے ہیں اور آپ کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اس ’’فاسٹ‘‘ کو توڑنا کب ہے۔ رات کو8، 9گھنٹے کے تعطّل کے بعد صبح کا ناشتا، تمام دنیا میں Break Fast‘‘کے نام سے موسوم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ فاسٹنگ‘‘ اور’’اسٹارویشن‘‘ کے اس بنیادی فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح ڈائٹنگ بھی مختلف ہے اور فاسٹنگ کے زمرے میں نہیں آتی، کیوں کہ ڈائٹنگ میں بعض ادویہ اور کیمیکلز بھی استعمال کروائے جاتے ہیں، جو نقصان دہ ہیں۔

فاسٹنگ....عہدِ جدید کی لیبارٹریز تک

تبّت کے پہاڑوں کے دامن میں بیٹھے یوگی ہوں یا گنگا، جمنا کنارے آلتی پالتی مارے سادھو، غاروں میں روحانی سکون کے لیے براجمان عیسائی راہب ہوں یا مراقبے میں مصروف صوفیا، یہ بات طے ہے کہ ’’فاسٹنگ‘‘ کسی نہ کسی صُورت صدیوں سے مختلف مذاہب کا حصّہ ہے۔ اسلام نے چودہ سو سال قبل روزوں کی شکل میں فاسٹنگ کو ایک خُوب صورت شکل دے کر فرض قرار دیا، لیکن ماضی اور حال میں فرق یہ ہے کہ ’’فاسٹنگ‘‘ جو کسی زمانے میں محض عقائد کا ایک جزو تھا، اب عہدِ جدید میں پیچیدہ لیبارٹریز تجربات سے گزر کر اپنے ہمہ گیر فوائد کے ساتھ مجسّم حقیقت بن کر سامنے آیا ہے ۔ اب دنیا بھر کے طبّی ماہرین، معالجین اور سائنس دان اس کے گُن گا رہے ہیں، وہیں فارماسوٹیکل کمپنیز اور فوڈ سپلیمنٹس تیار کرنے والے ادارے، نئی تحقیقات کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ،فارماسوٹیکل کمپنیز کے لیے خطرے کی یہ گھنٹی سب سے پہلے روس میں سُنائی دی، جہاں نصف صدی پہلے’’فاسٹنگ‘‘ کے اسرار و رُموز پر سائنسی انداز میں تحقیق شروع ہوئی۔ مغرب اور امریکا برسوں اس خفیہ ریسرچ سے بےخبر رہے۔ یہ وہ دَور تھا، جب خود روس میں ایسے موضوعات پر ریسرچ ممنوع تھی، لیکن پھر بھی چند سَر پِھرے سائنس دانوں نے خفیہ طور پر اس کا بِیڑہ اٹھایا۔ اس تحقیق کا مقصد یہ تھا کہ انسانی جسم کس حد تک خوراک سے محرومی کا دبائو برداشت کرسکتا ہے، لیکن جب ریسرچ شروع ہوئی، توکئی مزید حیران کُن پہلو اجاگر ہوئے۔ روس ایک طویل عرصے تک ان تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا، جس کا مغربی سائنس دانوں کو علم نہ تھا، لیکن جب روس کے قلب میں واقع، سائبیریا کے ایک بڑے سرکاری اسپتال نے ’’فاسٹنگ‘‘ کو بہ طور سرکاری پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا، تو کئی ماہرین نے اس علاقے کا رُخ کیا، جن میں ایک یورپی صحافی خاتون، اینالونا بھی شامل تھیں۔ یہ خاتون صحافی کہتی ہیں’’ لاتعداد سنگین بیماریاں تہذیبِ نَو کا تحفہ ہیں، جس کی وجہ سے فارماسوٹیکل کمپنیز اور فوڈ سپلیمنٹس بنانے والوں کا ریونیو اربوں، کھربوں تک پہنچ گیا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر سائنس نے ایک ایسے مؤثر طریقِ علاج کو نظر انداز کر رکھا ہے، جو مختلف مذاہب اور اقوام میں صدیوں سے رائج ہے اور وہ ہے’’فاسٹنگ‘‘(یعنی خود کو رضاکارانہ طور پر ایک معیّنہ مدّت کے لیے خوراک سے محروم رکھنا )۔ مَیں نے یہ تو سُن رکھا تھا کہ روسی ماہرین نے اس شعبے میں بہت کام کیا ہے اور سائبیریا اس سلسلے میں بہت مشہور ہے، لیکن ان باتوں کی تصدیق کے لیے جب خود وہاں پہنچی، تو بعض حیرت انگیز حقائق کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں’’فاسٹنگ‘‘ کو پبلک ہیلتھ پالیسی کے طور پر اپنالیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے علاج معالجے کے لیے سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی ہے۔‘‘ خاتون صحافی نے اسپتال میں درجنوں ایسے مریضوں سے ملاقات کی، جو بلڈپریشر، سانس کی تکلیف، امراضِ قلب، جوڑوں کے درد، موٹاپے، ذیابطیس اور گنٹھیا وغیرہ میں مبتلا تھے، لیکن 21دن تک فاسٹنگ، یعنی خوراک سے اجتناب کے بعد صحت یاب ہوگئے۔خاتون صحافی نے لکھا’’ یہاں فاسٹنگ کے دَوران مریضوں کو ابتدائی 12دنوں تک صرف سادہ پانی(2گلاس روزانہ) پلایا جاتا ہے۔ ایک بہت بڑی لیبارٹری بھی قائم ہے، جہاں’’فاسٹنگ‘‘ کے دَوران جسم میں رُونما ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں کو جانچا، پرکھا جاتا ہے۔ مشاہدے سے معلوم ہوا کہ ایک ہفتے کے اندر مریض کا ادویہ پر انحصار بہت کم ہو کر بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق، گزشتہ 15برسوں میں 10ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا جا چُکا ہے۔ معالجین اور ماہرین نے نوٹ کیا کہ جب مریض’’فاسٹنگ‘‘ شروع کرتا ہے، تو ابتدائی تین دنوں میں بھوک اُسے بہت ستاتی ہے اور بیماریوں کی بعض علامتوں کم زوری، سَردرد، متلی وغیرہ میں بھی شدّت پیدا ہو جاتی ہے لیکن پھر یہ علامات بہ تدریج کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور جسم نئی کیفیت سے خود کو ہم آہنگ کرلیتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب جسم سے زہریلے اور فاسد مادّے ختم ہونے کے بعد مسلسل بہتری آنے لگتی ہے، سائنسی اصطلاح میں اسے’’ Detoxification ‘‘کہتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب بھوک لگنے اور باہر سے کوئی خوراک نہ ملنے پر صحت مند خُلیے، ناکارہ اور گلے سڑے خُلیوں کو اَزخود کھانا شروع کردیتے ہیں۔ روسی معالجین، فاسٹنگ کے بعد ہلکی پُھلکی غذا ایک متوازن انداز میں استعمال کرواتے ہیں۔ اس سارے عمل میں مریض میں یہ خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے کہ اگر وہ بھوک پر قابو پاسکتا ہے، تو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ماسکو کے ایک اسپتال میں ایک معمّر روسی ڈاکٹر نے کئی دہائیاں پرانے ایک واقعے کا ذکر کیا، جو آگے چل کر اس تحقیق کا سبب بنا۔ اُس نے کہا’’ یہ سب کچھ 1973ء میں اتفاقاً ہوا۔ پروسٹیٹ کا ایک مریض، ڈاکٹرز کے اصرار کے باوجود کھانا نہیں کھا رہا تھا، کیوں کہ اس کا دِل نہیں چاہ رہا تھا اور ڈاکٹر مُصر تھے کہ کم زوری دُور کرنے کے لیے کھانا ضروری ہے۔ آخرکار، ایک ماہرِ نفسیات، نکولائی نے ڈاکٹرز کو مشورہ دیا کہ مریض کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، چناں چہ ایسا ہی کیا گیا۔ مریض نے پندرہ روز تک صرف پانی پر گزارہ کیا۔ ڈاکٹرز نے دیکھا کہ مریض خود کو مسلسل بہتر محسوس کر رہا ہے۔ اس مریض نے عملاً مزید تجربات کی راہیں کھول دیں۔ اس کلیے کو جب دوسرے مریضوں پر آزمایا گیا، تو صحت یابی کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ ڈاکٹرز کو یقین ہوگیا کہ بیماری کے دَوران نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا یا کم زوری کے خوف سے زیادہ کھانا، شفایابی کے لیے ہرگز ساز گار نہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ بات مریض پر چھوڑ دینی چاہیے کہ اُسے کب، کس وقت اور کتنا کھانا چاہیے۔ نکولائی نے جب اپنی ریسرچ عام کی، تو ادویہ ساز کمپنیز اور فوڈ سپلیمنٹس بنانے والوں نے اس کی بہت مخالفت کی، لیکن نکولائی نے اپنی ریسرچ مشن سمجھ کر آگے پھیلائی، جو بعدازاں ماسکو اور سائبیریا کے کئی اسپتالوں میں علاج معالجے کا حصّہ بن گئی۔ نکولائی کا کہنا ہے کہ’’ ایک مخصوص عرصے تک فاسٹنگ کرنے، تازہ پَھلوں کو استعمال کرنے اور کم مقدار میں خوراک کھانے سے انسانی شخصیت میں بھی نکھار پیدا ہوتا ہے۔‘‘ وہ اب تک دَس ہزار سے زائد ذہنی اور جسمانی مریضوں کا علاج کرچُکے ہیں۔ اُنھیں فاسٹنگ کے دَوران گلوکوز لیول، کولیسٹرول، بلڈ شوگر اور انسولین کے لیول میں انتہائی مثبت تبدیلیاں نظر آئیں، جو ادویہ سے ممکن نہ تھیں۔ بعدازاں، روس کی اکیڈمی آف سائنسز نے بھی ان تجربات کی کام یابی کی تصدیق کردی۔‘‘

یورپ میں بھی......

یورپ کے طبّی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہاں روس سے بھی کہیں پہلے فاسٹنگ پروگرامز کے ذریعے امراض کا علاج معالجہ شروع ہوگیا تھا، چناں چہ آج انٹرنیٹ پر فاسٹنگ کلینکس کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ ان میں جرمنی کا قدیم ترین کلینک’’بچ انگر‘‘ بھی شامل ہے، جسے 1920ء میں ڈاکٹر بچ انگر نے قائم کیا تھا اور اب اُن کی چوتھی نسل یہ کلینک چلارہی ہے۔ڈاکٹر انگر نے فاسٹنگ کا ایک خاص طریقہ ایجاد کیا تھا، جس میں مریض خوراک سے مکمل طور پر منقطع نہیں ہوجاتا، بلکہ پانی، پَھلوں کے رَس اور لطیف غذائوں سے اُس کا علاج کیا جاتا ہے۔جرمنی کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ’’ جرمنی میں اب ایسے درجنوں اسپتال کُھل گئے ہیں، جہاں دنیا بھر سے موٹاپے، بلڈ پریشر، امراضِ قلب، ذیابطیس، جوڑوں کے درد، گھنٹیا اور دوسرے امراض میں مبتلا افراد آتے ہیں۔‘‘ جرمنی میں دوسرے نمبر پر’’ SCHROTH FASTIN CURE ‘‘کلینک ہے۔ جدید ترین سہولتوں سے مزیّن یہ کلینکس مساج کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ کئی کلینکس پر صرف پَھلوں سے علاج ہوتا ہے۔ ان تمام کلینکس کا بنیادی اصول فاسٹنگ ہی ہے، جس میں بھوکا رکھ کر جسم سے زہریلے مادّوں اور خلیوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ کلینکس زیادہ تر کاروباری ہیں، انٹرنیٹ اور اخبارات میں اس قسم کے اشتہارات عام ہیں ’’بوڈاپسٹ (ہنگری)، 14دن کی پانی کی فاسٹنگ کے ساتھ صحت یاب ہو جائیں‘‘،’’ پرتگال، 8 روز کی فاسٹنگ۔ جوس کے استعمال سے امراض دُور کیجیے‘‘، اسپین، 11 دن کی فاسٹنگ۔ یوگا ورزشوں کے ساتھ صحت مند رہیے۔‘‘غرض اِن دنوں پورا یورپ اس قسم کے پیکیجز کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے، لیکن ان پرائیویٹ کلینکس سے قطع نظر، جرمنی کے کئی سرکاری اسپتالوں میں ایک آدھ فلور فاسٹنگ کے لیے ضرور مختص کیے جاتے ہیں۔ 

ایک سروے کے مطابق، جرمنی کی 10سے 15فی صد آبادی کسی نہ کسی مرحلے پر فاسٹنگ طریقِ علاج کو ضرور آزماتی ہے۔ کولون کے ایک اسپتال میں ہر سال 2ہزار مریض علاج کے لیے آتے ہیں، جہاں 15 سے 25دنوں میں صرف پانی یا مکمل فاسٹنگ سے علاج کیا جاتا ہے۔ بعض مریضوں کو ان کی کیفیت اور حالت کے مطابق صرف جوسز اور پانی دیا جاتا ہے تاکہ ان کے جسم میں پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن) نہ ہونے پائے۔ زیورخ میں بھی ایک بہت بڑا کلینک قائم ہے، جہاں فاسٹنگ کے بعد بھی مریضوں کے لیے مخصوص اور متوازن غذا تجویز کی جاتی ہے۔ یورپ میں بھی ایسے کلینکس اور شفاخانوں کو فارماسوٹیکل کمپنیز کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے، لیکن جو لوگ فاسٹنگ سے صحت یاب ہوتے ہیں، وہ ان کے پروپیگنڈے، بالخصوص جسم میں کم زوری اور ڈی ہائیڈریشن کے دعووں پر یقین نہیں رکھتے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جسم کی اندرونی صفائی، زہریلے مادّوں کے اخراج ، معدے اور جگر کے آرام کے لیے فاسٹنگ سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔

پینگوئن پر تجربات

سائبیریا کی یخ بستہ سرزمین پر واقع اسپتال ہو یا یورپ کے کسی ترقّی یافتہ مُلک میں، فائیو اسٹار ہوٹلز کی مانند فاسٹنگ کلینکس یا پھر امریکا کے کسی بڑے اسپتال کی لیبارٹری ، سائنس دانوں اور طبّی ماہرین میں یہ سوال ہمیشہ زیرِ بحث رہا ہے کہ’’ کہیں جسم فاسٹنگ سے کم زور ہو کر امراض کو دعوت تو نہیں دیتا یا جسم میں پانی کی کمی سے ڈی ہائیڈریشن تو نہیں ہو جاتی‘‘، لیکن روس، یورپ اور امریکا میں ہونے والے تجربات اور لیبارٹری ٹیسٹس نے اس مفروضے کی نفی کر دی ہے۔ بالخصوص ،جاپانی سائنس دان کی حالیہ دریافت اور جسم میں شفایابی کے خودکار پُراسرار دفاعی نظام کے انکشافات نے ثابت کردیا ہے کہ یہ سب محض قیاس آرائیاں ہیں۔ قدرت نے انسانی جسم کو اتنی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں، جن کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صلاحیتیں ایمرجینسی کے وقت مزید اُبھر کر سامنے آ جاتی ہیں۔ قوّتِ برداشت کی ان صلاحیتوں کا مظاہرہ سائنس دانوں کو قطبِ شمالی میں رہنے والے ایک پرندے، پینگوئن میں نظر آیا، جس کا نر انڈوں پر مسلسل چار ماہ تک بیٹھا رہتا ہے، جب تک کہ اُس کی مادہ واپس نہیں آجاتی۔ سائنس دانوں نے اس ’’فاسٹنگ‘‘ کے دَوران اس کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا، تو ان میں کوئی خطرناک تبدیلی نظر نہیں آئی، کیوں کہ اس کا جسم ایک پُراسرار طریقے سے بدن میں موجود چربی کو استعمال کرکے اس کے گلوکوز لیول کو خطرناک حد تک گرنے نہیں دیتا۔ کچھ اسی قسم کے تجربات چوہوں پر بھی کیے گئے، جو بہت حوصلہ افزا تھے۔ پینگوئن اور خود انسانوں پر تجربات کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انسانی جسم کے لیے کم کھانا، اتنا خطرناک نہیں ،جتنا کہ زیادہ کھانا۔ اور مختلف تہذیبوں میں ہمیشہ سے زیادہ کھانا، دانتوں سے قبر کھونے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ مختلف جانوروں میں کھائے پیے بغیر زندہ رہنے کی جو صلاحیت پائی جاتی ہے، انسان اس سے کہیں زیادہ صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے اور خلاء میں ایک طویل عرصہ گزارنے والے خلا بازوں نے تو عملاً ثابت کردیا ہے کہ انسان میں حیرت انگیز قوّتِ برداشت پائی جاتی ہے۔ زمین، فضا اور سمندر میں آئے روز ایسی حیرت انگیز انسانی صلاحیتوں اور قوّتوں کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔ ہمارے جسم میں ہر آن خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ جاری رہتی ہے، جب کہ گلے سڑے خلیے بھی کوڑا کرکٹ کی طرح موجود رہتے ہیں، جنہیں صرف فاسٹنگ ہی سے ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ انسانی جسم کا یہ وہ پُراسرار نظام ہے، جو انسان کو صدیوں کے ارتقا کے بعد قدرت کی طرف سے ودیعت ہوا ہے۔ بعض جانوروں میں بھی یہ زبردست طریقے سے پایا جاتا ہے، جو مہینوں کھائے بغیر سوئے رہتے ہیں۔ جانوروں کی اکثریت ،جن میں چوہوں سے لے کر مکھیاں تک شامل ہیں، جب بیمار پڑتے ہیں تو اُن کی بھوک ختم ہو جاتی ہے اور وہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ اُن کی انتڑیوں کے خلیوں سے ایک خاص قسم کی شکر خارج ہوتی ہے، جسے’’FUCOSE ‘‘کہتے ہیں۔ اس عمل میں مضرِ صحت بیکٹریا خود بہ خود تلف ہوتا ہے اور جانور صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

کیموتھراپی اور فاسٹنگ

’’فاسٹنگ‘‘ پر ہونے والی ریسرچ میں اگرچہ پوری دنیا کے ماہرین نے دِل چسپی کا اظہار کیا ہے، لیکن اگر کسی نے اس سے عملاً فائدہ اٹھایا، تو یہ کیلے فورنیا ریسرچ لیبارٹری کے نوجوان بیالوجسٹ، ڈاکٹر لانگو ہیں،جنہوں نے ابتدا میں چوہوں پر تجربات سے ثابت کیا کہ کم خوراکی کے باوجود ان کی زندگی میں اضافہ ہوا۔ اُنہوں نے مصدّقہ رپورٹس سے یہ بھی ثابت کیا کہ فاسٹنگ سے زہریلے اثرات ختم ہو جاتے ہیں اور جسم کا خودکار مدافعتی نظام گلے سڑے خلیوں کے کوڑا کرکٹ کو کسی نہ کسی طرح ٹھکانے لگادیتا ہے۔ ان کی ریسرچ سائنٹیفک جرنل میں شایع ہوئی، جس کا نچوڑ یہ تھا کہ’’ فاسٹنگ سے انسان کم زور نہیں ہوتا، جیساکہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔‘‘ لاس اینجلس کے معروف کینسر اسپتال کے ڈاکٹرز نے ڈاکٹر لانگو کی اس ریسرچ کو بہت سنجیدگی سے لیا اور اسے مریضوں پر آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ اُنہوں نے کیموتھراپی کروانے والے 100مریضوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا۔ ایک گروپ کے مریضوں کو کیموتھراپی کے دَوران معمول کی طاقت وَر غذا دی گئی تاکہ اُن میں کم زوری نہ ہو، جب کہ دوسرے گروپ کو اس دَوران فاسٹنگ کرنے، یعنی صرف پانی پینے یا بہت ہی کم غذا کھانے کو کہا گیا۔ کیموتھراپی کے 5 سیشنز کے بعد معلوم ہوا کہ جن مریضوں نے اس عمل کے دَوران کچھ نہیں کھایا تھا، اُن میں دوسروں کے مقابلے میں واقعی بہتری دیکھی گئی۔ غذا نہ کھانے کے باوجود اُن میں کم زوری کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیموتھراپی کے ذیلی اثرات میں بھی کمی محسوس ہوئی۔ جب ایک مریضہ کا لاس اینجلس ٹائمز میں اس حوالے سے انٹرویو شائع ہوا، تو یہ انکشاف امریکا کی فارماسوٹیکل انڈسٹری اور فوڈ سپلیمنٹس بنانے والوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ لاس اینجلس میں لیبارٹری تجربوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فاسٹنگ کے دَوران انسانی خلیوں اور جینز میں ایسی تبدیلیاں اور ماحول پیدا ہوتا ہے، جن سے کینسر زدہ زہریلے خلیے نفرت کرتے ہیں اور جسمانی بھوک کے دَوران دوسرےخلیوں کی خوراک بن کر ختم ہو جاتے ہیں۔

جسمانی اعضا ء کو آرام

یورپ اور امریکا میں فاسٹنگ کے بارے میں ہونے والی ریسرچ سے قطع نظر، اسلام نے چودہ سو سال قبل مسلمانوں پر روزے فرض کرکے اُن کی حقّانیت اور صداقت پر مُہرِ تصدیق ثبت کر دی تھی۔ روزے دنیا بھر میں مستعمل ’’فاسٹنگ‘‘ کے مقابلے میں شفا یابی کا ایک ایسا خُوب صورت اور مؤثر وسیلہ ہیں، جن کا کوئی متبادل نہیں۔ معروف مذہبی اسکالر، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق ’’اسلام نے کائنات، کرّۂ ارض، سمندروں، پہاڑوں، انسانی جسم اور زندگی کے دوسرے گوشوں کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، آج سائنس کی روشنی میں صحیح ثابت ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح روزوں کے اسرار و رُموز بھی سائنس کی لیبارٹریز میں کُھلتے چلے آ رہے ہیں۔ حضورﷺ کے فرمان کہ ’’کھائو، پیو، لیکن اعتدال سے‘‘۔ اور یہ کہ ’’معدے کو ایک تہائی خوراک سے، ایک تہائی پانی سے اور ایک تہائی ہوا سے بھرو۔‘‘ نیز یہ کہ ’’جب تھوڑی سی بھوک رہ جائے، اُس وقت کھانے سے ہاتھ کھینچ لو‘‘ اور یہ کہ ’’کم کھانے میں راحت ہے۔‘‘ یہ سب فرموداتِ نبویﷺ ہماری صحت و تن درستی کے ضامن ہیں، جن پر آج سائنس بھی متفّق نظر آتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ’’ پانی ہمیشہ تین گھونٹ میں اور بیٹھ کر پیو۔‘‘ اور آج کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے سے کئی امراض لاحق ہوتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خیال میں روزوں کے تین طرح کے فوائد ہیں، جسمانی، ذہنی اور روحانی۔ سب سے بڑا جسمانی فائدہ تو یہ ہے کہ معدے، جگر، لبلبے، گُردوں اور دوسرے اعضاء کو مسلسل سال بھر کام کے بعد ایک مہینے کے لیے کچھ آرام مل جاتا ہے، جس سے ان میں نئی جان پیدا ہو جاتی ہے۔ صحت مند خلیوں کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے ’’مکان‘‘ سے سال بھر کے کوڑا کرکٹ، بیمار، گلے سڑے خلیوں، فالتو چکنائی اور فاسد مادّوں کی صفائی کردیں۔ جسمانی اعضاء، بالخصوص معدہ جو کہ تمام امراض کا گڑھ ہے، اُسے آرام کا موقع مل جاتا ہے اور وہ خود اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔ ماہرین نے ثابت کردیا ہے کہ روزوں کے دَوران بلڈ شوگر، گلوکوز لیول، کولیسٹرول لیول، انسولین اور بلڈ پریشر میں صحت بخش تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں۔ امریکا کی ’’جان ہوپکنز یونی ورسٹی‘‘ کی ایک حالیہ ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ فاسٹنگ سے الزائمر کے مریضوں کو بہت افاقہ ہوا۔ اسی طرح 2017ء میں امریکی جنرل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، فاسٹنگ سے دِل کے امراض، بلڈ پریشر، ذیابطیس، جوڑوں کے درد اور موٹاپے میں کافی افاقہ ہوا۔نیز، روزے کے نفسیاتی فوائد بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ جسمانی اور نفسیاتی خواہشات پر قابو پانا سِکھاتا ہے۔ انسان جب بھوک اور نفسیاتی خواہشات پر رضاکارانہ طور پر قابو پا لیتا ہے، تو اُسے اپنے آپ پر اعتماد حاصل ہو جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ روزوں کے دَوران بہت سے افراد تمباکو نوشی، پان، نسوار اور دوسری بُری عادات سے چھٹکارا پا لیتے ہیں۔

معروف ماہرِ اغذیہ ،پروفیسر ڈاکٹر محمّد احمد بھٹّی نے، جو ایک نجی یونی ورسٹی کے شعبہ ہیلتھ سائنسز کے سربراہ ہیں، روزوں کے بارے میں ایک نہایت اہم پہلو کی طرف توجّہ دِلاتے ہوئے کہا کہ ’’مشہور قول ہے کہ روزہ تو سب رکھ لیتے ہیں یا ’’فاسٹنگ‘‘ پر عمل کرتے ہیں، لیکن ایک سمجھ دار اور عقل مند شخص ہی جانتا ہے کہ اسے کھولنا کیسے ہے۔ ہمارے ہاں افطار میں جن انواع و اقسام کے کھانوں، پکوانوں اور طرح طرح کے مشروبات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پھر سحر و افطار کے وقت جس بے دردی سے کھایا جاتا ہے، اس سے روزے کا بنیادی مقصد فوت ہو جاتا ہے۔جب معدے پر قسم قسم کے کھانوں کی یلغار ہوتی ہے، تو اُس کا آرام غارت ہو جاتا ہے اور اُسے مرغّن غذائیں ہضم کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے سحر و افطار کے وقت ہمیشہ اعتدال کے ساتھ ،زود ہضم غذائوں پر انحصار کرنا چاہیے۔ پکوڑے، سموسے، کچوریاں، دہی بڑے اور دوسری چَٹ پٹی غذائیں ہمیں ذائقہ تو فراہم کرسکتی ہیں، لیکن توانائی کے اعتبار سے ہرگز ہمارے لیے فائدہ مند نہیں۔ روزوں سے ہم صحیح طور پر اُسی صورت فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جب افطار کے وقت بھی ایک محتاط غذائی پلان کے تحت مناسب اور متناسب غذا استعمال کریں۔ اس مقدّس مہینے میں جسم کو اپنی صفائی کا موقع دینا چاہیے، نہ کہ ہم الٹا اس پر مزید بوجھ لاد دیں۔ ‘‘

تازہ ترین